مرزا بمقابلہ زرداری

ایک دور تھا جب سڑکوں پر پیدل چلنے والوں کی حکومت ہوتی تھی، جب چاہا جہاں سے چاہا، سڑک پار کرنا شروع کردیتے اور گاڑی والے ایمرجنسی بریک لگانے پر مجبور ہوجاتے۔ پھر ہوا یوں کہ موٹرسائیکل کی بہتات ہوگئی، سڑکوں پر بڑی گاڑیوں سے زیادہ موٹرسائیکل دوڑتے نظر آتے ہیں۔ موٹرسائیکل پیدل چلنے والوں کے لیے شامت ہیں، یہ ایسے کٹ مارتے ہیں کہ پیدل چلنے والا دل تھام لیتا ہے، اب صورت حال یہ ہے کہ لوگ سڑک پار کرتے ہوئے بڑی گاڑیوں سے اتنا نہیں ڈرتے جتنا موٹرسائیکلوں کی ’’کٹ بازی‘‘ سے خوف کھایا جاتا ہے۔ اگلی بات یہ کہ جب موٹرسائیکل سواروں نے ’’اندھی‘‘مچائی تو ان پر ڈمپر کی صورت میں ’’عذاب‘‘ آگیا۔ موٹرسائیکل والوں کو ڈمپر دیکھتے ہی پسینہ آجاتا ہے۔ یعنی ہر چیز کو کنٹرول میں رکھنے کے لیے کوئی دوسری مقابلے میں ہوتی ہے، آئے دن ہم ان چیزوں کا مشاہدہ کرتے رہتے ہیں۔

پاکستان میں برسوں سے دو پارٹی سسٹم چلا آرہا تھا، کبھی پیپلزپارٹی حکومت بناتی تو کبھی مسلم لیگ۔ 2013ء کے عام انتخابات میں ن لیگ دو تہائی اکثریت کے ساتھ جیتی، جبکہ اس کی روایتی حریف جماعت پیپلزپارٹی کا صفایا ہوگیا۔ ایک طرح سے ن لیگ کی بادشاہت قائم ہوجاتی اگر اس موقع پر تحریک انصاف میدان میں موجود نہ ہوتی۔ عمران خان کی پالیسیاں ٹھیک ہیں یا غلط، یہ ایک لمبی چوڑی بحث ہے، البتہ اتنا ضرور ہے کہ پی ٹی آئی، ن لیگ کے لیے ’’مصیبت‘‘ ضرور بن گئی ہے۔ اس طرح ملکی سیاست میں ایک طرح کا توازن قائم ہوگیا ہے۔ ن لیگ اور پی ٹی آئی کے حامی تو صبح شام ایک دوسرے کے لتّے لیتے ہیں، مگر درمیان میں آصف زرداری مزے سے بیٹھے تماشا دیکھ رہے تھے، بلکہ 100 چوہے کھانے کے باوجود وہ ایک ’’مدبر‘‘ اور ’’ہر دلعزیز‘‘ سیاست دان کے طور پر سامنے آرہے تھے، اس معاملے میں ان کے لیے میدان بالکل صاف تھا، سینیٹ کے انتخابات میں خوب جوہر دکھائے، سندھ میں بھی جو ان کے دل میں آتا کرگزرتے تھے، کوئی پوچھنے والا نہیں تھا، مگر آج کل یہ صاحب بری طرح پھنسے ہوئے ہیں، یہ اپنے ہی دوست ذوالفقارمرزا کے نشانے پر ہیں، بڑی محنت سے جو ’’سوفٹ امیج‘‘ بنایا تھا، وہ داؤ پر لگ گیا ہے۔

