عالمی دہشت گردی میں پاکستان کا جرم

پرانی کہاوت ’’آبیل مجھے مار‘‘ کی تشریح اگر عالمی دہشت گردی کے تناظر میں کی جائے تو یہ مثال پاکستان پر خوب صادر آتی ہے ہم جب سے اپنی خارجہ پالیسی کا قتل عام کرنے کے بعد دہشت گردی کے خلاف محاذ آرائی کا حصہ بنے ہیں دنیا کے کسی بھی کونے میں ہونے والی دہشت گردی میں پاکستان کے ملوث ہونے کی بات ہوتی ہے 1950سے 1960 کی دہائی میں ہم امریکی بلاک کا حصہ بنے رہے اس وقت روس کوناراض کرنے کی بات تھی آج ہم امریکی برطانوی بلاک کا حصہ ہیں اور ناراض خداکو کررہے ہیں اللہ تعالی نے واضح طور پر ارشادفرمایاہے ’’اوریہود نصاری تمہارے کبھی دوست نہیں ہوسکتے ‘‘ پھر بھی اسلام کے حقیقی تشخص کے برعکس ہم نے غیر ایمانی قوتوں کا ساتھ دیا ہے قبلہ اول پر قابض اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم ہورہے ہیں پٹینا گون میں حملوں کا جواز بناکر جس طرح پہلے افغانستان اور پھر عراق پر دہشت گرد انداز میں حملے کئے گئے وہاں کی حکومتوں کو Over take کرکے کٹھ پتلی حکومتیں قائم کی گئیں وہاں اس گھناؤ نے کھیل کا نام تدارک دہشت گردی رکھا گیا امریکہ کا جدید ترین سسٹم کس طرح نا کام ہو گیا اور ایک ہی وقت چارجہاز ہائی جیک ہوئے وار آج تک کوئی تحقیقاتی رپورٹ منظر عام پہ نہیں آسکی دینا کے سب سے بڑے ملک امریکہ اوروبرطانیہ کوکبھی کشمیر دہشت گردی نظر نہیں آئی گجرات اوراحمد آباد میں مسلم کش فسادات دہشت گردی کے زمرے میں کیوں نہیں آتے ؟ اس لئے کہ بھارت ان کی اشیاء کا سب سے بڑا خریدار ملک ہے ۔

فلسطین کی طرف ان کی نظریں اس لئے نہیں جاتیں کیوں کہ وہاں ان کا پالتو اسرائیل موجود ہے یہا ں دہشت گردی کے پیمانے بدل گئے ہیں ان کی بات چھوڑ یں ہم خود مجاہدین کو مزاحمت کاروں کے نام سے پکارتے ہیں ہم تو خود مجاہد ین کو پکڑکرامریکہ کے حوالے سے القائدہ کانام دے کراپنے کارناموں کی فہرست طویل کرنے کے چکروں میں لگے ہوئے ہیں وہ طالبان جن کو ہم نے پال پوس کر بڑا کیا جب اڑنے کے قابل ہوئے تو ہم نے ان کے پر کٹوادیے ہمارے تو اپنے دیس کے لوگوں کی لاشیں پیروں تلے روندی جارہی ہوتی ہیں اور جینی انجنیئر ز کو مکمل پروٹوکول پا ک افواج کی سلامی اور حکومتی اراکین کے ساتھ انکے وطن روانہ کرتے ہیں ایک لاکھ پاؤنڈ کے علاوہ قوم کے ہر فرد سے معافی منگواتے ہیں ۔

پہلے بھار ت کی یہ روش تھی کہ اپنے ملک میں ہونے والے تمافسادات کا لزام پاکستان پر ڈال دیتا تھا اب تو برطانیہ نے بھی حتیٰ کہ مصرنے بھی پاکستان کو آنکھیں دکھانا شروع کردی ہیں حقائق وواقعات کچھ بھی سامنے آئیں پہلا حدف پاکستان ہوتا ہے ہماری خارجہ پالیسی میں لچک کا خمیازہ بیرون ملک ہرپاکستانی بھگت رہا ہے اب تو انہیں پاکستانی یا مسلماں کہلوانے میں آر محسوس ہوتی ہے ۔

