26 مارچ 2009 کو اسلام آباد میں
امریکی سفیر این پیٹرسن نے پاکستانی وزارتِ تعلیم اور ہائیر ایجوکیشن کمیشن
کے عہدیداروں کے ساتھ مل کر سرکاری طور پر Pre-STEP یعنی Pre-Service
Teacher Education Program کا باقاعدہ طور پر آغاز کا اعلان کیا۔ اس
پروگرام کے لیے امریکہ 75ملین ڈالر خرچ کرے گا۔ اس پروگرام کے اغراض و
مقاصد بیان کرتے ہوئے امریکی سفیر نے کہا کہ امریکی حکومت اس بات کی یقین
دہانی کراتی ہے کہ وہ پاکستان کے سوشل سیکٹرز جیسے تعلیم کی ترقی کے لیے
حکومتِ پاکستان کی معاونت کرتی رہے گی۔ امریکی سفیر نے مزید کہا کہ تعلیمی
اصلاحات کے ذریعے امریکی حکومت، پاکستان کی حکومت کی پارٹنر شپ میں ایک
ایسی بنیاد رکھنے پر کوشاں ہیں کہ جس کے ذریعے پاکستان کی عوام ایک کامیاب
زندگی کو تعمیر کرسکتی ہے۔‘‘
چنانچہ پاکستانی وزارتِ تعلیم نے8 دسمبر2009 کو ایک ورکشاپ پر رضامندی کا
اظہار کیا جسے امریکہ کے Pre-STEPپروگرام کے تحت منعقد کیا گیا۔ اس میں
بتایا گیا کہ اس پروگرام کے تحت امریکی امداد کو پاکستان کے15ہائیر
ایجوکیشن انسٹیٹیوٹس اور75 گورنمنٹ کالجز کے فیکلٹی سٹاف اور اُن کے نصاب
میں بہتری کے لیے خرچ کیا جائے گا۔
اسی طرح امریکی حکومت 90 ملین ڈالر Links to Learning پروگرام کے تحت خرچ
کرنے کا اعلان کرچکی ہے بلکہ یکم اکتوبر 2009 کو اسی پروگرام کے تحت
پاکستان کے ہائی سکولوں سے 26لڑکے اور 26 لڑکیوں کو چنا گیا جنہیں امریکہ
لے جایا گیا تاکہ وہاں پر ویب ڈویلپمنٹ، ڈیجیٹل فوٹوگرافی اور ویڈیو
پروڈکشن کے علوم کے ساتھ ساتھ اُن میں ٹیم ورک، لیڈرشپ سکلز اور کلچرل
انڈرسٹینڈنگ میں اضافہ کیا جائے۔ یہی نہیں بلکہ 18دسمبر 2009 کو 57پاکستانی
طالب علموں کے ساتھ ساتھ 27پاکستانی اساتذہ کا ایک وفد بھی امریکی امداد سے
اسی پروگرام کے تحت امریکہ بھیجا گیا اور اس بار اساتذہ کو ساتھ بھیجنے کا
مقصد یہ بیان کیا گیا کہ یہ اساتذہ امریکہ سے سیکھے اپنے تجربات کو پاکستان
میں سیمینارز اور پروفیشنل فورمز کے ذریعے یہاں کے طالب علموں کو سکھائیں
گے۔
اسی طرح کی ایک اور مثال یہ ہے کہ 23دسمبر 2009کو امریکی سفیر این پیٹرسن
کی طرف سے اُن آٹھ پاکستانی نوجوان خواتین کے اعزاز میں ایک تقریب کا
انعقاد کیا گیا جنہیں سکالرشپ ایوارڈز سے نوازا گیا تھا ۔ جس کے تحت اب یہ
آٹھ پاکستانی نوجوان خواتین امریکی مدد سے امریکہ سے اکنامکس میں دو سالہ
ماسٹر ڈگری حاصل کرنے کے لیے جائیں گی۔ ان نوجوان خواتین سے خطاب کرتے ہوئے
امریکی سفیر نے کہا کہ مجھے اس بات پر پورا یقین ہے کہ یہ سکالر شپ پروگرام
آپ سب کے مقاصد کے حصول کے لیے پہلا قدم ہوگا۔ امریکی سفیر نے مزید کہا کہ
تمہارا یہ تجربہ تمہاری اُن صلاحیات کو بڑھائے گا جو پھر تمہیں ڈرافٹ
پالیسی اور پاکستان کے اکنامک ایجنڈے کو ترتیب دینے اور اُن عورتوں کے لیے
رول ماڈل بننے میں تمہاری رہنمائی کرے گا جو تمہاری طرف دیکھ رہی ہیں۔