زرداری صاحب کے حصے میں جو ’’دشمن‘‘ آیا ہے، وہ بھی ان کی طرح ہر قسم کے اخلاقی اور قانونی ضابطوں سے آزاد ہے۔ مرزا گھر کا بھیدی تو ہے، اس میں کوئی شک نہیں مگر یہ اس طرح لنکا ڈھائے گا، کسی کے وہم وگمان میں بھی نہیں تھا۔ ذوالفقارمرزا صبح شام میڈیا کے سامنے جس طرح قسمیں کھا کھاکر بیانات داغ رہے ہیں، اس نے بے چارے زرداری کو بیمار کردیا ہے۔ اخبارات میں خبر چھپی ہے کہ زرداری صاحب ایک نجی ٹی وی پر اپنے سابقہ دوست کا انٹرویو دیکھ رہے تھے، وہیں بیٹھے بیٹھے دل وجگر کو تھام لیا، شدید ڈپریشن کی وجہ سے الٹیاں ہونے لگیں، بات یہاں تک پہنچی کہ بھاگم بھاگ ڈاکٹروں کو بلوایا گیا، جنہوں نے ڈرپ لگائی اور کچھ دوا دارو کیا، دوسرے روز بھی صاحب کی طبیعت نہ سنبھل سکی، ظہرانے پر گیلانی، پرویزاشرف اور پنجاب بھر کے پارٹی عہدیداروں کو مدعو کررکھا تھا، مگر آصف زرداری بستر میں ہی پڑے رہے، آنے والے کسی مہمان سے ملے تک نہیں۔ مرزا نے سابق صدر کو فٹبال بنایا ہوا ہے، جس طرف دل کرتا ہے، زوردار لگادیتے ہیں۔ چند روز قبل ایک نجی ٹی وی کے پروگرام میں بڑی بڑی قسمیں اٹھانے کے بعد بتایا: ’’آصف نے زمین کے تنازع پر اپنی سگی چچازاد بہن کو قتل کرایا‘‘ یہی نہیں، انہوں نے سابق صدر پر چھ سات دیگر افراد کو بھی قتل کرانے کا الزام لگایا۔ آصف زرداری پر پہلے بھی اس نوعیت کے الزامات لگتے رہے ہیں، بلکہ زمین کے تنازعے پر ایک جج کو قتل کرانے کا ان پر مقدمہ بھی چلا تھا۔ اخلاقی حوالے سے آصف زرداری کی شہرت پہلے بھی اچھی نہیں ہے، مگر مرزا نے ان کی شخصیت کو مزید داغ دار کردیا ہے۔ آج کل میڈیا میں ایان نامی ایک ماڈل کی گرفتاری کا بڑا چرچا ہے، انہیں اسلام آباد ایئرپورٹ سے غیرقانونی طور پر لاکھوں ڈالر بیرون ملک لے جاتے ہوئے پکڑا گیا تھا۔ کہا جاتا ہے کہ وہ سیاست دانوں کے پیسے بیرون ملک لے کر جاتی ہے، اس حوالے سے عبدالرحمن ملک کے بھائی کا نام باربار سامنے آرہا ہے، مگر مرزا کا دھماکا خیز انکشاف یہ ہے کہ یہ پیسا زرداری کا تھا، زرداری ماڈل سے شادی کرنے ہی والے تھے، مگر وہ گرفتار ہوگئی۔ مرزا نے آصف زرداری اور ماڈل کے درمیان تعلقات سے متعلق کچھ اور بھی انکشافات کیے ہیں، جبکہ وہ وپیپلزپارٹی کے دیگر راہنماؤں کے بارے میں ایسے ایسے آن دی ریکارڈ اور آف دی ریکارڈ ’’انکشافات‘‘ کررہے ہیں، جنہیں حساس قارئین سے شیئر کرتے ہوئے شرم آتی ہے۔

