شعلہ بیان یا سلگتا بیان

ایک زمانہ تھا جب بھی کسی قوم کے اندر کسی تحریک کا آغاز ہوتا تو قائدین اپنی تحریروں اور تقریروں سے انقلاب برپا کر دیتے۔ قوم میں ایک نیا جوش و ولولہ انگڑائیاں لیتا۔ منزل کی نشاندہی اس انداز میں کی جاتی کہ آغاز میں ہی کوشش سے کامیابی قدم چومنے لگتی۔ لیڈر صرف تقریریں نہیں کرتے تھے حقیقت میں اس پر عمل پیرا ہوتے۔ قوم انہیں اپنا نجات دہندہ سمجھتی۔ ان کی ایک آواز پر لبیک کہتی۔ ڈنڈا گولی سے ڈرنے کی بجائے سینہ تان کر سینہ سپر ہو جاتی۔ چاہے مسجد شہید گنج کا معاملہ ہو یا سانحہ جلیانوالہ باغ ہو۔ آزادی کے بنیادی حقوق کے لئے آواز بلند کی جاتی۔

انفرادی کوشش سے نہ تو تحریکیں چلیں اور نہ ہی حقوق کا حصول ممکن ہوا ہے۔ قوموں کے اندر ہی سے ان کے رہنما پیدا ہوتے۔ جو صحیح معنوں میں صرف حقوق کی آزادی کے لئے نہیں لڑتے بلکہ رہنمائی بھی کرتے۔ صحیح خطوط پر سیاسی وابستگی کا استعمال کیا جاتا۔ ذاتی مفادات و کاروبار کا قریب سے بھی گزر نہیں ہوتا۔ عوام سے کئے گئے وعدے وفا ہوتے۔ جن کے بل بوتے پر اسمبلی میں جاتے۔ انہی کے لئے بے چین رہتے۔ جلسہ میں ہوتے یا اسمبلی میں اپنی شعلہ بیانی سے مجلس گرما دیتے۔ ایسے شعلہ بیان مقرر جلسوں میں تقریر سے، اخبارات میں اپنے کالموں سے نئی روح پھونک دیتے۔

تاریخ شاہد ہے کہ نئی نسل کو شعلہ بیان رہنماؤں نے ایک اچھے مستقبل کی نوید دلائی۔ مگر اب حالات بدل چکے ہیں۔ لیڈر بہک چکے ہیں۔ قوم سہم چکی ہے۔ کیونکہ جب سے دنیا گلوبل ولیج بنی ہے۔ انٹرنیٹ پر کاروبار، اشتہارات، اخبارات، غرض میرے جیسے مضمون نگار بھی انٹرنیٹ پر پائے جاتے ہیں۔ جنہیں کوئی بھی اپنے دو کالمی خبر کے قابل نہ سمجھے۔ مگر کیا کریں ہمیں تو کام لینا نہیں آتا۔ کسی بڑے تعلق کا بھی مان نہیں۔ صرف نماز میں ہی ہاتھ باندھنے سے خوشی ملتی ہے۔ جھکنا صرف سجدہ میں جانے کے لئے ہی اچھا لگتا ہے۔

ہمیں کوئی خواہش نہیں کہ بڑے لیڈر سے ربط بڑھے۔ ٹی وی پر انٹرویو ان کا ہو اور گردن اُٹھا اُٹھا کر کیمرے کو منہ چڑاتے پھریں۔ ان کی فائلیں، موبائل فون، ڈائری کسی اور کے ہاتھ میں ہو اور وہ دونوں ہاتھ صرف سمیٹنے کے لئے خالی رکھیں۔ بھلا ہو لنڈے میں سستے داموں ملنے والے ٹو پیس سوٹ کا امیر غریب کا فرق مٹا دیا۔ صرف خالی ہاتھ دیکھنے سے اندازہ ہوتا ہے کہ لیڈر یہی ہے ڈائری، فائلیں، فون ہاتھ میں رکھنے والا اسسٹنٹ ہے۔ حکومتیں جب بھی کوئی نیا بلدیاتی نظام متعارف کرواتی ہیں تو مقصد عوامی بھلائی نہیں ہوتا بلکہ اسسٹنٹ بنانے میں چھانٹی کا عمل ہے۔ تاکہ زیادہ سے زیادہ فائلیں اُٹھانے والے میسر ہوں۔ قوم سمجھتی ہے کہ فائلوں میں وہ پراجیکٹ ہیں جو ان کی بھلائی واسطے شروع کئے جانے والے ہیں۔ مگر وہ تو مہنگے پلاٹوں کی اوپن فائلیں ہوتیں جن کو بیچ کر پیسے کھرے کئے جاتے ہیں۔

مگر میں یہ کیا کر رہا ہوں کوئی نئی بات ہو تو یہاں ذکر کروں بھلا ان باتوں کا یہاں کیا تعلق۔ سب ہی تو جانتے ہیں بلکہ کچھ زیادہ ہی جانتے ہیں۔ ایک آدھ واقعہ بیان کرنا وقت کا ضیاع ہے قاری کا۔ پہلے کیا کم مسائل سے دوچار ہیں کہ اب پڑھنے کا بھی بوجھ ڈال دوں ان پر۔ روزانہ ہی نت نئے تازہ حالات پر لب کشائی کی جاتی ہے اور میں ہوں کہ وہی پرانی باتوں کو لیکر بیٹھ جاتا ہوں۔

اب کیا کیا جائے نیا مصالحہ ملتا نہیں ورنہ ہم بھی سیاسی بریانی کی نئی دیگ تیار کر ہی دیں۔ پہلے خبریں گھروں تک پہنچانے والے سینہ گزٹ سے پیراستہ تھے۔ اب خبریں گھروں سے باہر لائی جاتی ہیں۔ میڈیا بہت آگے جاچکا ہے۔ ہم پیچھے پیچھے چل تو پڑے ہیں۔ اب کہیں گر نہ پڑیں تیزی میں چلنے کی دوڑ میں۔ بہت عرصہ ہوا کسی جلسہ میں جانے کا اتفاق نہیں ہوا۔ ٹی وی پر تقاریر سننے کو مل جاتی ہیں۔ تقریریں بھی ایسی کہ آگ لگانے کی ضرورت ہی نہیں بھڑکی بھڑکائی۔ ایک دن تقریر دوسرے دن تابڑ توڑ جوابی حملے۔ کبھی صفائیاں تو کبھی تاویلیں۔

ایک زمانہ تھا رہنما شعلہ بیان تھا۔ آج کیا زمانہ ہے سلگتا بیان ہے۔ چھپتے ہی آگ بھڑکا دیتا ہے۔
Mahmood ul Haq
About the Author: Mahmood ul Haq Read More Articles by Mahmood ul Haq: 93 Articles with 96068 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.