یہ چند مثالیں اُس لمبی فہرست میں سے لی گئی ہیں جنہیں USAIDکی ویب سائٹ پر
نیوز ریلیز کی شکل میں بڑی تفصیل سے بیان کیا گیا ہے۔ تاہم یہاں سوال یہ
پیدا ہوتا ہے کہ وہ کافر جو قرض کی قسط جاری کرنے سے قبل اس بات کی تصدیق
کرتا ہے کہ آیا اُس کی شرائط پرعمل درآمد ہوچکا ہے یا نہیں؟ وہ مفت میں
پاکستان کی نوجوان نسل کی ’’کامیاب زندگی‘‘کے لیے یوں بے دریغ پیسہ کیوں
بہا رہا ہے؟آیا کیوں وہ پاکستان کے گورنمنٹ کالجز سمیت تعلیمی اداروں کے
اساتذہ اور وہاں کے نصاب میں اصلاحات کا خواہاں ہے؟ کیوں وہ ہائی سکولوں کے
لڑکوں اور لڑکیوں کو اپنے خرچ پر امریکہ کے دورے کرواتا ہے؟ اور کیوں
پاکستانی نوجوان خواتین کو امریکہ کی یونیورسٹیوں سے اپنے خرچے پر ماہرِ
معاشیات بنانا چاہتا ہے؟
دراصل امریکہ کی خواہش ہے کہ ہم ڈالر کی چمک دھمک کے آگے اپنے دین کو
فراموش کردیں۔ چنانچہ میڈیا کے سہارے سے یہ نظریہ بنا دیا گیا ہے کہ اگر
کوئی آپ پر پیسہ خرچ کررہا ہے تو آپ کا بھلا ہی چاہ رہا ہوگا چاہے وہ کافر
ہی کیوں نہ ہو۔ اس سوچ کے آگے ہم قرآن کی قطعی آیتوں تک کو بھول جاتے ہیں۔
حالانکہ اللہ تعالیٰ نے سورۃ البقرہ کی آیت نمبر 105میں ارشاد فرمایا ہے کہ
’’کافروں میں سے نہ تو اہلِ کتاب اور نہ ہی مشرکین اس بات کو پسند کرتے ہیں
کہ تم پر تمہارے رب کی طرف سے کوئی بھلائی نازل ہو ‘‘
اس لیے جب امریکی سفیر یہ کہتی ہے کہ 75ملین پاکستانی نوجوان نسل پر خرچ
کرنے کا مقصد یہ ہے کہ تعلیمی اصلاحات کے ذریعے امریکی حکومت، پاکستان کی
حکومت کی پارٹنر شپ میں ایک ایسی بنیاد رکھنے پر کوشاں ہیں کہ جس کے ذریعے
پاکستان کی عوام ایک کامیاب زندگی کو تعمیر کرسکتے ہیں، تو اس کا مطلب یہ
ہے کہ ایک ایسی نوجوان نسل تیار کی جائے کہ جن کے اذہان میں امریکہ کے لیے
محبت ہو، اُس کی بداعمالیاں انہیں بُری نہ لگیں، وہ اُس کو اپنا آقا تسلیم
کرلیں اور اُس کی لوٹ مار کو اپنے لیے سعادت سمجھیں۔
آپ خود سوچیں کہ چودہ پندرہ سال کے بچے بچیوں کو امریکہ میں فوٹوگرافی اور
ویڈیوپروڈکشن جیسے علوم سے بہرور کر کے یہ کس طرح پاکستان کو ترقی کی
منزلوں تک پہنچانا چاہتے ہیں؟ بلکہ امریکہ کے اندر ایسے علوم کو سکھانے کا
یہ مطلب ہے کہ جس طرح وہاں مادرپدر آزادی پر مبنی فوٹو گرافی اور ویڈیو
پروڈکشن کو آرٹ سمجھا جاتا ہے اُسی طرح ہماری یہ نوجوان نسل بھی فحاشی کے
اس گڑھے میں تہہ دل سے کودنے کو تیار ہوجائے۔ اور جہاں تک کلچرل
انڈرسٹینڈنگ کا تعلق ہے تو ہم خود سوچ سکتے ہیں کہ امریکہ کے کلچر میں کیا
چیز ہے کہ جس کی انڈرسٹینڈنگ کو بڑھانے سے ہم ایک کامیاب زندگی کی بنیاد
رکھ سکتے ہیں؟ حقیقت یہی ہے کہ کلچرل انڈرسٹینڈنگ اِسی چیز کا نام ہے کہ جس
طرح وہاں پر انبیاء پر کیچڑ اچھالنا، مخلوط محفلوں کو تفریخ کا نام دینا
اور ننگ درنگ کلچر پر کسی کو کوئی اعتراض نہیں بالکل اُسی طرح ہم بھی اپنے
اذہان کو ایسے کلچر کے لیے کھول دیں۔
