کنٹونمنٹ انتخابات کے بعد بدلتے حالات
(Raja Tahir Mehmood, Rawat)
پاکستان کی تاریخ گواہ ہے کہ
جتنی بھی سیای جماعتیں یہاں پر ہیں ان میں سے اگر کسی بھی جماعت نے اپنے
منشور کو عوام کی فلاح کے خلاف استعمال کیا تو وہ صرف اخباری بیانات تک ہی
محدود ہو کہ رہ گئی مگر وہ جماعتیں جنھوں نے اپنے منشور میں عوامی فلا ح کو
اولین ترجیح بنایا کامیابی نے ان کے قدم چومے حالیہ ہونے والے کنٹونمنٹ کے
انتخابات جو سب جماعتوں کے لئے بڑے اہم تھے ان انتخابات میں بلا شبہ پی ٹی
آئی نے وہ حیران کن کاکردگی دیکھائی جو کسی بھی نئی سیاسی جماعت کے لئے بڑی
اہم ہے ان انتخابات میں اگر دیکھا جائے تو پاکستان پیپلز پارٹی دیوار سے
لگتی نظر آتی ہے ۔
پاکستان بھر کے 43 میں سے 42 کنٹونمنٹ بورڈز میں ہونے والے بلدیاتی
انتخابات کے نتائج کے مطابق حکمران جماعت مسلم لیگ (ن) 67 نشستوں کے ساتھ
سرِ فہرست رہی جماعتی بنیادوں پر ملک بھر میں ہونے والے بلدیاتی انتخابات
میں کل 1151 امیداور مدمقابل تھے اور ووٹنگ کے عمل کے لیے 199 حلقوں میں
1225 پولنگ سٹیشنز قائم کیے گئے پاکستان مسلم لیگ(ن) نے سب سے زیادہ 67
نشستیں حاصل کیں جبکہ پاکستان تحریک انصاف 43 نشستوں کے ساتھ دوسرے نمبر پر
رہی۔ ایم کیوایم 18 نشستیں حاصل کرنے میں کامیاب ہوئی جبکہ 57 آزاد امیدوار
بھی کامیاب قرار دیے گئے ہیں اعدادوشمار کے مطابق ملک بھر کے 18 لاکھ سے
زائد رجسٹرڈ ووٹرز کنٹونمنٹ بورڈز کے بلدیاتی انتخابات میں اپنا حقِ رائے
دہی استعمال کیا۔ان انتخابات میں کل 18 سیاسی جماعتوں نے حصہ لیا سیاسی
جماعتوں سے وابستگی رکھنے والے امیدواروں کی تعداد 541 تھی جبکہ آزاد
امیدواروں کی تعداد 610 تھی انتخابات میں دوسرے نمبر پر آنے والی جماعت پی
ٹی آئی کے سب سے زیادہ امیدوار میدان میں تھے ان کی تعداد 137 تھی جبکہ
حکمراں جماعت مسلم لیگ (ن) کے 128، پاکستان پیپلز پارٹی کے 89، جماعتِ
اسلامی کے 74، ایم کیو ایم کے 27 اور اے این پی کے 13 امیدواروں نے بلدیاتی
انتخابات میں حصہ لیاخیال رہے کہ ملک بھر میں کل 43 کنٹونمنٹ بورڈز ہیں
تاہم بلوچستان کی اْڑماڑا کنٹونمنٹ بورڈ کی حدود کے تعین کا مسئلہ حل نہیں
ہو سکا ہے اس لیے وہاں پر بلدیاتی انتخابات نہیں ہوئے ان انتخابات میں سب
سے بڑی شکست پاکستان پیپلز پارٹی کی ہوئی پاکستان پیپلز پارٹی کی قیادت
شاید خواب خرگوش کے مزے لے رہی ہے یا ذوالفقار مرزا کے بیانات اور الزامات
