گزشتہ ہفتے جماعت اسلامی صوبہ
سرحد کے رہنما اور سابق رکن قومی اسمبلی صاحبزادہ ہارون الرشید صاحب کے گھر
کو بمباری کر کے اڑا دیا گیا، اس سانحے میں ان کی اسی سالہ بزرگ والدہ اور
بھانجی شہید ہوگئیں۔ پاک فوج کی جانب سے دعویٰ کیا گیا کہ اس گھر میں مشتبہ
دہشت گرد موجود تھے اسی لئے اس گھر کو نشانہ بنایا گیا۔ اس طرح جماعت
اسلامی کی امریکہ مخالفت کو دبانے کی کوشش کی گئی ہے کیونکہ جماعت اسلامی
کی گو امریکہ گو مہم میں تیزی آتی جارہی تھی جبکہ صاحبزادہ ہارون الرشید
صاحب قبائلی علاقہ جات کی ایک معروف اور ہر دلعزیز شخصیت اور وہاں امریکہ
کے بڑھتے ہوئے اثر رسوخ کے خلاف ایک توانا آواز تھے، اس وحشیانہ کاروائی کے
ذریعے ان کو خوفزدہ کرنے کی کوشش کی گئی۔ عوام کی اکثریت کے نزدیک پاک فوج
اور فورسز کی یہ کاروائی بالکل درست ہے، لیکن یہ عجیب بات ہے کہ دہشت گردوں
کی موجودگی کا جواز بنا کر جس گھر کو نشانہ بنایا گیا تھا اس گھر میں
بمباری سے صرف ایک ٨٠ سالہ بزرگ اور نہتی لڑکی شہید ہوتے ہیں کوئی تیسرا
فرد وہاں موجود نہیں ہوتا اور آج ایک اس واقعے کو ایک ہفتے سے زیادہ دن
گزرنے کے باوجود ابھی تک اس کے ملبے سے نہ تو کسی “دہشت گرد“ کی لاش برآمد
کی جاسکی ہے اور نہ ہی اسلحہ کے نام پر کوئی ہتھیار برآمد کیا جاسکا ہے۔ یہ
کیسے دہشت گرد تھے کہ جن کے پاس کوئی ہتھیار نہ تھا؟
واقعہ یہ ہے کہ جماعت اسلامی ہر دور میں فوجی آپریشن کی مخالف رہی ہے خواہ
وہ اکہتر میں مشرقی پاکستان میں بنگالیوں کے خلاف فوج کا آپریشن ہو، یا
بلوچستان میں فوجی آپریشن ہو یا پھر کراچی میں متحدہ کے خلاف فوجی کاروائی
ہو، جماعت اسلامی نے ہر فوجی آپریشن کی مخالفت اور افہام و تفہیم کے ذریعے
معاملات کو حل کرنے پر زور دیا ہے اور اسی لئے جماعت اسلامی قبائلی علاقہ
جات میں بھی فوجی آپریشن کی مخالف ہے کیوں کہ اول تو فوجی آپریشن میں حقیق
دہشت گردوں کے بجائے عام افراد کی ہلاکتیں زیادہ ہورہی ہیں اور دوسرا موجود
آپریشن امریکی ایماء پر شروع کیا گیا ہے۔ اور جماعت اسلامی کی آواز کو نظر
انداز کرنا آسان نہیں ہے اس لئے جماعت اسلامی کے خلاف پروپگینڈہ کیا جارہا
ہے کہ یہ لوگ دہشت گردوں کی مذمت نہیں کرتے ہیں۔
یہ بھی ایک بے بنیاد پروپگینڈہ ہے جماعت اسلامی کبھی بھی دہشت گردی اور
دہشت گردوں کی حامی نہیں رہی بلکہ جماعت نے ہمیشہ دہشت گردی کی مخالفت و
مذمت کی ہے اور جماعت اسلامی کے موجود امیر کا یہ بیان تو ریکارڈ پر ہے کہ
“بے گناہوں کی جان لینے والے مسلمان نہیں ہوسکتے ہیں“ جس پر محترم حسن نثار
صاحب نے بھی ایک کالم لکھ مارا تھا۔ کہنے کا مقصد یہ ہے کہ جماعت اسلامی
کبھی بھی دہشت گردوں کی حامی نہیں رہی لیکن اگر ایک لمحے کے لئے یہ فرض
کرلیا جائے کہ جماعت اسلامی نے کبھی دہشت گردوں کی مذمت نہیں کی ہے تو یہ
بات کہنے والوں سے پوچھا جاسکتا ہے کہ “ عالی جاہ! یہ دہشت گرد کیا صرف اسی
بات کا انتظار کررہے ہیں کہ جماعت اسلامی یا عمران خان وغیرہ ان کی مذمت
کریں اور یہ ایک دم سارے ہتھیار پھینک کر خود کو فورسز کے سامنے پیش کردیں
کہ جناب ہم تو ایسے ہی دل لگی کررہے تھے اور اس انتظار میں تھے کہ یہ لوگ
ہماری مذمت کریں تو ہم سارے جرائم اور دہشت گردی چھوڑ کر اچھے بچے بن جاتے
ہیں “ دیکھا جائے تو یہ انتہائی احمقانہ سوچ ہے کیونکہ مذاکرات، و مذمت
دراصل“ مرمت“ سے پہلے کے مراحل ہیں اور جب کوئی مذاکرات یا مذمت سے باز
