وفاقی وزیر اطلاعات کی ہرزہ سرائی ……ناطقہ سربگریباں ہے کہ اسے کیا کہیے؟
(Abdul Qadoos Muhammadi, )
بسم اﷲ الرحمن الرحیم
مولانا محمد حنیف جالندھری جنرل سیکرٹری وفاق المدارس العربیہ پاکستان
گزشتہ دنوں ختم بخاری شریف کے اجتماعات اور ملک بھر کے مدارس وجامعات میں
ہونے والی اختتامی تقریبات کی وجہ سے کافی مصروفیت رہی اس لیے اس عرصے میں
کئی چیزوں پر توجہ نہیں دی جاسکی ۔ اسی دوران ایک باخبر دوست نے وفاقی وزیر
اطلاعات پرویز رشید کی شعائر اسلام کے بارے میں ہرزہ سرائی کے بارے میں
بتایا۔ انہوں نے پرویز رشید کی طرف جو الفاظ منسوب کیے مجھے بالکل یقین
نہیں آیا کہ کلمہ طیبہ اور اسلام کے نام پر معرض وجود میں آنے والے پاک وطن
کی وزارت اطلاعات ونشریات کے اہم منصب پر فائز ایک شخص جو بظاہر معقول
انسان بھی دکھائی دیتا ہووہ اس قسم کی گفتگو کر سکتا ہے ۔میں نے اس دوست سے
کہا کہ جب تک میں خود پرویز رشید کا ویڈیوکلپ نہ دیکھ لوں اور خود ان کی
گفتگو نہ سن لوں میں آپ کی بات پر یقین کرنے کے لیے کسی طور پر تیار نہیں
۔چنانچہ انہوں نے مجھے پرویز رشید کا ویڈیو کلپ بھجوایا ،میں نے اسے سنا
،بار بار سنا اور حیران رہ گیا ،میرے تن بدن میں آگ لگ گئی ۔
ہمارے ہاں سیاسی اور ذاتی عناد کی بنیاد پر بھی مختلف قسم کی افواہیں
پھیلادی جاتی ہیں ،پرویز رشید کے بارے میں گردش کرتی خبروں اور سرگوشیوں کو
بھی ہم اسی تناظر میں دیکھتے رہے لیکن پرویز رشید کے حالیہ گستاخانہ بیان
نے ہمیں بہت کچھ سوچنے پر مجبور کر دیا ۔اس لیے اپنی بات کو آگے بڑھانے سے
قبل پرویز رشید کی مذکورہ گفتگو کے الفاظ من وعن نقل کرنا ضروری سمجھتا ہوں
تاکہ قارئین خود فیصلہ کریں کہ پاکستان مسلم لیگ جیسی جماعت اور مملکت
خداداد پاکستان کی ترجمانی اور نمائندگی کے منصب پر فائز شخص دین اسلام ،
شعائر اسلام اور قرآن وسنت کی تعلیم کے مراکز کے حوالے سے کس گستاخی کا
ارتکاب کر رہا ہے ؟پرویز رشید کی ہرزہ سرائی کو من وعن نقل کرنا اس لیے بھی
ضروری ہے کہ آج ہر شخص کی زبان پر یہ سوال ہے کہ آخر پرویز رشید نے ایسا
کیا کہہ دیا کہ ملک بھر میں غم وغصہ کی لہردوڑ گئی ہے ؟ یاد رہے کہ پرویز
رشید کے بیان کا ویڈیوکلپ سوشل میڈیا پر وفاق المدارس العربیہ پاکستان کے
مرکزی میڈیا سنٹر کے پیجز پر موجود ہے وہاں ملاحظہ فرمایا جا سکتا ہے یا
وفاق المدارس کے دفاتر سے بھی حاصل کیاجا سکتا ہے ۔
وفاقی وزیر اطلاعات ونشریات پرویز رشید کراچی کی ایک ادبی تقریب سے خطاب
کرتے ہوئے کہتے ہیں ’’بچوں کو بھی علم سے محروم رکھواور بڑوں کو بھی علم سے
محروم رکھو۔اب کتاب تو وجود میں آچکی ،اسکول تو وجود میں آچکے جب پاکستان