آصف زرداری اور ذوالفقارمرزا کی دوستی تو ضرب المثل تھی، پھر ایسا کیا ہوا جو مرزا اپنے دوست کو چوراہے پر ننگا کرنے پر تلا ہوا ہے؟ بہت سے لوگوں کا خیال ہے کہ اس تنازع کی بنیاد دو شوگر ملز ہیں، جو ذوالفقارمرزا کی ملکیت تھے، مگر آصف زرداری نے مبینہ طور پر اپنے فرنٹ مین انور مجید کے ذریعے ان پر قبضہ کرلیا۔ بعض لوگ کہتے ہیں مرزا سندھ حکومت میں اپنے بیٹے کو ’’باعزت‘‘ مقام نہ دینے پر ناراض ہوئے۔ ایک رائے یہ بھی سامنے آرہی ہے کہ ذوالفقارمرزا کی شدید خواہش تھی کہ ایم کیو ایم کو ٹف ٹائم دیا جائے اور الطاف حسین کے خلاف گھیرا تنگ کیا جائے، لیکن زرداری مسلسل ایم کیو ایم کو سینے سے لگائے ہوئے ہیں۔ خود ذوالفقارمرزا کا اپنی پریس کانفرنسوں میں زیادہ زور شوگر ملوں اور سندھ میں انور مجید کے کردار پر رہا ہے۔ جس سے اس خیال کو تقویت ملتی ہے کہ اس تنازعے کی اصل بنیاد مالی مفادات کا ٹکراؤ ہے۔ البتہ ایک اور معاملہ بھی ہے جسے پیش نظر رکھنا چاہیے۔

ذوالفقار مرزا کے زرداری مخالف بیانات اس وقت سامنے آنا شروع ہوئے ہوئے جب دبئی میں عزیر بلوچ کو حراست میں لے لیا تھا۔ سب جانتے ہیں کہ لیاری میں مسلح گینگ ذوالفقارمرزا نے تشکیل دیا تھا، جب وہ صوبائی وزیرداخلہ تھے، وہ اپنی کئی پریس کانفرنسوں میں اس گینگ وار میں اسلحہ بانٹنے کا اعتراف کرچکے ہیں۔ پیپلزپارٹی نے تنظیمی اور حکومتی سطح پر کھل کر اس گینگ کی سرپرستی کی تھی، اس سرپرستی کا مقصد شہر میں اپنے مخالفین کو برابر کا جواب دینا تھا، یہ الگ بات ہے کہ یہ گینگ بعد میں خود پیپلزپارٹی کے گلے میں پڑگیا۔ پیپلزپارٹی کے دور میں لیاری میں آپریشن شروع ہوچکا تھا، لیکن وہ بس رسمی نوعیت کا تھا، نئی حکومت کے قیام کے بعد رینجرز نے بھرپور آپریشن کیا جس نے مسلح گینگ کی کمر توڑ دی، بیشتر کارندے مارے گئے، جبکہ کئی ایک بیرون ملک فرار ہوگئے، جن میں پی پی پی کے زیرسرپرستی کام کرنے والے گینگ کا سربراہ عزیر بلوچ بھی شامل تھے، یہ جعلی پاسپورٹ کے چکر میں دبئی میں پکڑا گیا، پچھلے دنوں اسے رہائی ملی ہے۔ ذوالفقارمرزا کی خواہش تھی کہ کراچی میں ایم کیو ایم سے مقابلہ کرنے کے لیے گینگ کی مدد کرنی اور اسے آپریشن سے بچانا چاہیے، جبکہ پیپلزپارٹی کی قیادت اس گینگ سے جان چھڑانا چاہتی تھی۔ شاید زرداری اور مرزا میں بنیادی اختلاف یہیں سے شروع ہوا اور آہستہ آہستہ اس میں دیگر چیزیں بھی شامل ہوتی گئیں۔ عزیربلوچ کے پاس مرزا کے بہت سے راز ہیں، شاید وہ اس لیے بھی خوفزدہ تھے اور ہر صورت گینگ کے سربراہ کا تحفظ چاہتے تھے۔ عزیر بلوچ کی رہائی اگر سیاسی بنیادوں پر ہوئی ہے تو اس کے نتائج جلد یا بدیر ضرور زرداری اور مرزا کے درمیان صلح کی صورت میں سامنے آئیں گے۔
munawar rajput
About the Author: munawar rajput Read More Articles by munawar rajput: 133 Articles with 111172 views i am a working journalist ,.. View More