اِس ہاتھ دے اُس ہاتھ لے ․․․

یوں تو چوری چوری ہی ہے لیکن ’جوتی چوری ‘ایک فن کی حیثیت رکھتی ہے۔ ہم نے ایک دن دو جوتی چوروں کو آپس میں کچھ اس طرح باتیں کرتے سنا۔

’’یار! یہ مندر اور گردوارے والے بڑے کائیاں ہوتے ہیں۔ یہی نہیں بلکہ وہاں پر ایک چوکیدار بھی مقرر کردیتے ہیں جو اندر جانے والوں کے جوتے لے کر ان کو ٹوکن دے دیتا ہے اور واپسی پر ٹوکن لے کر انہیں بلا معاوضہ ان کے جوتے واپس کردیتاہے۔ وہ تو بھلا ہو ان مسجد والوں کا جو ایسا کوئی انتظام نہیں کرتے ورنہ اپنا دھندا تو بالکل چوپٹ ہوجاتا۔‘‘

’’یار! اپن تو بس سیزن میں ہی کام کرتے ہیں۔ جمعہ کا دن واقعی بڑا برکت والا ہوتاہے۔ دوچار جوڑی ہاتھ لگ ہی جاتے ہیں اور رمضان میں تو گویا عید سے پہلے ہی ہماری عید ہوجاتی ہے۔ اِدھر رمضان آئے اُدھرنئے نئے کھلاڑی مسجد میں پہنچے، جنہیں مسجد کا کوئی تجربہ نہیں ہوتا۔وہاں جگہ جگہ لکھا ہوتا ہے— ’’اپنے سامان کی خود حفاظت کریں۔‘‘ ’’اپنے جوتے سنبھال کر رکھیں۔‘‘ وغیرہ وغیرہ۔ بس رمضان کے پہلے دن جو بوہنی ہوتی ہے پورے مہینے جاری رہتی ہے اور الوداع کا دن تو ہمارے لیے عین عید کا دن ہوتاہے۔ چرائے ہوئے جوتے رکھنے کے لیے ہمارے پاس تھیلوں کی کمی پڑجاتی ہے البتہ عید کے دن ہمارا کاروبار مندا رہتاہے کیونکہ رمضان کے تیس دن لوگوں کو مسجد کے حالات سے کچھ کچھ واقف کرادیتے ہیں اوروہ ٹھیک سجدے کے آگے جوتے رکھ کر نماز ادا کرتے ہیں۔‘‘

اس کی یہ بات سن کر ہم سوچنے لگے نہ معلوم اس دن لوگ رمضان کے تیس روزے مکمل ہونے کا شکر ادا کرتے ہیں یا مہینہ بھر اپنے جوتے محفوظ رہنے پر شکر کا دوگانہ اداکرتے ہیں۔ البتہ ہم جوتی چوروں کی صلاحیت اور ہنر کے قائل ہوئے بغیر نہ رہ سکے کہ انہوں نے بقول شخصے اس قوم کو جوتوں کے آگے سجدہ کرادیا کہ جس کی پیشانی سوائے اﷲ کے کسی کے آگے نہ جھکتی تھی۔ اور غالب کے اس شعر کی شرح بھی ہماری سمجھ میں آگئی ؂
ہیں آج کیوں ذلیل کہ کل تلک نہ تھی پسند
گستاخیٔ فرشتہ ہماری جناب میں

ہم اس زوال آدم خاکی کو دیکھ کر سہم گئے۔ ایک مرتبہ ہم خود ایک جوتی چورکی عنایت خاص کا شکار ہوتے ہوتے رہ گئے۔ ہوا یوں کہ ہم مسجد پہنچے تو دیکھا جماعت کھڑی ہوچکی ہے۔ ہم نے حسب عادت جوتے سجدے کے سامنے رکھ کر جھٹ سے نیت باندھ لی۔ ہمارا نیت باندھنا تھا کہ ایک صاحب نہایت کمال چابکدستی سے ہمارے جوتے اٹھاکر چل پڑے۔ ہم نے بھی آؤ دیکھا نہ تاؤ نیت توڑی اور ان حضرت کواسی کمال چابکدستی سے دبوچ لیا اور دوایک ہاتھ جڑدیے۔ ہمارا ایسا کرنا تھا کہ وہاں پر موجود جم غفیر اس بے چارے پر ٹوٹ پڑا۔ محلے کے دوچار معززین حضرات نے بھی اس کارِخیر میں حصہ لیا۔ کچھ ’صحت مند‘ قسم کے نوجوانوں کو طاقت آزمائی کا بہترین موقع ہاتھ آگیا۔ یوں اگر وہ کسی سے مقابلہ کرتے تو دوسری طرف سے جوابی کارروائی کا امکان رہتا۔ یہاں ایسا کوئی خطرہ نہ تھا۔ مقابلہ یک طرفہ تھا۔