بنتا ہے یہ انگریز کا تحفہ ہے اس کو بند نہیں کیا جا سکتا ،اس سے جان نہیں
چھڑائی جا سکتی پھر اس کا متبادل تلاش کیا گیا کہ کتاب چھپتی رہے لیکن وہ
کتاب نہ چھپے جو آپ تحریر کرتے ہیں ،وہ فکر عام نہ ہو جس کی شمع آپ جلاتے
ہیں۔ لوگوں کو پڑھنے کے لیے کتاب دی جائے تو کون سی دی جائے؟موت کا منظر
عرف مرنے کے بعد کیا ہوگا؟(قہقہے)جہالت کاوہ طریقہ جو پنڈت جواہر لال نہرو
کو سمجھ نہیں آیا وہ ہمارے حکمرانوں کو سمجھ آگیا کہ لوگوں کو جاہل کیسے
رکھا جا سکتا ہے ……کہ فکر کے متبادل فکر دو لیکن فکر کے متبادل مردہ فکر دے
دو……اور پھر منبع جو فکر کو پھیلاتا ہے ۔کیا ہو سکتا تھا ؟لاؤڈ اسپیکر
……لاؤڈ اسپیکر بھی اُس کے قبضے میں دے دو ۔دن میں ایک دفعہ کے لیے نہیں
بلکہ پانچ دفعہ کے لیے دے دو ۔اب آپ کے پاس اتنے اسکول اور اتنی
یونیورسٹیاں نہیں ہیں جتنی جہالت کی یونیورسٹیاں ان کے پاس ہیں (تالیاں
)اور بیس پچیس لاکھ طالبعلم جن کو وہ طالبعلم کہتے ہیں ۔آپ کو تو یہ شکایت
ہے کھوڑو صاحب! کہ سندھی سے سندھ کی زبان چھین لی گئی ،پختون سے پختون کی
زبان چھین لی گئی ،پنجابی سے پنجاب کا ورثہ چھین لیا گیا ،بلوچستان سے اس
کی تہذیب اور ثقافت چھین لی گئی ۔لیکن مجھے یہ بتائیے کہ یہ جو یونیورسٹیاں
ہیں جن کو ہم سب چندہ بھی دیتے ہیں ……عید بقرعید پر فطرانے اور چندے اور
کھالیں دیتے ہیں ……خود پالتی ہے ہماری سوسائٹی ……یہ جو جہالت کی
یونیورسٹیاں ہیں ……پنجابی سندھی ،پٹھان ،مہاجربھئی! ان مسئلوں کا تو کوئی
حل نکل سکتا ہے ،ان کا حل پاکستان کے آئین میں بھی موجود ہے ،بدقسمتی یہ کہ
چونکہ آئین پر عمل نہیں ہوتا اس لیے جھگڑا باقی رہ جاتا ہے لیکن جو فکر
انہوں نے دے دی ،جو نفرت،تعصب ،تنگ نظری انہوں نے پھیلادی اور جو روز
پھیلاتے ہیں اور جو تقسیم انہوں نے ڈال دی اور جو روز تقسیم ڈالتے ہیں
۔اسکول میں نصاب میں ایک ہی جماعت میں بیٹھے ہوئے لوگوں کو تقسیم کر دیا
گیا ،ایک فرقے کا نصاب یہ ہو گا کہ زکوٰۃ کیسے دینی ہے اور دوسرے فرقے کا
یہ نصاب ہو گا کہ زکوٰۃ کیسے دینی ہے؟……ـــ‘‘
پرویز رشید کے ان الفاظ کو پڑھیے اور بار بار پڑھیے کہ وہ کس ڈھٹائی کے
ساتھ انگریزی اور سیکولر فکر کے مقابلے میں دین ِاسلام کی آفاقی اور آسمانی
فکر کو مردہ فکر قرار دے رہے ہیں ؟اس سے زیادہ افسوس کی اور کیا بات ہو گی
کہ پرویز رشید کی محبوب گنگا وجمنا کی جو فکر لاکھ اشنان کرنے کے باوجود
بھی ایک گندے جوہڑ سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتی پرویز رشید کے نزدیک وہ زندہ
فکر ہوئی اور دین اسلام کی صدیوں سے حیات تازہ بخشنے والی اور مدتوں تک
