جنوبی پنجاب کے لئے کچن کیبنٹ کا لولی پاپ
(Shahzad Hussain Bhatti, )
پاکستان مسلم لیگ (ن)کی قیادت کا
المیہ اور عوام میں مقبولیت کا گراف روز بروز گرنے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ
شریف برادران نے "اندھا بانٹے ریوڑیاں وہ بھی اپنوں میں"کے مصداق اقتدار
ہمیشہ اپنی مٹی میں رکھاہے اور مخصوص " کچن کیبنٹ "ْ کے ایم این ایزاور ایم
پی ایز کوہی نوازا جاتا ہے جو ہر بار عوام کو جھوٹے وعدوں کے سوا کچھ بھی
نہیں دے رہے۔ پرنٹ میڈیا سے الیکٹرانک میڈیا تک حال ہی میں جو پیش رفت ہوئی
ہے اس نے عوام کو اتناباشعور، با خبراور امور سیاست سے آشنا کر دیا ہے کہ
اب ان کو دھوکا دینا انکے بس کی بات نہیں رہی کیونکہ عوام اب پہلے سے زیادہ
آگاہی رکھتے ہیں اور پل پل بدلتے ہوئے حالات پر نظر رکھے ہوئے ہیں اور وہ
دن دور نہیں جب مسلم لیگ ن مسلم لیگ ق کی طرح تانگہ پارٹی بن کر صرف لاہور
لیگ کے نام سے پہچانی جائے گی۔
صدر پاکستان نے وزیراعظم میاں نواز شریف کی سفارش پر محمد رفیق رجوانہ کو
صوبہ پنجاب کا نیا گورنر تعینات کیا ہے ۔ملک محمد رفیق رجوانہ کا تعلق
جنوبی پنجاب کے ضلع ملتان سے ہے اور وہ 2012 ء میں مسلم لیگ (ن) کے ٹکٹ پر
ملک کے ایوان بالا کے رُکن منتخب ہوئے تھے ۔رفیق رجوانہ کا نام ماضی میں
بھی اس وقت اس عہدے کے لیئے سامنے آیا تھا جب 2013 ء میں مخدوم احمد
محمود نے گورنر کے عہدے سے استعفیٰ دیا تھاتاہم اس وقت پنجاب کی گورنری
چوہدری محمد سرور کے حصے میں آئی تھی جو رواں برس کے آغاز میں(ن) لیگ سے
اختلافات کی وجہ سے اپنے عہدے سے مستعفی ہو گئے تھے ۔جنوری 2015ء سے پنجاب
اسمبلی کے اسپیکر رانا اقبال صوبے کے قائم مقام گورنر کے طور پر ذمہ داریاں
نبھا رہے ہیں۔اپنی تعیناتی کے بعد سینٹ سے خطاب کرتے ہوئے رفیق رجوانہ نے
کہا ان کی تعیناتی جنوبی پنجاب کے لیئے ایک اچھی خبر ہے وہ اس خطے کی
محرومیوں کا ازالے کی کوشش کریں گے ۔قیاس ہے کہ مسلم لیگ ن نے جنوبی پنجاب
کی پسماندگی کو مد نظر رکھتے ہوئے گورنر پنجاب ملتان سے لیئے ہوں لیکن سوال
یہ ہے کہ کیا اقتدار صرف مخصو ص خاندانوں کی ہی میراث ہے ؟ ایسی کیا وجہ
آڑے ا ٓ گئی کہ ایک سینیٹر کو گورنر پنجاب لگایا گیا ہے ۔کیا جنوبی پنجاب
میں پڑھے لکھے اور دور اندیش سیاسی ورکروں کی کمی تھی ؟ یا وہ آداب گورنری
سے ناواقف تھے کہ " کچن کینٹ " کے ایک مہرے کو پنجاب کی گورنری عطا کر دی
گئی ۔کیا مسلم لیگ (ن) کے ورکروں میں اتنی قابلیت نہیں تھی کہ وہ مسند
گورنری پر پورا اتر سکتے؟ کیا ورکروں کا کام صر ف نعرے لگانا ،جھنڈے لہرانا
اور گولیاں کھانا ہے ؟کیا اقتدارمیں انکا کوئی حصہ نہیں ہے؟ کیا بہاولنگر ،رحیم
یا ر خان،ملتان اوربہاولپور کے علاقوں میں ایسا کوئی ہیرا نہیں تھا جسے
اقتدار کی انگوٹھی میں جڑا جا سکتا ؟یا پھر ان میں وہ مخصو ص وفا نہیں تھی
جسکی مسلم لیگ(ن) کو اشد ضرورت ہے ۔
میاں صاحب کی مخصوص کینٹ میں جی حضوری کرنے والے مفاد پرستوں کا ایک ایسا
ٹولہ ہے جو بہت جلد اس جماعت کے تابوت میں آخری کیل ٹھونک دے گا کیونکہ
لینڈ مافیا اور قبضہ گروپوں میں مسلم لیگ (ن) کے با اثر عہدے داروں کا نام
ا ٓ رہا ہے۔حال ہی میں اٹک میں لینڈ مافیا ء حکومتی سیاسی جماعت کی صفوں
میں گھس کر لوگوں کی جائیدادوں میں قبضہ کرنے میں سر گرم ہے حتکہ مقامی