میں اس جوتی چور سے بولا: ’’تمہیں میرے ہی جوتے ملے تھے اُٹھانے کو۔‘‘ وہ ہاتھ جوڑکر بولا: ’’بھائی صاحب! آپ ناحق تو ناراض ہورہے ہیں․․․․ ابھی پچھلے مہینے ہی تو آپ کی شادی کے موقع پر جب آپ کی سالیوں نے جوتا چرایا تھا تو آپ نے پورے دو ہزار روپے دے کر خوشی خوشی اسے چھڑایا تھا۔ دوہزار نہ سہی دوسو تو مجھے بھی مل ہی جاتے۔‘‘

اُس کی یہ بات سن کر ہم لاجواب ہوگئے اور سوچنے لگے اس میں اس بد نصیب کا کیا قصورہے۔ ہم لوگ ہی تو شادی میں جوتی چوری کی رسم کے ذریعہ اور مسجدوں میں جوتوں کی رکھوالی کا انتظام نہ کرکے جوتی چوری کو بڑھاوا دے رہے ہیں۔ بہر حال اپنی جوتیاں بچ جانے کا دل ہی دل میں شکر کرتے ہوئی گھر آگئے اور اس دن کے بعدسے عہد کیا کہ اب کبھی مسجد میں اچھے جوتے لے کر نہ جائیں گے۔ جوتے بغل میں دباکر نماز پڑھنے سے تو رہے۔

ایک مرتبہ دیکھا ایک جوتا چور پکڑاگیا۔کافی ہٹاکٹا اور نک سک سے درست معلوم ہوتاتھا۔ جب بہت پٹ چکا تو کسی نے کہا: ’’ابے کمبخت محنت کرکے کیوں نہیں کھاتا؟‘‘ وہ بڑی نرمی سے بولا: ’’حضور! جوتے چرانے میں کیا کچھ کم محنت کرنی پڑتی ہے۔ بہت سا وقت برباد کرنا پڑتاہے۔ پہلے ایسی مسجد تلاش کرنا پڑتی ہے جہاں شریف سیدھے سادھے اور امیر لوگ زیادہ آتے ہوں․․․․پھر لگاتار کئی روز تک مسجد کی نگرانی کرنا پڑتی ہے۔آنے جانے والوں پر کڑی نگاہ رکھنا پڑتی ہے۔ ہر شخص کی عادات و اطوار کا بغور معائنہ کرنا پڑتاہے کہ وہ کس وقت مسجد میں آتاہے، کس قسم کے جوتے پہنتاہے، کس جگہ انہیں رکھتاہے، کتنی لمبی نمازیں پڑھتاہے وغیرہ وغیرہ․․․․․ یہی نہیں جس مسجد میں جتنا زیادہ مجمع ہوتاہے آمدنی زیادہ ہونے کے ساتھ خطرہ بھی اتنا ہی زیادہ رہتاہے․․․․ ‘‘ اس نے آستین سے منہ صاف کرتے ہوئے آگے بات جاری رکھی۔ ’’․․․․․ آپ تو جانتے ہی ہیں ہر بزنس میں رسک ہوتاہے۔ ہمیں بھی رِسک (خطرہ )مول لینا پڑتاہے․․․․․ بچ گئے تو وارے نیارے پکڑے گئے تو ہڈی پسلی کی خیر نہیں۔ کئی دن تک کھاٹ پر پڑے رہنا پڑتاہے اور سارا دھندا الگ چوپٹ ہوجاتاہے․․․․․ اب آپ ہی بتائیے جس کام کو کرنے میں اتنی محنت کرنا پڑتی ہو، اتنی مشقت اٹھانا پڑتی ہو اور اتنا خطرہ مول لینا پڑتاہو ، وہ محنت کرکے کھانا نہیں تو اور کیاہے؟‘‘

