لوئردیر میں خواتین کا ووٹ دینا حرام
(سید انور محمود, Karachi)
صوبہ خیبر پختونخوا میں سات مئی
کو حلقہ پی کے 95 لوئردیر میں ضمنی انتخابات منعقد ہوئے، ابھی کچھ دن پہلے
ہی 23 اپریل کوکراچی کے حلقہ این ائے 246 میں بھی ضمنی انتخابات ہوئے تھے،
ان دونوں انتخابات میں ایک چیز مشترک تھی وہ تھی جماعت اسلامی، جس نے دونوں
حلقوں میں اپنے امیدوارکھڑئے کیے تھے، کراچی میں جماعت اسلامی کے
امیدوارراشدنسیم کی ضمانت ضبط ہوگئی جبکہ لوئردیر میں جماعت اسلامی کے
امیدوار اعزازالملک 19827 ( کل ووٹوں کے صرف 14.08 فیصد) ووٹ لے کر کامیاب
ہو گئے، اُنکے حریف اے این پی کے بہادر خان 15927 ( کل ووٹوں کے صرف
11.32فیصد) ووٹوں کے ساتھ دوسرے نمبر رہے، اور اصول کے مطابق اُنکی بھی
ضمانت ضبط ہوگئی ہے کیونکہ بہادر خان نےکل ووٹوں کے12.5 فیصد سے کم 11.32
فیصد ووٹ حاصل کیے ہیں جبکہ جماعت اسلامی کے اعزازالملک نے 14.08 فیصد ووٹ
لیکر اپنی ضمانت بچالی ہے۔ حلقہ پی کے 95 لوئردیر میں ضمنی انتخابات میں
ووٹر کی کل تعداد 140747 تھی جس میں مرد ووٹروں کی تعداد 86930 (61.76 فیصد)
اور خواتین کی تعداد53817 (38.24 فیصد) تھی۔ 53817 خواتین میں سے کسی ایک
خاتون نے بھی ووٹ نہیں ڈالا، اس میں سراج الحق اور جماعت اسلامی کے امیدوار
اعزازالملک کے گھرانے کی خواتین بھی شامل ہیں۔کراچی اور لوئردیر کے
انتخابات سے ایک بات یہ پتہ چلی کہ جماعت اسلامی نے لوئردیر میں خواتین کو
ووٹ ڈالنے سے روکا جبکہ کراچی میں ووٹ حاصل کرنے کےلیے خواتین کا ایک بڑا
جلسہ کیا،گویا جماعت اسلامی کے نزدیک لوئردیر میں خواتین کا ووٹ دینا حرام
جبکہ کراچی میں خواتین کا ووٹ دینا حلال ہے ۔
ایک بھی خاتون کے ووٹ نہ ڈالے جانے پر جب میڈیا نے سوالات اٹھائے اور اس
بات کی نشاندھی کی کہ ایسا سیاسی جماعتوں کی ملی بھگت سے ہوا ہے تو الیکشن
کمیشن نے وہی پرانا راگ الاپا ہے کہ اگرخواتین کو ووٹنگ سے روکنے کے شواہد
ملے تو نتائج کالعدم قرار دے دیئے جائیں گے۔ اگر الیکشن کمیشن کو یاد ہو تو
عرض ہے کہ پی کے 95 لوئر دیر وہی حلقہ ہے جس کے بارے میں 11مئی 2013ء کے
انتخابات کے بعد بھی یہ شکایت سامنے آئی تھی کہ یہاں سیاسی جماعتوں نے ایک
غیر قانونی معاہدہ کرکے خواتین کو ووٹ ڈالنے سے روکا تھا۔ کچھ اخبارات نے
تو اس سلسلے میں سیاسی جماعتوں کے درمیان ایک معاہدے کی بھی نشان دہی کی
تھی۔ ایک اور دلچسپ چیز یہ ہے کہ لوئر دیر میں مرد ووٹروں کا تناسب 61.76