اس کے ساتھ ساتھ نوجوان عورتوں کو سرمایہ دارانہ ماہرِ معیشت بنانے سے
واقعی وہ اپنے مقاصد کے حصول کو مقامی سطح پر ہی حاصل کرلیں گے اور یوں
شوکت عزیز کی طرح انہیں کسی ماہرِ معیشت کو باہر سے امپورٹ نہیں کرنا پڑے
گا اور یہی امریکی معیشت زدہ عورتیں اُن کے ایجنڈے کو بخوبی پاکستان کا
ایجنڈہ بنانے کے لیے سرگرداں ہونگی۔
ہمیں جان لینا چاہیے کہ اِن کفار کو مسلمانوں سے کوئی ہمدردی نہیں اور نہ
ہی یہ لوگ ہماری محبت میں ہم پر پیسہ خرچ کررہے ہیں بلکہ اِن کا ایجنڈہ تو
یہ ہے مسلمان نوجوان نسل کے اندر بڑھتے ہوئے اسلام کی طرف رغبت کے جذبات کو
کسی طرح روکا جاسکے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے سورۃ الانفال کی آیت نمبر 36
میں ہمیں خبردار کیا ہے کہ’’یقیناً وہ لوگ جنہوں نے کفر کیا وہ لوگوں کو
اللہ کی راہ سے روکنے کے لیے اپنا مال خرچ کرتے ہیں، پس یہ خرچ کرتے رہیں
گے‘‘
یہی وجہ ہے کہ ٹیکنالوجی کو تو ٹرانسفر کرنے کے لیے یہ کفار سینکڑوں حیلے
بہانے کرتے ہیں اور اگر ہم کہیں سے ٹیکنالوجی حاصل کرلیں تو ہمیں مجرم بنا
دیا جاتا ہے لیکن تعلیم کے نام پر یہ اربوں ڈالر چندے کے طور پر خرچ کررہے
ہیں۔ یہ وہی مقصد ہے کہ جسے انگریز نے برصغیر کے لوگوں کے لیے طے کیا تھا
جب لارڈ مکالے نے 1935میں کہا تھا کہ ’’لوگوں کا ایک طبقہ پیدا کیا جائے جو
خون اور رنگ کے لحاظ سے انڈین ہوں لیکن اخلاقی اقدار، فکر، خیالات اور سوچ
بچار کے لحاظ سے انگریز ہو۔‘‘
چنانچہ امریکہ جو پاکستان کی نوجوان نسل پر اتنا مہربان نظر آتا ہے اور جس
پر وہ کروڑوں ڈالر خرچ کررہا ہے وہ اُس کی محبت میں نہیں بلکہ یہ سب
مہربانیاں اپنے خبیث ایجنڈے کو پورا کرنے کے لیے ہیں۔ وہ نوجوانوں کو اپنی
ثقافت کے رنگ میں رنگنا چاہتا ہے وہ چاہتا ہے کہ مسلمان نوجوان راہِ راست
سے ہٹ جائے اور کفار کی فکری غلامی کو قبول کرلے تاکہ وہ کفار کے ایجنڈے کو
اپنا ایجنڈا بنالے اور دل و دماغ سے اُسے پایہ تکمیل تک پہنچانے کے لیے دن
رات ایک کردے۔
کفار کی مسلمانوں بالخصوص نوجوان مسلمانوں پر یہ نوازشیں اس لیے بھی ہیں کہ
نوجوانی وہ دور ہوتا ہے کہ جب ایک شخص اپنی کوششوں کو پوری قوت کے ساتھ
سرانجام دے سکتا ہے۔ اگر وہ اس دور کو ضائع کردے تو کبھی بھی اِسے دوبارہ
حاصل نہیں کرسکتا۔ یہی بات رسول اللہ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی ایک
حدیث میں مسلمانوں کو یاد دہانی کے طور پر فرمائی ہے۔ حاکم سے روایت ہے کہ
رسول اللہ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ ’’پانچ چیزوں کا فائدہ
پانچ چیزوں کے آنے سے قبل اٹھا لو یعنی اپنی نوجوانی سے، قبل اس سے کہ
بڑھاپا آجائے، اپنی صحت سے، قبل اس سے کہ تم بیمار پڑ جاؤ، اپنی دولت سے،
قبل اس سے کہ تم غربت کا شکار ہوجاؤ، اپنے فارغ وقت سے، قبل اس سے کہ تم
مصروف ہوجاؤ اور اپنی زندگی سے، قبل اس سے کہ موت تم کو آلے۔‘‘
