پاکستانی سیاستدان قومی ترقی کے دشمن کیوں؟

پاکستان شاید دنیا کا واحد ملک ہے جس کے سیاست دان نہ صرف قومی مفاد پر ذاتی مفاد کو ترجیح دیتے ہیں بلکہ اپنے ضدی پن اور غلط رویے کی وجہ سے ملکی خوشحالی ترقی کے بھی دشمن بن جاتے ہیں ۔ ان سیاست دانوں میں ایم کیو ایم کے الطاف حسین ٗ تحریک انصاف کے عمران خان ٗ جمعیت علمائے اسلام کے مولانا فضل الرحمن ٗ عوامی نیشنل پارٹی کے اسفندیار ولی ٗ ڈاکٹر طاہر القادری اور شیخ رشید سرفہرست ہیں ۔ ویسے تو آصف علی زرداری بھی لیٹروں کے سردار ہیں لیکن لوٹ مار کے باوجود وہ کسی نہ کسی لمحے پاکستان کے حق میں مثبت بات کر جاتے ہیں۔ جب بے نظیر کا اسلام آبادمیں قتل ہوا تو صوبہ سندھ میں نفرت کے شعلے بلند ہورہے تھے حتی کہ نوازشریف کو بھی سندھ میں جانے سے یہ کہتے ہوئے روک دیاگیا کہ ان حالات میں وہاں جانا مناسب نہیں۔ اس لمحے زرداری نے پاکستان کھپے کا نعرہ لکا کر سندھیوں کے دل میں پیدا ہونے والی نفرت کو ختم کر دیا تھا اب جبکہ چین کی جانب سے سرمایہ کاری کا سیلاب پاکستان کو خوشحال بنانے کے لیے آرہا ہے توایک بار پھربدنیت اورصدی سیاست دان اپنی لمبی زبانی نکال کر چین کی جانب سے اقتصادی راہداری کے منصوبوں کے خلاف بیانات دے رہے ہیں بلکہ خیبر پختوانخواہ اور بلوچستان میں نفرت کی آگ بھڑکا رہے ہیں۔ تو دوسری جانب آصف علی زرداری نے نہایت مثبت بات کی کہ ہم چینی منصوبوں کو ہر حال میں مکمل دیکھنا چاہتے ہیں کیونکہ پاکستان کی سلامتی ترقی اور بقا انہیں منصوبوں کی تکمیل سے وابستہ ہے۔ اس کے برعکس اسفند یار ولی بھارتی نمک خوار ہونے کا ثبوت دیتے ہوئے ان چینی منصوبوں کو بھی کالا باغ ڈیم بنانے کا اعلان کررہے ہیں یہ بھی شنید ہے کہ بھارتی خفیہ ایجنسی نے اربوں روپے ان پاکستانی سیاست دانوں اور میڈیا کے افرادمیں تقسیم کیے ہیں جونمک ہلالی کرتے ہوئے پاکستان اور چین کے مضبوط رشتوں کو ہر ممکن کمزور کرنے کے جتن میں مصروف ہیں ۔ کون نہیں جانتا کہ یہ سرخ پوش کھاتے اور رہتے پاکستان میں ہیں لیکن وفاداری بھارت سے نبھاتے ہیں ۔الطاف حسین 68 سال کے بعد بھی خود کو پاکستانی نہیں بنا سکے وہ نہ صرف پاکستان کو ٹکڑوں میں تقسیم کرنے کی ہر سازش میں شریک دکھائی دیتے دیتے ہیں بلکہ دو کروڑ آباد ی والے شہرمیں قتل و غارت گری ٗاغوا کاری ٗ بھتہ خوری اور ٹارگٹ کلنگ کا بازار گرم کررکھا ہے کہ پاکستان کی اقتصادی رگ ایم کیو ایم کی مٹھی میں بند ہے۔پاکستان دنیا کا شاید واحد ملک ہے جہاں ایک برطانوی شہر ی کے روپ الطاف حسین حکومت اور پاک فوج کو کھلی دھمکیاں دے رہے ہیں۔شرم سے ڈوب مرنے کا مقام تو یہ ہے کہ پاکستانی میڈیا زہر آلود تقریر کو تین چار گھنٹے مسلسل دکھاکر ذہنوں کو مفلوج کررہا ہے۔ آزاد میڈیا کو لگام دینے والا کوئی ہے اور نہ ہی الطاف کی زبان کوبند کرانے والا ۔اگر پیمرا نے اسی طرح خاموشی اختیار کرنی ہے تو بہتر ہے یہ اتھارٹی بند ہی کردی جائے۔ ایس ایس پی ملیر راؤ انوار جیسا بہادر شخص ابھی تک پاکستان میں پیدا نہیں ہوا جس نے اپنی جان کو خطر ے میں ڈال کر الطاف حسین اور ایم کیو ایم کا بھیانک چہرہ قوم کو دکھایا ہے لیکن الطاف سے خوفزدہ حکمرانوں نے اسے معطل کردیا۔