چین کی سرمایہ کاری اورجذبہ تعمیر

مملکت اسلامی جمہوریہ پاکستان اس وقت معیشت کے لحاظ سے اپنی تاریخ کے نازک ترین دور سے گزر رہی ہے۔ ملک کے اندر دہشت گردی کی تازہ ترین لہر نے بیرونی سرمایہ کاروں کو پاکستان کا رخ کرنے سے روک دیا ہے۔ جس سے ملکی ابتری میں مزید اضافہ ہوا ہے۔ یمن کی صورت حال نے پاک سعودی تعلقات میں نامحسوس ہونے والی دراڑیں پیدا کردی ہیں۔ ملک کے حکمرانوں اور عوام کی نظریں اس وقت عوامی جمہوریہ چین کے صدر شی چن پنگ دورہ پاکستان پر لگی ہوئی ہیں ۔ پاک چین دوستی واقعی ہمالیہ سے بلند اور شاہد سے زیادہ میٹھی ہے۔ گزشتہ روز مختلف شعبوں میں اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری کے معاہدوں پر دستخط ہوچکے ہیں۔ لیکن عوام اب بھی غیر یقینی کی صورتحال میں ہیں کہ آیاکہ یہ سارے منصوبے پایہ تکمیل کو پہنچیں گے اور اگر پہنچیں گے تو کیا ان پر اصل رقم خرچ ہوگی یا پھر سابقہ ادوار کی طرح کمیشن اور خردبرد کی نظر ہوجائیگی۔ اس وقت تعمیر وطن کے لئے صدق دل اور مثبت سوچ کی ضرورت ہوتی ہے ۔اقوام ورملک کی تاریخ شاہد ہے کہ جب کسی قوم میں اجتماعی تعمیر وترقی کا جذبہ بیدار ہوتا ہے تو ترقی و خوشحالی ان کی منتظر ہوتی ہے ۔ جاپانیوں نے تعمیر ملت کے جذبات کو استعمال کیا تو صنعتی انقلاب وقوع پذیر ہوا ۔ چینیوں کی بات کی جائے تو محنت و مشقت کی عادی چینی قوم پوری دنیا کی معیشت پر چھا گئی ۔ وقت کی رفتارکے ساتھ جذبوں کی صداقت از حد ضروری ہے ۔جذبہ صادق ہو،سوچ مثبت ہو، محنت رفیق سفر ہو ، تو کامیابی پیش نظر ہوتی ہے۔ اگر اس کے بر عکس تمام اسباب موجود ہوں اور تعمیروطن کا سچا جذبہ موجود نہ ہو تو بہادر جرنیل ، ٹیپوسلطان جیسے سپوت بھی میر جعفر اور میر صادق کی غداری سے لقمۂ اجل بن جاتے ہیں اور قوم اپنے رہبر و رہنما کو تاریخ کی تاریکیوں میں سونے پر مجبور کردیتی ہے ۔رنجیدہ قوم فکر معاش اور تلاش انصاف کے لیے دربدر ٹھوکریں کھاتی ہے منزل تو موجود ہوتی ہے مگر رہبر میسر نہیں ہوتا بقولِ شاعر
؂ بلا رہی تھی ہمیں یہ چیخ چیخ کر منزل
یہ اور بات ہے کہ کوئی بھی رہبر نہ ملا

وطن عزیز گنج گراں مایہ ہے ۔ تاریخ کے اوراق شہیدان آزادی کے لہو سے سرخرو ہیں۔ تعمیر پاکستان اور اقبال کے خواب کی تعبیر میں سچے جذبات کا بحر بیکراں رواں دواں تھا جو منصوبہ انگریز کے مطابق بہت دیر بعد طے ہونا تھا جوشِ مسلم کی بدولت وقت سے پہلے پایہ تکمیل کو پہنچا۔ یاد رکھیے ! پاکستان بنانے والے معاشی طور پر کمزور تھے ،ذہنی طور پر مجبور تھے ان کی طاقت وسکت زوال پذیر تھی لیکن جذبے صادق تھے ۔عوام سچے جذبے کے ساتھ میدان عمل میں محو سفر تھے۔ میر کارواں مخلص اور بے باک تھا تبھی قائد اعظم کہلایا اور وطن عزیز آزاد کرایا۔