صحافی کی جائیداد بھی لینڈ مافیا کی غنڈہ گردی اور قبضہ سے محفوظ نہ رہ سکی
اوروہ در بدر کی ٹھوکریں کھانے پر مجبور ہو گئے ۔ اسی طرح جنوبی پنجاب کے
دکھ اور محرومیاں بھی کم نہ ہوں گی کیونکہ67 سالوں سے جو بھی اقتدار میں
آیا ہے اس نے ان کی محرومیوں اور تکالیف کا مداوا بننے کے بجائے اپنا وقت
اقتدار ،کرپشن اور لوٹ مارمیں گزارکرچلتابناہے ۔یہی وجہ ہے کہ جنوبی پنجاب
کے اندر مسلم لیگ (ن) کے خلاف شدید نفرت جنم لے رہی ہے اور (ن) لیگ کی اعلی
قیادت ستو پی کر سوئی ہوئی ہے ۔جنوبی پنجاب کے لوگ پوچھتے ہیں کہ ان کے حصے
کا بجٹ لاہور شہر میں ہی کیوں لگایا جا رہا ہے ؟ لاہور کو دنیا کا بہترین
اور خوبصورت شہر بنائیں لیکن اس کے ساتھ ساتھ بہاولپور،چولستان ،رحیم یار
خان،اور بہاولنگر جیسے دور دراز علاقوں میں پینے کا صاف پانی،علاج معالجے
کی سہولیات اور سٹرکوں تک رسائی انکا حق ہے اس حق سے انہیں محروم نہ کیا
جائے ۔بقول شاعر
ظلم کی بات ہی کیا ظلم کی اوقات ہی کیا
ظلم پھر ظلم ہے بڑھتا ہے تو مٹ جاتا ہے
مئی 2013 ء کے انتخابات سے قبل مسلم لیگ (ن) نے جنوبی پنجاب کو الگ صوبہ
اور بہاولپور صوبے کی بحالی کا عندیہ دیا تھالیکن اقتدار کے ڈھائی سال مکمل
ہونے کے باوجود نہ تو ان صوبوں کے متعلق کوئی بات کی جاتی ہے اور نہ ہی
کوئی ہوم ورک دیکھائی دیتا ہے ۔لوگ پوچھتے ہیں کہ کیا یہ صرف انتخابی نعرہ
تھا؟ میاں شہباز شریف پی پی پی کے دورحکومت میں مینار پاکستان کے نیچے ٹینٹ
لگا کر جو مداری خانہ لگاتے تھے وہ قارئین کویادتو ہوگا ۔اب گرمیوں کا موسم
اپنے عروج پر ہے سولہ سولہ گھنٹے لوڈشیڈنگ پورے پاکستان میں ہورہی ہے۔
ڈھائی سال میں ملکی گرڈ میں ایک میگا واٹ کا اضافہ بھی نہ ہو ا ہے سنگ
بنیاد رکھے جا رہے ہیں لیکن بجلی میسر نہیں ہے ۔ کیا شہبازشر یف اس بار بھی
مینار پاکستان کے نیچے ہاتھ والا پنکھالے کر مداری لگانا پسند کریں گے اب
توآپ کی اپنی حکومت ہے؟قارئین پنجاب میں حال یہ ہے کہ ایک پٹواری ،ایک
تھانے دار اورایک سکول ٹیچر کی ٹرانسفربھی چند چہتے وزراء خواجہ اینڈ کمپنی
کے ایماء کے بغیر نہیں ہو سکتی ایک خواجہ تو رن آوٹ بھی ہو چکے ہیں اور
ریفری کے فیصلے کو چیلنج کردیا گیا ہے۔
باوثوق ذرائع نے یہ خبر بھی دی ہے کہ تحریک انصاف کی بڑھتی ہوئی مقبولیت کو
دیکھتے ہوئے مسلم لیگ ن کے 30 سے زائد ایم این ایز تحریک انصاف میں شمولیت
کے لیے پر تول رہے ہیں۔ اور وہ وقت دور نہیں جب ن لیگ کے زوال کے ساتھ ہی
یہ تمام سیاسی پرندے ن لیگ کے جال سے باہر پھٹرپھٹرا رہے ہوں گے جس طرح ق
لیگ کے چہتے وزرا آج کل مسلم لیگ ن کے سپوکسمین بنے ہوئے ہیں۔ اور یوں آنے
والے وقت میں مسلم لیگ ن کا شیراز ہ بکھرتاہوادیکھائی دے رہا ہے۔مسلم لیگ ن
کی میرٹ پالیسی کہنے کو تو پورے پاکستان کے لیے ہے لیکن اس پالیسی کی آڑ
میں صرف میاں فیملی کے چہیتوں کو نوازا جاتاہے بلکہ اس ملک میں جتنے بھی
بڑے منافع بخش اداروں کی نج کاری میں بظاہر مختلف نام اور چائنا کمپنیاں
بھی ہیں لیکن درپردہ ان معاہدوں اور ٹھیکوں میں بھی میاں برادران کا پورا
پورا حصہ ہے ۔
میں بڑے افسوس سے یہ بات لکھ رہا ہوں کہ میاں برادران اس ملک کو ایک سٹیل
مل یا کمپنی کی طرح چلا رہے ہیں جس میں تمام فیصلے ان کی پسند اور نا پسند
پر کیئے جاتے ہیں اور ان سارے فیصلوں کا محور صرف یہ ہے کہ ان سودوں میں
انکا شیئر کتنا ہوگا ۔
|
|