کی وجہ سے خاموش ہے اسے پتا ہی نہیں کہ اب وہ حالات نہیں رہے کہ جب لوگوں
نے مسلم لیگ کو ووٹ نہ دینا ہوتا تو وہ پیپلز پارٹی کو دے دیتے تھے مگر اب
پی ٹی آئی کی صورت میں ان کے لئے ایک بہتر چوائس موجود ہے حالیہ بلدیاتی
انتخابات میں ایسا لگ رہا تھا کہ مقابلہ مسلم لیگ ن اور پی ٹی آئی کے
درمیان ہے ایسے حالات میں پیپلز پارٹی شاید خود ہی گوشنہ نشین ہو گئی تھی
اور محسوس ہو رہا تھا کہ ان کے ٹکٹ کے امیدوار ہی نہیں ہیں شاید اس لئے سب
سے کم امیدوار پاکستان پیپلز پارٹی کے تھے اب جبکہ حکومت نے ان انتخابات کو
منعقد کروا کر ایک احسن اقدام کیا ہے اب یہ روایات ٹوٹنی نہیں چاہے کیونکہ
بلدیاتی انتخابات سے جمہوریت مضبوط ہوتی ہے اور وہ لوگ جن کی ایک ایم این
اے یا ایک ایم پی اے تک رسائی نہیں ہوتی وہ اپنے مسائل کے حل کے لئے کونسلر
یا ناظم کے پاس جا سکتے ہیں ایک ایم این اے یا ایم پی اے سے کہیں بہتر ایک
کونسلر جانتا ہے کہ اس کے علاقے کی ضروریات اور مسائل کیا ہیں اور علاقائی
مسائل کو کس طر ح حل کرنا ہے اس لئے میرا ذاتی خیال ہے کہ ملک میں بنیادی
جمہوریت کے قائم ہونے سے ملک میں جمہوری نظام مستحکم ہو گا اور اس کے اثرات
گراس روٹ لیول تک نظر آئیں گے ساتھ ساتھ ان بڑی سیاسی جماعتوں کی اجارہ
داری بھی ختم ہو جائے گی جو ملک میں حقیقی جمہوریت کے فروغ کے لئے نہیں
بلکہ اپنی اپنی باری لگانے کے چکر میں جمہوریت کا راگ الاپتی نظر آتی ہیں
اب ملک میں دو نہیں بلکہ تین بڑی سیاسی قوتیں آمنے سامنے ہیں اگر تینوں
سیاسی طاقتوں کا موازنہ کیا جائے تو پی ٹی آئی وہ واحد سیاسی جماعت نظر آ
رہی ہے جس نے مختصر عرصے میں اپنے آ کو اس پوزیشن پر لا کھڑا کیا ہے جس سے
صاف نظر آتا ہے کہ وہ ملک کی تیسری نہیں بلکہ دوسری بڑی سیاسی جماعت ہے ۔حکومت
نے اپنے اوپر لگے دھاندلی کے الزامات کو دھونے کی غرض سے جوڈیشل کمیشن
بنانے کا کڑوا گھونٹ تو پی لیا مگر اس کے نتائج سے لگتا ہے کہ کہیں جوڈیشل
کمیشن حکومت کے لئے گلے کی وہ ہڈی ہی نہ بن جائے جو نہ نگلی جا ئے نہَ نگلی۔
ملک کے چاروں صوبوں میں بروقت اگر بلدیاتی انتخابات منعقد ہوئے تو شاید ملک
کی دو بڑی سیاسی جماعتوں کو پی ٹی آئی حیران کر دے مگر اس کا سارا دارومدار
جوڈیشل کمیشن کی رپورٹ پر ہے اگر جوڈیشل کمیشن میں کسی بھی قسم کی منظم
دھاندلی ثابت ہو جاتی ہے پھر حکمران جماعت کے لئے حکومت کرنا شایدممکن نہ
رہے ۔ |
|