اس کی یہ منطق اور ڈھٹائی سن کر ہم پر محنت کی عظمت یعنی Dignity of Labourکے تمام اصول آشکارا ہوگئے۔ اپنی باتوں سے اب وہ ہمیں کسی یونیورسٹی کا پروفیسر لگنے لگا تھا۔ ابھی ہم اس کی باتوں پر غور کر ہی رہے تھے کہ وہ پھر بولا:
’’پھرجناب یہ چوری کہاں ہے؟ ․․․․․ یہ تو بزنس ہے۔ اِس ہاتھ دے اُس ہاتھ لے۔ ہم ان جوتوں کو کباڑی بازار میں کوڑیوں کے بھاؤ بیچ آتے ہیں جہاں سے غریب اور متوسط طبقے کے لوگ اپنی جھوٹی شان بنائے رکھنے کے لیے کم قیمت پر عمدہ جوتے خرید کر اکڑتے پھرتے ہیں۔ اس سے دکاندار کو بھی خاصی آمدنی ہوجاتی ہے اور سماج کے ایک بڑے طبقے کو کم قیمت پر اچھے جوتے میسر آجاتے ہیں․․․․․ اور ہم غریب لوگوں کی دال روٹی کا انتظام بھی ہوجاتاہے۔اب آپ ہی بتائیے جس کام سے سماج کے مختلف طبقوں کا بھلا ہوتا ہو وہ چوری کیسے ہوئی۔رہا ان لوگوں کا معاملہ جن کے جوتے چوری ہوئے وہ اگر صبر کریں تو آخرت میں اس کا اجر ضرور پالیں گے۔‘‘

ہم اس کی یہ دلیلیں سن کر دنگ رہ گئے اور سوچنے لگے کہ اگر آج افلاطون زندہ ہوتا تو اس کو اپنا استاد تسلیم کرلیتا۔ ابھی ہم اپنی کم مائیگی یا کم عقلی کا ماتم کرہی رہے تھے کہ یہ باتیں پہلے سے ہی ہماری سمجھ میں کیوں نہ آئیں وہ پھر مجمع سے مخاطب ہوا:
’’جناب والا یہ ملک آزادہے، یہاں ہر شخص کو اپنی روزی روٹی کمانے کا آئینی حق حاصل ہے۔ آئین ہند نے اسے بنیادی حق کے طور پر تسلیم کیا ہے۔ ہمیں بھی یہ حق ہے کہ ہم اپنی پسند کا پیشہ اختیار کریں۔‘‘

اس کے اس بیان سے ہمیں آئین میں موجود حق روزگار Right to Earn Livelihood) کا مطلب سمجھ میں آگیا جو باوجود پولیٹیکل سائنس میں ایم․اے کرنے کے آج تک ہماری دسترس سے باہر تھا۔ ہم دل ہی دل اس لائق فائق چور کی قابلیت کے قائل ہوئے بغیر نہ رہ سکے۔

اپنی تمام تر احتیاط کے باوجود ایک روز ہم ایک باکمال جوتا چور کا شکار ہوہی گئے۔ ابھی ہم اپنے جوتے تلاش کرہی رہے تھے کہ ایک صاحب ہمارے پاس آئے اور نہایت ہمدردی سے بولے: ’’کیا آپ کے جوتے چوری ہوگئے ہیں؟‘‘
ہم بولے: ’’جی ہاں ۔‘‘
’’کیا نئے تھے؟‘‘
’’جی ہاں۔‘‘
’’کہاں رکھے تھے؟‘‘
’’وہاں اس جگہ ․․․․․‘‘ ہم نے ہاتھ کے اشارے سے انہیں بتایا۔
’’یہ بھی کوئی جوتے رکھنے کی جگہ ہے․․․․ یہاں سے تو روز کوئی نہ کوئی جوتا چوری ہوجاتاہے۔ پھر بھلا مسجد میں نئے جوتے پہن کر آنے کی کیا ضرورت تھی؟ ․․․․․ اﷲ کو جوتے تھوڑا ہی دکھانا ہوتے ہیں۔ ہمیں دیکھو ہم کیسے پھٹے پرانے جوتے پہن کر مسجد میں آتے ہیں کہ جنہیں چوربھی اُٹھاتے ہوئے شرمائے۔‘‘

ہم ان کی ان باتوں سے کچھ جھنجھلائے تو وہ از راہِ ہمدردی ہمارے کان میں بولے: ’’تمہارے جوتے کوئی لے گیا، تم بھی کسی کے جوتے لے جاؤ۔‘‘
ہم نے کہا: ’’یہ تو چوری ہوگی۔‘‘
’’بھئی چوری کہاں، تم نے وہ مقولہ نہیں سنا، اِس ہاتھ دے اُس ہاتھ لے․․․․․‘‘

بہر حال ہم ایک دوسرے جوتے کی جوڑی جو ہمارے چوری شدہ جوتوں کے پاس ہی رکھی تھی، پہن کر اس ’فرشتہ صفت انسان‘ کی ہمدردی کا دل ہی دل میں شکریہ ادا کرتے اور نظیراکبرآبادی کا یہ مصرعہ گنگناتے واپس گھر آگئے۔
ع
کیا خوب سودا نقد ہے، اس ہاتھ دے اُس ہاتھ لے
Rahat Ravish
About the Author: Rahat Ravish Read More Articles by Rahat Ravish: 4 Articles with 3417 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.