اندھی ،ا ندھا
(Prof Niamat Ali Murtazai, Kasur)
یہ عنوان اس لئے چننا پڑا ہے کہ
’اندھا‘ کا مترادف’ نابینا‘ ہے لیکن اندھی کا مترادف نابینی مستعمل نہیں
ہے۔ اندھا،اندھی کے الفاظ کسی حد تک استعمال میں کم آرہے ہیں لیکن ابھی
متروک نہیں ہوئے اس لئے’ اندھی اندھا ــ ‘کا عنوان رکھنے میں کوئی مضائقہ
نہیں ہے۔
ویسے یہ کوئی فلسفیانہ عنوان ہے بھی نہیں کہ جس کو بہت زیادہ احتیاط کی
ضرورت ہو۔ یہ عنوان مشرقی اور خاص طور پر برِ صغیری تمدن کی ایک سماجی
تصویر سے لیا گیا ہے۔ وہ سماجی تصویر یہاں کے قریباًقریباً ہر بینا نے
دیکھی ہے یا دیکھ سکتا ہے۔ وہ تصویر ہمارے محلوں، گلیوں اور بازاروں میں
بھیک مانگنے والے افراد میں سے ایک جوڑے کی ہے ۔ اس میں ،ہمارے مشاہدے کی
رو سے ، اکثرو بیشتر ایک نابینا بوڑھی فقیر عورت اپنے ہاتھ میں ایک لاٹھی
پکڑے آگے آگے اور اس کے کندھے پے اپنا ہاتھ رکھے ایک بوڑھا نابینافقیر مرد
پیچھے ،پیچھے چل رہا ہوتا ہے۔یہ منظر ہماری دور نارس نگاہوں نے ناجانے کتنی
بار دیکھا ہے۔ اور ابھی اس منظر کی تکمیل ہوتی نظر نہیں آتی، لگتا ہے کہ یہ
منظر چشمِ فلک کو پسندہے اسی لئے وہ اسے ختم نہیں کرنا چاہتا یا یہ کہ چشمِ
دنیا کو بھی اس منظر سے دل لگی ہے کہ وہ بھی اسے بار بار دیکھنا چاہتی ہے۔
یہ منظر بظاہر تو دوگداگروں کا ہے لیکن اس منظر میں بلا کی تخیل طرازی ہے
۔اس منظر پر نظر پڑتے ہی محوِ پرواز ہو جاتی ہے اور پھر نا جانے کہاں کہاں
سے ہو کر واپس اسے جوڑے کی زبوں حالی و خوش حالی پر آٹکتی ہے۔یہ منظر
انسانیت کا ہے کہ کس طرح اسے بھیک مانگنے کا پیشہ اختیار کرنا پڑا ہے، نا
جانے کب سے انسان نے انسان کے درِ دولت پر اپنا دامن وا کرنا سیکھ لیا تھا
اور ابھی تک تو اس منظر پر پردہ تن جانے کا دوردور تک کوئی امکان نظر نہیں
آتا۔دنیا میں ویسے تو ہر کوئی دراصل بھکاری ہے، اسی لئے تو غالبؔ کو فرمانا
پڑا: کون ہے جو نہیں ہے حاجت مند
کس کی حاجت روا کرے کوئی
لیکن بعض لوگ قابلِ رحم حد تک حاجت مند ہو جاتے ہیں کہ جن کی حاجت تو پوری
نہیں کی جا سکتی لیکن وہ دوسروں کو بُری طرح لوٹ لے جاتے ہیں۔ کہ دل سے
فغاں نکلتی ہے کہ کسی کو اتنا بھی مجبور نہیں ہونا چاہئے۔ انسان کا یہ برا
حشر قدرت نہیں کرتی ، یہ ستم یا تو ایک انسان پر کسی دوسرے انسان نے کیا
ہوتا ہے یا پھر انسان خود ہی اس کا مورودِ الزام ٹھہرائے جانے کا مستحق
ہوتا ہے۔
یہ تصویر ہماری معاشرت کے ایک ایسے پہلو کی عکاسی کرتی ہے کہ جس کا یورپ
میں خواب بھی دیکھنا اتنا آسان نہیں۔اور وہ چیز ہے ہماری خاندانی اکائی۔
ہمارا تمدن اس لحاظ سے اتنا مضبوط ہے کہ سب کچھ لٹ جانے کے باوجود اس اکائی
کی بنیادیں شادی کی ابتدا جیسی مضبوط ہیں جو کہ یورپ میں جلد ہی بیٹھ جاتی
ہیں اور نئے سرے سے تعلقات بنانے پڑتے ہیں جو کہ استوار ہونے سے پہلے ہی