یہی نہیں بلکہ اگر ایک شخص اپنی نوجوانی کو اللہ کے احکامات کے مطابق بسر
کرتا ہے تو قیامت کے روز اجر عظیم سے نوازا جائے گا۔ جیسا کہ ابو ہریرہ سے
مروی متفق علیہ حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد
فرمایا’’ سات قسم کے لوگوں کو قیامت کے دن اللہ اپنے سائے میں جگہ دے گا،
جس دن اس کے سائے کے سوا کوئی اور سایہ نہ ہوگا: جن میں سے ایک وہ نوجوان
ہوگا جس کی پرورش اللہ عزوجل کی عبادت میں کی گئی‘‘ جبکہ ایک بندے کی
عبادات میں سے اللہ کے نزدیک سب سے زیادہ محبوب عبادت نصیحت کرنا ہے جیسا
کہ طبرانی نے الکبیر میں اس حدیث قدسی کو روایت کیا ہے کہ ’’میرے بندے کی
جو عبادت مجھے سب سے محبوب ہے وہ مخلص نصیحت ہے‘‘ اور دین اسلام ہی نصیحت
ہے جیسا کہ مسلم میں مروی رسول اللہ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کا ارشاد ہے کہ
’’دین نصیحت ہے۔ صحابہ نے سوال کیا :کس کے لئے؟ آپ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم
نے ارشاد فرمایا:اللہ اور اس کی کتاب اور اس کے رسول کی خاطر مسلمانوں کے
لیڈروں کو اور عام لوگوں کو‘‘ یعنی دین اسلام کے مطابق امربالمعروف اور نہی
عن المنکر کا فریضہ سرانجام دینا نصیحت ہے۔
چنانچہ اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد کے مطابق کہ ’’یقیناً وہ لوگ جنہوں نے کفر
کیا وہ لوگوں کو اللہ کی راہ سے روکنے کے لیے اپنا مال خرچ کرتے ہیں، پس یہ
خرچ کرتے رہیں گے‘‘ کفار کی کوشش ہے کہ پاکستان کی نوجوان نسل دین اسلام کو
بھی اُن کی آئیڈیالوجی کے مطابق ایک ایسا مذہب سمجھ لے کہ جس کا ریاست اور
سیاست کے معاملات میں کوئی دخل نہ ہو۔ اور اُن کے لیے رول ماڈل صرف اور صرف
کفار کے آئیڈیاز ہوں وہ انہی کی طرح سوچیں اور اُنہی کی طرح زندگیوں کو
گزاریں یہی وہ وجوہات ہیں جن کی وجہ سے امریکہ پاکستان کی نوجوان نسل پر
مہربان نظر آتا ہے اور بے دریغ پیسہ خرچ کررہا ہے۔
آخر میں یہ سوال اٹھتا ہے کہ آیا کہ ہم اپنی نوجوان نسل کو امریکہ کے شکنجے
سے بچا کر اُن کی پرورش کیسے دین اسلام کے مطابق کرسکتے ہیں تو اس کے جواب
میں ایک ہی حل ہے کہ اُس نظام اور نظام کے رکھوالوں کو اکھاڑ پھینکنے کے
بغیر یہ ممکن نہیں کہ پاکستان کو امریکہ کے اثر و رسوخ سے نجات دلائی جاسکے
کیونکہ یہ سرمایہ دارانہ نظام ہی ہے جو اِن حکمرانوں کو اختیار دیتا ہے کہ
وہ ایسے قوانین کو پاکستان کے قوانین قرار دیں کہ جن کے ذریعے کفار آسانی
سے اپنے منصوبوں کو پایہ تکمیل تک پہنچا رہے ہیں۔ چنانچہ جب تک امریکہ
پاکستان کے معاملات پر اثر انداز ہوتا رہے گا پاکستان کی نوجوان نسل کے
ساتھ ساتھ اِس کا پورا مستقبل داؤ پر لگا رہے گا۔ اور خلافت کا قیام ہی اس
بات کی گارنٹی ہے کہ پاکستان میں ایک ایسا ماحول پیدا ہوسکے کہ جس کے ذریعے
ہماری آئندہ آنے والی نسلیں اللہ عزوجل کے مرضی و منشاء کے مطابق پرورش
پاسکیں گی۔ |