آزادی ہند سے پہلے پورے ملک میں
صرف دو سیاسی پارٹیاں تھیں جن کی قیادت میں آزادی کی لڑائی لڑی گئی ایک آل
انڈیا نیشنل کانگریس پارٹی اور دوسری مسلم لیگ ۔ان دونوں پارٹیوں میں ہندو
بھی تھے اور مسلمان بھی تھے انہیں دونوں پارٹیوں کی سخت جدو جہد اور
قربانیوں سے انگریزوں کے پنجۂ استبداد سے وطن عزیز کو آزادی ملی اور1947میں
جب ملک مکمل طور پر آزاد ہو کر خود مختار ہوگیا تو مرکز میں آل انڈیا
کانگریس پارٹی نے حکومت سازی کی جس میں مسلم لیگ کی اشتراکیت تھی۔لیکن مسلم
لیگ کو جو شراکت ملنی چاہئے تھی ونہیں مل پائی اس کی وجہ یہ تھی کہ آزادی
ہند کے بعد پاکستان کے وجود میں آنے کے بعد مسلم لیگ کے اکثر رہنماء
پاکستان ہجرت کر گئے جس کے نتیجہ میں انڈین مسلم لیگ کمزور ہوگئی اور
پارلیمینٹ میں اس کے ممبران کی تعداد گھٹتی چلی گئی اور مسلم لیگ صرف ریاست
کیرالا تک محدود ہو کر رہ گئی جس سے مسلم قیادت بھی بہت حد تک متاثر ہوئی ۔اور
پورے ملک میں مسلمانوں کی قیادت حاشیہ پر چلی گئی اور روز بروز مسلم قیادت
کمزور ہوتی چلی گئی ۔اورآج نتیجہ یہ ہے کہ پورے ملک میں ایک بھی ایسا چہرہ
نہیں ہے جو پوری قوم کی قیادت کر رہی ہو مسلمان آج بکھرے ہوئے ہیں اورملک
کے ہر ریاست میں الگ الگ سیاسی پارٹیاں مسلمانوں کو سبز باغ دکھا کر اپنا
محکوم بنائے ہوئی ہیں ۔کوئی مسلمانوں کو 18فیصد ریزرویشن کی بات کرکے ووٹ
حاصل کر رہا تو کوئی مسلمانوں کے تحفظ کی بات کرکے ان کو بیوقوف بنا رہا ہے
اوراقتدار میں آنے کے بعد یہ سیاسی پارٹیاں چند خوشامد پرستوں کو کوئی عہدہ
دیکر مسلم قوم کا ان سے سودا کر لیتی ہیں ۔جس کی وجہ مسلمان روز بروز تنزلی
کے شکار ہوتے چلے جا رہے ہیں ۔آج سیاسی قیادت نہ ہونے کی وجہ سے مسلمانوں
کی حالت یہاں تک پہونچ گئی ہے کہ سچر کمیٹی کی رپورٹ میں مسلمانوں کو دلتوں
سے بھی بدتر بتایا گیا ہے ۔اس کے باوجود مسلمان لیڈران ہوش کے ناخن نہیں لے
رہے ہیں۔جہاں ملک میں دوسری قومیں متحد ہو کر ترقی کے منازل طے کر رہی ہیں
وہیں مسلمان آپس میں دست بگریباں ہیں ایک دوسرے کا شکل دیکھنا تک گوارا
نہیں کرتے ہیں کوئی کسی کی سرپرستی قبول کرنے کو تیار نہیں ہر کوئی منصب
عظمیٰ کا طلبگار ہے ہر کوئی جداگانہ راستہ پر چل رہا ہے جس سے مسلم قوم کو
فائدہ نہیں بلکہ نقصان ہو رہا ہے اور ہمارے یہ نام نہاد لیڈران اسلام دشمن
طاقتوں کو بالواسطہ یا بلا واسطہ فائدہ پہونچا رہے ہیں اور ان کے تنظیمی
ڈھانچے کو قوت بخش رہے ہیں ۔ملک میں ہر کسی کی ایک پارٹی ہے کاشی رام نے
دلتوں کو متحد کرکے بہوجن سماج پارٹی کی تشکیل دی تو آج دلت متحد ہوکر اپنا
ووٹ بی ایس پی کو دے رہے ہیں اسی طرح سے ملائم سنگھ یادو نے پارٹی بنائی تو
یادو برادری متحد ہوکر سماجوادی پارٹی کو ووٹ دیتی ہے لیکن مسلمانوں کی
کوئی پارٹی نہ ہونے کی وجہ سے ان کا ووٹ ہمیشہ بکھر جاتا ہے کبھی یہ سماج
وادی پارٹی کو ووٹ دیتے ہیں تو کبھی بی ایس پی کو لیکن حقیقت میں کوئی بھی
مسلمانوں کی وفادار پارٹی نہیں ہے بلکہ یہ سبھی پارٹیاں مسلمانوں کا
استعمال کر رہی ہیں اس لئے ہمیں اب سنجیدگی سے غوروفکر کرنے کی ضرورت ہے جب
ملک ریاست کے ۷ فیصد یادو برادری متحد ہو کر حکومت سازی کر سکتے ہیں تو
مسلمان ۲۰فیصد حکومت سازی کیوں نہیں کر سکتے ہیں ۔یہ ایک ایسا موضوع ہے جس
پر ارباب دانشوران کو سرجوڑ کر بیٹھنا ہو گا ۔تبھی قوم مسلم سماجی ،معاشی ،اقتصادی،اور
سیاسی طور پر مضبوط ہو گی۔ |