فیصد فیصد اور خواتین ووٹروں کا تناسب 38.24 فیصد ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ
حلقے میں خواتین کی ایک بڑی تعداد کے ووٹ رجسٹرڈ ہی نہیں ہیں۔ اس بات کو
تقویت اس سے بھی ملتی ہے کہ لوئر دیر میں خواتین کی آبادی مردوں سے زیادہ
یعنی 50.4 فیصد ہے۔ چلیے مان لیتے ہیں کہ موجودہ اعداد و شمار ہی صیح ہیں
تو جناب سیدھے سیدھے 38.24 فیصد خواتین ووٹر کو ان انتخابات سے زبردستی
باہر کردیا گیا۔ باقی مرد ووٹروں 86930 (61.76 فیصد) نے صرف 35620 (40.98
فیصد) ووٹ ڈالے گئے ، لیکن اگر آپ کل ووٹوں کی تعداد سے یہ معلوم کرینگے
کہ کتنے فیصد ووٹ ڈالے گئے تو یہ صرف 25.40 فیصد ہیں جس میں جماعت اسلامی
کو 14.08 فیصداور ائے این پی کو 11.32 فیصدووٹ ملے ہیں۔
امیر جماعت اسلامی سراج الحق سے جب پوچھا گیا کہ کیا وجہ ہے کہ 53817
خواتین میں سے کسی ایک خاتون نے بھی ووٹ نہیں دیا ، یہاں تک کہ کسی امیدوار
کے گھرانے کی خاتون نے بھی ووٹ نہیں ڈالا تو سراج الحق کا جواب تھا کہ
خیبرپختونخوا کے ضمنی الیکشن میں خواتین کو ووٹ دینے سے کسی نے منع نہیں
کیا، خواتین کیلئے ووٹ ڈالنے کے انتظامات کیے گئے تھے لیکن انہوں نے اپنا
حق استعمال نہیں کیا، خواتین جبر کی وجہ سے نہیں اپنی مرضی سے ووٹ ڈالنے
نہیں نکلیں، اسکے ساتھ ہی امیر جماعت اسلامی نے فرمایا کہ یہ ضروری نہیں کہ
عورتیں ووٹ ڈالیں، انہیں اور بھی کام ہوتے ہیں، کھانا پکانا ہوتا ہے، بچوں
کی دیکھ بھال کرنی ہوتی ہے، اپنے شوہر کے کام کرنے ہوتے ہیں، دوسرئے یہ
پشتو روایت بھی ہے ، سراج الحق جو اپنے گناہ کو چھپانے کےلیے یہ عذر دئے
رہے اس وقت شاید اُنہیں یاد نہ رہا کہ 17 اپریل کی شام کراچی میں این اے
حلقہ 246 میں جب خواتین کا جلسہ کررہے تھے تو کیا جلسے میں شامل خواتین کو
اپنے گھر کا کھانا پکانا نہیں ہوتا ہے، بچوں کی دیکھ بھال بھی شاید اُنکی
ذمہ داری نہیں ہوتی جبکہ ان کے شوہر تو خود باہر کھڑئے اُنکا انتظار کررہے
ہوتے ہیں۔ حقوق انسانی کے لیے کام کرنے والی ایک تنظیم دیہی اجتماعی اور
ترقیاتی سوشل ورکرز کونسل کے مطابق دیر میں سنہ انیس سو ستر اور ستتر کے
عام انتخابات میں آخری بار خواتین نے ووٹ ڈالا تھا تاہم اس کے بعد مذہب اور
سخت گیر پشتون روایات کا سہارا لیکر خواتین کو ووٹ ڈالنے سے روکا جاتا ہے۔
شاید سراج الحق کےنزدیک انسانی حقوق کے خلاف یہ ظالمانا اور جاہلانا پشتون
روایات عین اسلام کے مطابق ہوں۔
عام خواتین ووٹر کی کیا بات کریں امیدواروں کی بیویاں بھی ووٹ ڈالنے نہیں