پاکستان کے قیام کے بعد ریڈکلف کی ستم ظریفی وجود مملکت کو کمزور کررہی تھی ۔ہندوؤ ں کی مکاری نے حالات کو مزید بدحال کیا لیکن سچے جذبے سے سرشار قوم نے قربانی و ایثار کی لازوال داستان رقم کی اور پاکستان کو ناقابل تسخیر بنادیا۔ پاکستان جو آزادی کے وقت خزاں رسیدہ تھا خون مسلم نے اسے گلزار بنا دیا۔
؂ ہم نے سوکھی ہوئی شاخوں پہ لہو چھڑکا تھا
پھول اگر اب بھی نہ کھلتے تو قیامت کرتے

آج پاکستان کے پاس دنیا کی ہر چیز موجود ہے۔ جغرافیائی لحاظ سے یہ خطہء ارضی دنیا کا انمول رتن ہے۔ جہاں صحرا بھی ہیں سمندر بھی ، میدان بھی ہیں اور کوہسار بھی ۔ ہمارے بلوچستان کے پہاڑ معدنیات سے بھرے پڑے ہیں کوئلہ، کرومائٹ ، لوہا ، جپسم ، معدنی تیل اور گیس منتظر استعمال ہیں ۔ حال ہی میں شور کوٹ کے مکام پر لوہے کے بے پناہ ذخائر دریافت ہوئے ہیں جو ہماری تقدیر بدل سکتے ہیں۔ ضرورت صرف اس امر کی ہے کہ ہم انہیں کس طرح بروئے کار لاتے ہیں۔ میدان سونا اگلتے ہیں تو سمندر جنوبی ایشیاء کی تجارتی گزرگاہ ہے ۔ صحرا شمسی توانائی کا لازوال ذخیرہ ہے عوام محنتی اورکام طلب گار ہیں ۔پھر کس چیز کی کمی ہے ؟۔۔۔۔۔ ہم ایٹمی قوت بھی ہیں اور ڈاکٹر عبدالسلام اور ڈاکٹر عبدالقدیر جیسے سائنسدانوں کے وارث بھی ہیں ۔ہمارے مفکر اقبال اور سرسید ہیں ۔ ہمارے رکھوالے عزیز بھٹی اور راشد مہناس ہیں ۔۔۔۔۔۔ آخر دہشت گردی اورغربت ہمارا مقدر کیوں ہے ؟۔۔۔۔۔ اس کا جواب وطن عزیز کا بچہ بچہ جانتاہے ۔ ہمارا دست سوال دراز ہے اور پوچھتاہے ۔
؂ یہ ہاتھ تیرے سامنے ہے اس لیے دراز
پھوٹی کہاں کہاں سے ہے تقدیر دیکھنا

صاحبان علم و دانش بخوبی واقف ہیں اور تعمیر وترقی ، سچے جذبات ، خلوص و مشقت کے متقاضی ہیں ۔ کسی ملک و قوم کی خوشحالی کیلئے کسی مفکر نے کیا خوب کہا:
" کامیابی کیلئے ذہین ، فطین اور قابل افراد کی نہیں بلکہ مخلص افراد کی ضرورت ہوتی ہے "

حالیہ چین کے صدر کے دورہ کے دوران کھربوں روپے کے نئے منصوبوں کا سنگ بنیاد رکھا جا چکا ہے۔ انہوں نے تو اپنی طرف سے وطنِ عزیز کیلئے دولت کے سَمسَم کھول دیے ہیں۔ اب یہ ہم پر انحصار ہے کہ ہم کمیشن کی آڑ میں ملکی ترقی کا سودا کرتے ہیں یا پھر حقیقی معنوں میں اصل سرمایہ کاری کو فروغ دے کر پاکستان کو جنوبی ایشیاء کے صف اول کے ممالک میں لا کھڑا کردیتے ہیں۔

اگر آج بھی خلوص دل سے کام کیا جائے تو ہم تمام مشکلات کا حل نکال سکتے ہیں۔ دہشت گردی پر قابو پاسکتے ہیں ملکی معیشت کو سنوار سکتے ہیں ۔تعلیمی انقلاب لا سکتے ہیں یہ سب کچھ اسی صورت میں ممکن ہوگا اگر ہم تعمیر ی سوچ لے کر چلیں گے کیوں کہ
؂ اگر ہے جذبہء تعمیر زندہ
تو پھر کس چیز کی ہم میں کمی ہے
Mushtaq Ahmad kharal
About the Author: Mushtaq Ahmad kharal Read More Articles by Mushtaq Ahmad kharal: 58 Articles with 105468 views Director princeton Group of Colleges Jatoi Distt. M.Garh and a columnist.. View More