بیرون ملک مسلم طبقہ عجیب و غریب کشمکش اور نفسیاتی دباؤکا شکار ہے یورپی ممالک نے اسلام کی شبیہہ کواس طرح بگاڑ کردنیا کے سامنے پیش کیاہے کہ لوگ مسلمانوں سے خوفزدہ ہیں جس جہاز پرکوئی مسلمان سوار ہووہ اپنی بکنگ کینسل کروادیتے ہیں اب توامریکہ اور برطانیہ میں کسی ایسے شخص کو پاسپورٹ جاری نہیں کیا جائے گا جس کا نام اسامہ ہوگا امریکہ اوربرطانیہ کی بیساکھیوں پرچلنے والے اقوام متحدہ کو تو صرف امریکہ کی آنکھ سے دیکھنا پڑتا ہے امریکہ اور برطانیہ سے آشیر بادلئے بغیر آج کوئی بھی ملک اپنی معیشت کو مستحکم نہیں کر سکتا کیوں کہ ہم نے آنے والی کئی نسلوں کے لئے غلامی کا طوق تیا ر کرکے رکھ دیا ہے -

ایک مرتبہ پھر افغانستان اور عراق کی طرف آتے ہیں جہاں انسانی حقوق کی وہ پامالی ہوئی جس کو خود امریکی اور برطانوی فوجی اہلکارتسلیم کرتے ہیں ابو غریب جیل اور گوانتانا موبے میں جو کچھ ہو اوہ کسی سے چھپا ہوا نہیں تین سو معصوم افغانیوں پر جب بم گرادیے تھے تو وہاں صرف معذرت سے کام چل گیا تھا یہ دہرا معیار کیوں ؟ عراق کے معاملے میں تو ہمیں اپنے رنج یاد آگئے تھے عام افغانیوں اور عراقیوں کا قتل عام ہو رہا ہے امریکی فوج بری طرح پھنس چکی ہے لیکن نام نہاد عزت کی بقااور دنیا میں ذلت کے خوف سے واپسی کا ٹائم فریم نہیں دیا جا رہا ملا عمر اسامہ بن لادن اور ابو مصعب زر قادی کے سروں کی قیمت کروڑوں ڈالر مقرر کی گئی ہے یہ پاکستان کے قبائلی علاقوں میں روپوش ہیں یا نہیں ہم کبھی تردید کرتے ہیں کبھی انجان بن جاتے ہیں امریکہ کی ان غیر منصفانہ پالیسیوں نے خود کش حملوں کو جنم دیا ہے جن کو روکنا فی الحال یا شاید کبھی بھی ممکن نہ ہو پوری دنیا پر اپنا تسلط قائم کرنے کا امریکی خواب جب بھی پورا ہوایہ بات توعیاں ہے کہ امریکہ نے اتنے محاذ کھول رکھے ہیں کہ وہ مزید کا متحمل نہیں ہوسکتا اب اس کی نظر ایران کی طرف ہے لیکن اسے یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ ایران ایک ایٹمی قوت ہے اور کوئی بھی جلدبازی میں کیا گیا جارحانہ فیصلہ اسے مہنگا پڑے گا ان حالات میں پاکستان کی پالیسی کیاہو گی ابھی کچھ کہنا قبل از وقت ہے پاکستان کب تک بیلوں کی لڑائی میں جڑی بوٹیوں کی طرح پستا رہے گا اس پر تبصرہ کرنا بے کار کی بحث ہے کم از کم ایک بات تو واضح ہے کہ دنیا کے کسی بھی خطے میں کوئی فساد ہوگا کو ئی بم پھٹے گا کوئی ریل پٹڑی سے اترے گی ہم اس کی دمہ داری قبول کرنے اور معافی مانگنے کے لئے تیار ہیں دینا کے کسی دہشت گرد باشندے کو پاکستانی ثابت کیاجائے گا ہم سرخم تسلیم کرلیں گے ہم نے نہ صرف بین دہشت گردی کے خلاف اتحاد کا حصہ ہیں بلکہ ہمہ قسمی دہشت گردی کی دمہ داری قبول کرنے کا بھی تہیہ کر لیا ہے ہم امریکہ اور برطانیہ کے اتحادی ہیں تو پھر ہمیں کس سے ڈر ہے اپنوں سے تو لاڈ ہوتے رہتے ہیں جب سزا کا کوئی خطرہ نہ ہو تو پھر اقرار جرم کرلینے میں مضائقہ ہی کیا ہے بات یہیں ختم کرتے ہیں ۔
مجھے خبر ہے لٹیروں کے ہر ٹھکانے کی
شامل جرم نہ ہوتا تو مخبری کرتا شامل جرم نہ ہوتا تو مخبری کرتا

Mushtaq Ahmad kharal
About the Author: Mushtaq Ahmad kharal Read More Articles by Mushtaq Ahmad kharal: 58 Articles with 106481 views Director princeton Group of Colleges Jatoi Distt. M.Garh and a columnist.. View More