آئیں۔ اے این پی کے رہنما زاہد خان نے کہا کہ پی کے 95 کےضمنی انتخاب میں
خواتین کوووٹ ڈالنے سے روکنے پر الیکشن کمیشن میں جارہے ہیں، اگر اے این پی
کی خواتین اس حلقہ میں ووٹ ڈالنے نکلتیں تو شام کو ہم اپنی خواتین کے جنازے
اٹھاتے، خواتین پر پابندی کے جرگہ میں اے این پی کا کوئی نمائندہ بیٹھا
ہوگا تو اسے پارٹی سے نکال دیا جائے گا، اے این پی کے رہنما زاہد خان کو یہ
کہتے ہوئے سوچنا چاہیے تھا کیونکہ دہشتگردی کے خلاف سب سے زیادہ ائے این پی
نے قربانی دی ہیں، لیکن اب وہ بزدلی اور سیاسی مکاری کا اظہار کررہے ہیں۔
حیرت اس بات پر ہے خواتین کے حقوق غضب کرنے کےلیے رجعت پسند اور لبرل دونوں
یکجا ہوگئے۔ تحریک انصاف کی ترجمان شیریں مزاری نے کہا ہے کہ جماعت اسلامی
کو سپورٹ کرنے کا مطلب یہ نہیں کہ عورتوں کو ووٹ کے حق سے ہی روک دیا جائے،
جبکہ صوبائی وزیر اطلاعات خیبر پختونخوا مشتاق غنی نے کہا کہ ضمنی الیکشن
میں خواتین کو ووٹ ڈالنے کی اجازت نہ دینا انتہائی افسوسناک واقعہ ہے، سینٹ
کے اجلاس میں بھی سینٹ کے ارکان نے خواتین کو ووٹ دینے سے روکنے کے عمل پر
مذمتی بیانات دیے ہیں۔ جماعت اسلامی اور اے این پی کی کوئی خاتون رکن ووٹ
ڈالنے نہیں گئی، اسکا سیدھا سیدھا مطلب یہ ہے کہ خواتین کو منظم منصوبے کے
تحت ووٹ ڈالنے سے روکا گیا، لازمی طور پر جماعت اسلامی اور اے این پی کے
درمیان خواتین کو ووٹ نہ ڈالنے دینے کا کوئی خفیہ معاہدہ ہوا ہے ۔
عمران خان جو ہر وقت تبدیلی کا نعرہ لگاتے ہیں یقینا اپنی اتحادی جماعت
اسلامی کے اس کارنامے پر خوش تو نہیں ہونگے اُنکو چاہیے کہ سب سے پہلے اپنے
صوبے میں اتنی تبدیلی تو لایں کہ خواتین کو ووٹ ڈالنے کا حق دیا جائے۔
الیکشن کمیشن کو چاہیے کہ وہ اپنی ذمہ داری پوری کرئے اور پی کے 95 لوئر
دیر کے ضمنی انتخاب کو کالعدم قرار دیکر وہاں دوبارہ انتخاب کرائے اور اس
بات کو یقینی بنائے کہ خواتین اپنا حق راہی دہی بغیر کسی خوف کےاستمال
کرسکیں ورنہ کہا جایگا کہ کراچی میں خواتین کا ووٹ دینا حلال ہے اور لوئر
دیر میں حرام کیونکہ امیر جماعت اسلامی کامریڈ سراج الحق کی منافقت سے تو
یہ ہی ظاہر ہوتا ہے۔ لوئردیر کے رہنے والے امیر جماعت اسلامی سراج الحق اور
اُن سب کو جنہوں نے لوئردیر میں خواتین کو ووٹ دینے کے حق سے محروم کیا ہے
اُنکو صرف یہ کہنا ہے کہ یہ کیسی عجیب بات ہے کہ ناقص العقل عورت اتنے عقل
مند انسانوں کو جنم دیتی ہے جو اسے ووٹ دینے کے بھی قابل نہیں سمجھتے، یعنی
اُن عقلمند انسانوں کو اپنی ماں پر بھی اعتبار نہیں۔ |
|