مسمار ہو جاتے ہیں۔ تعلقات میں وفا داری کو اس قدر اہمیت حاصل ہے کہ غالبؔ
اسے اصل ایمان قرار دیتے ہیں: وفا داری بشرطِ استواری اصل ا یمان ہے
مرے بت خانے میں تو کعبے میں گاڑو برہمن کو
وفاداری نبھانے والا گداگروں کایہ جوڑا کس قدر رشک آفریں بھی ہے ،اس لحاظ
سے نہیں کہ وہ کر کیا رہے ہیں بلکہ اس لحاظ سے کہ زندگی کا اتنا لمبا اور
کٹھن سفر طے کر لینے کے باوجود ان کے درمیان ایک ہاتھ کی دوری نہیں ہوئی
اور یہ انسانیت کو کتنا بڑا درس ہے۔
ایک بات جو مشرق اور مغرب کے تناظر سے ہٹ کر بھی ذہن کو جھنجھوڑتی ہے کہ
آخر بیچاری مائی ہی ان دو افراد کے کارواں کی قیادت کیوں کر رہی ہوتی ہے۔
لیڈیز فسٹ کا تصور تو مغرب کی دین ہے لیکن یہ بیچا رے تو اے، بی ، سی بھی
نہیں جانتے۔ ان کی جانے بلا کہ لیڈیزفسٹ کیا ہوتا ہے، بات کوئی اور ہے۔
ایک بات تو یہ سمجھ آتی ہے کہ بچاری مائی کو آگے دیکھ کر خیرات دینے والوں
کو زیادہ ترس آتا ہو گا بجائے کہ وہ بابے کو آگے دیکھیں اور اپنی خیرات کو
مختصر کر دیں۔یا یہ کہ بی بی کے پیچھے ہونے اور بابے کے آگے ہونے میں مشرقی
خدشات کارفرما ہو سکتے ہیں کہ کوئی شرارت نہ ہو جائے۔
ایک وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ لا شعوری طور پر قدرت یہ ثابت کرنے کی سعی کر
رہی ہو کہ عورتوں یا عورت کے پیچھے لگنے کا انجام یہی ہوتا ہے۔ اس لئے اہلِ
عقل کو اپنا انجام دیکھ کر ہی کچھ قدم اٹھانا چاہئے۔
ایک یہ بھی ہو سکتی ہے کہ دنیا کے دانشوروں اور فلسفیوں نے عورت کو پاس
ہونے جوگے نمبر نہیں دیئے اور اب وہ سب علم و فضل کے مینار آنکھیں کھول کر
دیکھ لیں کہ عورت کیسے پیکرِ وفا بن کر ساتھ نبھا رہی ہے۔ اور ’ کمزوری
تیرا نام عورت ہے‘ کا ورد کرنے والے کہاں ہیں کہ آ کر اپنی آنکھوں سے خود
ہی دیکھ لیں کہ ادبی کتابوں میں جتنی بے ادبیاں ہوئی ہیں وہ سب کی سب اگر
غلط نہیں تو درست بھی نہیں ہیں۔ سنگِ زن سے بھی ایفا اور صفا کے مجسمے
تراشے جا سکتے ہیں مرد ہر خوبی کے ’مامے‘ نہیں لگتے۔
مناظر تخیل کو دعوتِ پرواز دیا کرتے ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ اس جوڑے نے ’لو
میرج‘ کی ہو گی اور پھر سوسائٹی نے انہیں نظر انداز کیا ہو گا، والدین کی
سپورٹ نہ ملی ہو گی اور ’ اور بھی غم ہیں محبت کے سوا ‘ والی حقیقت بعد میں
آشکار ہوئی ہو گی یا ابھی تک ہو رہی ہو گی۔ محبت انسان کو اندھا کر دیتی
ہے۔ مردانِ زن کچھ زیادہ ہی محبت کی فریفتگی کا شکا ر ہو جاتے ہیں اس لئے
وہ مکمل طور پر اندھا ہو چکا ہے اور عورتیں ذرا عقل کا دامن کم چھوڑتی ہیں
، اس طرح کے معاملات میں ، تو محبت کے اندھا کر دینے والے اثرات ان پر کم
پڑتے ہیں اس لئے وہ ابھی کچھ نظر رکھتی ہے اور کم از کم اتنی بڑی دنیا کے
ایک مردِ جری کو گائیڈ ضرور کر سکتی ہے۔یہ بھی ممکن ہے کہ ان کی شادی ’منظم