اب الطاف حسین نے سچ کہنے پر راؤ انوار کو توپ سے اڑانے کی دھمکی دی تھی ان حالات میں حکومتی اداروں کی خاموشی مجرم کو مزید حوصلہ فراہم کرتی ہے۔حکومت اگر دہشت گردوں اور ان کے سہولت کاروں کے خلاف سخت کاروائی کا عندیہ دے رہی ہے تو ایم کیو ایم کے دہشت گردوں اور سہولت کاروں آزاد کیوں چھوڑ رکھا ہے۔اس کے باوجود کہ عمران کوخود کو بہت اعلی دماغ کا حامل سیاست دان تصور کرتے ہیں ۔ پہلے ان کے دھرنا چینی صدر کے دورہ میں تاخیر کا باعث بنااور اب عظیم چینی منصوبوں پر کام شروع ہوا ہے تو وہ ایک بار پھر دھاندلی دھاندلی کا شور مچا کر ملک کو عدم استحکام کا شکار کرنا چاہتے ہیں۔عمران کی طرز حکمرانی کا بہترین نمونہ خیبر پختونخواہ میں دیکھاجاسکتا ہے پھر2013ء کے الیکشن میں دھاندلی کا شور مچانے والے عمران کی اپنی پارٹی کے الیکشن کتنے منصفانہ ہوئے ہیں وہ بھی سب کے سامنے ہیں ۔ تحریک انصاف کے منتخب صدر جاوید ہاشمی کو غیر جمہوری انداز میں اپنے عہدے سے ہٹانا بھی عمران کے آمرانہ رویے کا عکاس ہے۔کنٹونمنٹ بورڈ کے الیکشن میں مسلم لیگ ن کی واضح اکثریت دیکھنے کے باوجود عمران ہر وہ راستہ اختیار کرنا چاہتے ہیں جس سے عدم استحکام پیدا ہو اور چینی منصوبے کالابا غ ڈیم کی طرح ہمیشہ کے لیے ملتوی ہوجائیں۔عمران نوازشریف کا دشمن نہیں ہے یہ پاکستان کی ترقی کا دشمن ہے جو شیخ رشید جیسے بے ضمیر شخص کے اشاروں پر ناچتا ہے ۔مولانا فضل الرحمن جنہیں لوگ مولانا ڈیزل کے لقب سے بھی پکارتے ہیں وہ چند نشستوں کے بل بوتے پر پورے پاکستا ن کی سیاست کو مٹھی میں بند کرنا چاہتے ہیں وہ بھی اٹھتے بیٹھے چینی منصوبوں کے لیے زہر اگلتے رہتے ہیں ۔سعودی عرب کی حمایت میں لاکھوں کے جلسے کرنے والے یہ مذہبی راہنما اسمبلی میں قرار داد کی حمایت کیوں نہیں کرسکے ۔اگر انہیں سعودی عرب سے اربوں کے فنڈز ملتے ہیں تو وہ خود مولوی سعودی عرب کی جانب سے یمن کی خانہ جنگی میں شریک کیوں نہیں ہوتے۔ پاک فوج کے افسر اور جوان دفاع وطن کی جنگیں لڑتے لڑتے شہادتوں کے جام پی رہے ہیں وہ ان مولویوں کے مفاد کی خاطر یمن کی خانہ جنگی میں کیوں شریک ہوں۔یہی عالم طاہرالقادری کا ہے جن کے پیٹ میں پاکستانی عوام سے محبت کادرد تو اٹھتا ہے لیکن وہ پاکستانیوں کو چھوڑ کر کینیڈا میں زندگی کو انجوائے کررہے ہیں۔ضرور ت اس امر کی ہے کہ دھاندلی دھاندلی اور الیکشن کا شور مچانے کی بجائے 2018ء کا انتظار کیاجائے اور چینی منصوبوں پر تیزی سے عمل کرنے کے لیے حکومت فری ہینڈ دیاجائے ۔ یہ چینی منصوبے نوازشریف کی خوشحالی کے لیے نہیں ہیں بلکہ ان کثیرالمقاصد منصوبوں سے پاکستانی قوم کا مستقبل وابستہ ہے ۔ ایسے مواقع بار بار نہیں آیا کرتے ۔یہ وقت گندی سیاست اور الزام ترشی کا ہرگز نہیں ہے بلکہ سب اکٹھے ہوکر اقتصادی راہداری کے منصوبوں کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کا وقت ہے ۔
Aslam Lodhi
About the Author: Aslam Lodhi Read More Articles by Aslam Lodhi: 802 Articles with 785189 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.