نہیں آتا تو پھر اس کی مرمت کی جاتی ہے اور حکومت تو ایک عرصے سے ان لوگوں
کی “مرمت“ میں مصروف ہے تو جو لوگ مرمت سے باز نہیں آئے تو مذمت سے کیا باز
آئیں گے؟ ویسے یہ بھی حیرت انگیز بات ہے کہ خود کش حملوں کی مذمت کرنے
والوں نے کبھی ڈرون حملوں کی مذمت نہیں کی اور نہ ہی ان حملوں کے نتیجے میں
شہید ہونے والے بے گناہ مسلمان بھائیوں کے حق میں کوئی کلمہ خیر ان کی
زبانوں سے نکلتا ہے۔ ٹھیک ہے مان لیا کہ پاک فوج بالکل درست کررہی ہے تو
کیا یہ پاک فوج کی ذمہ داری نہیں ہے کہ وہ ملکی سرحدوں کا دفاع کرے؟ ملکی
سرحدوں کی پامالی کرنے والوں کو روکے اور ان ڈرون طیاروں کو مار گرائے؟ اگر
فوج یہ کام نہیں کرے گی تو پھر ارضِ وطن کا دفاع کون کرے گا؟
ہارون الرشید صاحب کے واقعے کی آڑ لیکر جماعت اسلامی کے مخالفین نے ایک بار
پھر ایک پرانے الزام کی جگالی شروع کردی ہے کہ “ جماعت اسلامی نے ماضی میں
البدر و المشس نامی تنظیمیں بنا کر بے گناہ بنگالیوں کا قتل عام کیا“ یہ
بھی ایک بالکل بے بنیاد اور بچکانہ سوچ ہے اور اس کے ساتھ ہی یہ بات کہنے
سے دو باتیں ثابت ہوتی ہیں اول تو یہ بات کہنے والے ماضی قریب کی تاریخ سے
بھی واقف نہیں ہیں یا پھر وہ تاریخ سے واقف تو ہیں لیکن جان بوجھ کر عوام
کو گمراہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ دیکھیں مشرقی پاکستان میں فوجی آپریشن تو
مارچ انیس سو اکہتر میں ختم ہوچکا تھا جبکہ البدر و الشمس کی ترتیب و تخلیق
مئی انیس سو اکہتر میں کی گئی یعنی فوجی آپریشن ختم ہونے کے تقریباً دو ماہ
بعد ان تنظیموں کو قائم کیا گیا تھا اور ان کے قائم کرنے کی وجہ خود میجر
ریاض جنہوں نے البدر و الشمس کی بنیاد رکھی انہی کی زبانی سنیئے وہ کہتے
ہیں کہ “ابتدائی ڈیڑھ ماہ میں ہمارا رضا کار فورس کا تجربہ ناکام ہوچکا تھا،
تاہم میں نے دیکھا کہ میرے سیکٹر میں اسلامی جمعیت طلبہ کے بنگالی طلبہ بڑے
اخلاص سے دفاع، رہنمائی اور حفظَ راز کی ذمہ داری ادا کررہے ہیں، اسی لئے
میں ہائی کمان سے کوئی باقاعدہ اجازت لئے بغیر قدرے ججھکتے ہوئے ان طلبہ کو
الگ کیا، یہ کل سینتالیس طلبہ تھے اور سب اسلامی چھاترو شنگھو( اسلامی
جمعیت طلبہ) کے کارکن تھے۔ سولہ مئی انیس سو اکہتر کو شیر پور (ضلع میمن
سنگھ) کے مقام پر انہیں مختصر فوجی تربیت دینے کا آغاز کیا، ان کارکنان کی
محنت، لگن، تیکنیک کو سمجھنے میں کمال ذہانت دیکھ کر اکیس مئی انیس سو
اکہتر کو ان سے خطاب کیا اور میرے منہ سے بے ساختہ یہ بات نکلی کہ آپ جیسے
سیرت و کردار اور مجاہدانہ جذبہ رکھنے والے فرزندان اسلام کو “البدر“ کے
نام سے پکارا جانا چاہیے اور تب ہی میرے ذہن میں یہ خیال کوندا کہ کیوں نہ
اس تنظیم کو البدر کا نام دیا جائے۔ غور کریں کہ مارچ میں فوجی آپریشن ختم
ہوتا ہے اور مئی میں البدر کی تشکیل ہوتی ہے اس سے یہ بات صاف ظاہر ہوتی ہے
کہ جماعت اسلامی نہ تو فوجی آپریشن اور نہ ہی عوام کے قتل عام میں ملوث تھی
بلکہ وہ دفاع وطن کے لئے پیش پیش تھی اور اس نے دفاع وطن کے لئے اپنے
ہزاروں کارکنوں کی جانوں کا نذرانہ پیش کیا۔ یہ وہ حقائق ہیں جن کو چھپا کر
جماعت اسلامی کے خلاف بے بنیاد پروپگینڈہ کیا جاتا ہے۔ ہماری تمام لوگوں سے
یہی گزارش ہے کہ اپنے خیالات و نظریات کو ضرور پیش کریں یہ ہر فرد کا حق ہے
لیکن اس چکر میں حقائق کا گلا نہ گھونٹا جائے۔ |