شادی‘ ہو اور پھر حالات و واقعات کے تھپیڑے اس قدر پڑے ہوں کہ خانہ آبادی،
آہستہ آہستہ بربادی کی نذر ہو گئی ہو اور آج یہ جوڑا دربدر:
تینوں رب دے ناں دا سوال ای اﷲ دے پیاریو
تینوں رب دے ناں دا سوال ای اکھیاں والیو
گلی،گلی گاتے پھرنے پر مجبور ہو چکے ہیں۔
تیسرا یہ بھی تو امکان ہے کہ ان بچاروں کی شادی ہوئی ہی نہ ہو اور غربت کے
عالمی مذہب اور کائناتی نظریئے نے ان کو اکٹھاکر دیا ہو ۔اور بچارے صرف اور
صرف اپنے پیٹ کی اذیت سے چھٹکارہ پانے کے لئے اس صدا کاری کا سہارا لے رہے
ہوں۔اور ایک دوسرے کی ہمدردی ان کا سب کچھ بن گئی ہو۔
اس جوڑے کو دیکھتے ہی خیال دینا کے گلوب کے گرد گھوم جاتا ہے کہ کیا یہ
منظر مقامی ہے یا عالمی، کیا یہ منظر وقتی ہے یا دائمی۔ ان سوالوں کے
جوابات دھیرے دھیرے آنے لگتے ہیں۔یہ منظر عالمی بھی ہے اور ابدی بھی۔ دنیا
ہمیشہ اندھی، اندھے کا جوڑا رہمی ہے۔ کیوں کہ ساری دنیا کی حالت ایک جیسی
کبھی بھی نہیں رہی۔ کبھی مشرق کی نظر مغرب کی نظر سے بہتر تھی اور مشرق
قیادت کی لاٹھی ٹیکتا ہوا آگے بڑھتا رہا اور مغرب اس کے شانے پر ہاتھ رکھے
آہستہ، آہستہ اس کی پیروی کرتا رہا۔ اور کبھی مغرب کی نظر بہتر ہوئی اور
مشرق کی بینائی جواب دے گئی تو مشرق کو مغرب کی قیادت قبول کرنے کے سوا
کوئی چارہ نہ رہا ۔
اس طرح یہ جوڑا انسانی خاندانی اکائی ہی نہیں تمام انسانی رویوں کو اپنے
اختصار کے کوزے میں سمو لیتا ہے۔تمام تعلیم گاہیں بھی تو یہی کچھ ہیں۔استاد
کے پیچھے شاگرد۔ استاد کی نظر بہتر ہے اور شاگرد اس کی اطاعت میں اپنی
بھلائی پاتا ہے۔یہی بات انسانی اخلاقیات ہے کہ بڑے کا احترام کیا جائے اور
اس کا حکم مانا جائے کہ وہ بہتر کے درجے پر فائز ہے۔
یہ بات کتنی عجیب لگتی ہے کہ سب لوگ اندھی، اندھے کے متوازی ہیں۔ ویسے ہم
غصے میں آکر کسی کے لئے یہ الفاظ استعمال کرتے ہیں کہ ’ اندھے ہو ‘ ، ’نظر
نہیں آتا‘،’ دکھائی نہیں دیتا ‘ وغیرہ لیکن جب یہ بات خود ہمارے اوپر آن
پڑے تو ہم ضرور ادھر ادھر ہوتے کی کوشش کرتے ہیں۔’اندھے‘ کا لفظ کسی کو
قابلِ قبول نہیں ہے۔اس کی ایک نفسیاتی وجہ بھی ہے کہ کوئی اپنے آپ کو کسی
سے کم تر ماننے یا سمجھنے کیلئے تیار نہیں ہے۔لیکن ہم سب بڑی حد تک ایسے ہی
ہوتے ہیں۔ ہم کچھ باتیں ہی جانتے ہیں جب کہ بہت سی باتیں ہمارے شعور سے
باہر ہوتی ہیں۔لیکن ہم کسی طرح سے بھی اپنے آپ کو کم تر ماننے پر راضی نہیں
ہوتے۔لیکن جب ہم مجبور ہو جائیں تو پھر دوسروں کی برتری مان بھی لیتے ہیں،
اور مان ہی لینی چاہیے۔
ہم سے تو یہ اندھے،اندھی کا جوڑا بہتر ہے کہ ایک دوسرے کی برتری مان کر پر
امن اور منظم زندگی گزار رہے ہیں۔اور بہت سوں کو تعلیم بھی دے رہے ہیں کہ
دوسرے کی برتری مان لینا بری نہیں بلکہ بڑی بات ہے۔
کہا جاتا ہے: اندھوں میں کانا راجا۔ یہ بھی ایک لسانی ردِ عمل ہے کہ لوگ
’اندھے‘ کی نسبت ’کانا‘ کہلانے سے زیادہ برا مناتے ہیں۔ اور غصے میں آ کر
اپنے لئے یہ الفاظ استعمال کرتے ہیں کہ ’ ہم کسی کے کانے ہیں؟‘ یعنی کانا
ہونا کسی کو پسند نہیں چاہے وہ ہو بھی۔ غالباً پنجابی کا ’کانے‘ عربی کے
لفظ’ قانع‘ ہے جس کا معنی قناعت، صبر ، رکنا وغیرہ ہیں۔ مطلب یہ ہو گا کہ
ہمیں کسی کی طرف سے روکنے والی بات کوئی نہیں ہے۔ یعنی ہم کسی کو کچھ بھی
کہہ سکتے ہیں یا کسی سے کچھ بھی کر سکتے ہیں، ہمیں ا س سے رکنے کی ضرورت یا
مجبوری نہیں ہے۔
بہت سی مثالیں ایسی بھی ہوئی ہیں کہ نظاہر اندھوں کے آنکھوں والوں کی
رہنمائی کی ہے۔ یونان کا مشہورِ زمانہ رزمیہ شاعر ہومراندھا ہی روایت کیا
جاتا ہے،جس نے دنیا کی قدیم تریں epics کی تخلیق کی، اسی طرح سوفوکلیز کے
ڈرامے The Oedipus Rex کا ایک اہم کردار جو کہ سچائی کے دیوتا کا نمائندہ
ہے Teiresias بظاہر اندھا ہے لیکن اسے ہی سارے شہر سے اصل بات کا علم ہے۔اس
لئے بظاہر اندھا ہونا شاید اتنی بری چیز نہیں ہے جتنی کہ اندر سے اندھا
ہونا ۔
اندھے کی بات اس ضرب المثل کے بغیر ادھوری رہے گی: اندھا بانٹی ریوڑیاں ،ہر
بار اپنوں کو دے۔یہ بات ویسے تو طنزیہ ہے لیکن اگر اسے اول خویش،بعد درویش
اور Charity begins at home. کو مدِ نظر رکھیں تو اپنوں کو نوازنے کی بات
بڑی معقول لگتی ہے۔ لیکن یہ ستم نہ کیا جائے کہ غیروں کی کبھی باری ہی نہ
آئے۔جیسا کہ سیاسی اور معاشی میدانوں میں ہو چکا ہے اور آئندہ بھی ہونے کا
یقین ہے۔
اب اگر اس منظر کو تھوڑا سے تصوف کے آیئنے میں دیکھیں تو دنیا کی طلب کرنے
والے اندھے ہیں اور اس کی رہنمائی کرنے والے بھی ایسے ہی ہیں۔ دنیا کی طلب
انسان کو اندھا کر دیتی ہے۔ کیوں کہ ایسی مثالیں موجود ہیں کہ ایسے اندھے
جو دنیا دار نہیں تھے ان کے باطن روشن ہو جاتے ہیں، یا روشن ہوتے ہیں۔ اگر
دنیا کی طلب سے انسان نکل جائے تو وہ انسانوں کے دروازوں پر صدا کرنے کی
بجائے رب العزت کے دروازے کا بھکاری بنتا ہے اور اپنی عقبا سنوارتا ہے۔بینا
اصل میں وہی ہے جسے دور تک نظر آئے۔ اگر دور تک دیکھیں تو آخرت کی دیوار سے
نظر ضرور ٹکراتی ہے۔ اور جب نظر اس دیوار سے ٹکرا کر پلٹتی ہے تو اپنے ساتھ
گوہر ضرور لاتی ہے۔ جس نظر کو گوہر میسر آجائیں اسے کسی کے درِ دولت پر
دستک دینے کی کیا ضرورت، وہ تو خود ہی بادشاہ ہے۔اور بادشاہ دیا کرتے ہیں
مانگا نہیں کرتے۔
زیادہ موشگافیاں بھی انسان کو فلسفی سا بنا دیتی ہیں۔اور فلسفی سوچ کے
صحراؤں میں اکثر اکیلے بھٹکتے رہتے ہیں جبکہ شاعر لوگ مشاعروں میں داد
سمیٹتے سمیٹتے خود بھی سمٹ جاتے ہیں۔اس لئے ہمیں واپس اسی صدا گر جوڑے کے
پاس آجانا چاہیئے اور ان کی بڑھاپے کی اس ادا کی داد دینی چاہیئے زندگی گزر
گئی لیکن جذبات ماند نہیں پڑے۔ہمارا اپنا ایک شعر مناسب لگ رہا ہے:
اس کوچہء صنم میں سب نے فنا ہی پائی دوداد مرتضائیؔ الفت کی اس ادا کی |
|