انسانیت کو زندہ رکھنے والی دینی فکر کو یہ ناعاقبت اندیش شخص مردہ فکر
قرار دے رہا ہے ۔موت اور مرنے کے بعد کی زندگی کے احوال پر مشتمل کتاب کا
جس بھونڈے انداز سے پرویز رشید نے تمسخراڑایا اور اس پر جس طرح تقریب میں
موجود’’ کُپی مافیا‘‘قہقہے بلند کرتا ہے وہ منظر پڑھنے سے زیادہ دیکھنے سے
تعلق رکھتا ہے ۔مرنے کے بعد کی زندگی کو اس دیدہ دلیری سے ہدف تنقید بلکہ
تمسخر واستہزاء کا نشانہ کوئی ایسا بدنصیب ہی بنا سکتا ہے جو جنت وجہنم اور
مرنے کے بعد کی زندگی پر ایمان نہ رکھتا ہو اور جو مرنے کے بعد کی حقیقی
زندگی کو ایک زندہ حقیقت جانتا ہو وہ اس حد تک دیدہ دلیری پر نہیں اتر سکتا
۔پرویز رشید نے اس مردہ فکر کو پھیلانے کے منبع کا تذکرہ کیا، وہ مسجد کا
نام لینے کی جرأت نہ کر سکے لیکن لاؤڈ اسپیکر کی آڑ لے کر دل کی بھڑاس
نکالی ۔اگر وہ علماء وخطباء کی جانب سے لاوڈ اسپیکر کے استعمال یا وعظ
وتقریرپر طنز کے نشتر برساتے تو بھی اسے گوارہ کیا جا سکتا تھا لیکن پرویز
رشید نے پانچ وقت کے لیے لاؤڈ اسپیکر ’’اُس ‘‘کے ہاتھ میں دینے کی جو بات
کی اس کا نشانہ تو براہ راست پانچ وقت کی اذان اور پانچ وقت کی نماز بنتی
ہے۔
حیرت ہے کہ پرویز رشید نے قرآن وسنت اور دینی علوم کے مراکز یعنی دینی
مدارس اور اسلامی درسگاہوں کو جہالت کی یونیورسٹیاں قرار دیتے ہوئے ایک
لمحے کے لیے بھی نہیں سوچا کہ وہ دینی مدارس جہاں سے قرآن وسنت کے ان علوم
کی شمعیں فروزاں کی جاتی ہیں جنہوں نے جہالت کے گھٹا ٹوپ اندھیروں میں ڈوبی
انسانیت میں اجالے بانٹے ،جن دینی مدارس نے امت کا دین سے رشتہ باقی رکھا
،جو مدارس ہر سال قوم کو ہزاروں حفاظ اور علماء وعالمات کا تحفہ پیش کرتے
ہیں ،جن کی خدمات کا رابطہ عالم اسلامی اور دیگر عالمی ادارے اعتراف کرتے
ہیں ،وہ مدارس جن کی رفاہی خدمات کا پرویز مشرف جیسا شخص بھی اعتراف کرتا
تھا ،وہ مدارس جن کے دم قدم سے عرب وعجم آسمانی علوم کے نور سے جگمگ جگمگ
کر اٹھے ان کو پرویز رشید جہالت کی یونیورسٹیاں قرار دے رہے ہیں تو ان کی
عقل پر سوائے ماتم کے اور کیا کیا جا سکتا ہے ؟
ہمیں پرویز رشیدسے زیادہ موجودہ حکومت ،پاکستان مسلم لیگ کی قیادت اور اس
کے اہم مناصب پر فائز شخصیات کے طرز عمل پر افسوس اور حیرت ہے کہ جب
پاکستان مسلم لیگ کی حکومت اور ان کی جماعت کے انتہائی اہم منصب پر فائز
شخص کے زہر میں بجھے الفاظ پر پوری قوم دکھی ہے ،وطن عزیز کا بچہ بچہ
اشتعال اور غم وغصے کی کیفیت میں ہے ان بادشاہ مزاج لوگوں کو جو ووٹ بٹورنے
کے لیے اسلام پسندی کا ڈھنڈورہ پیٹتے نہیں تھکتے ان سب کو سانپ کیوں سونگھ
گیا ہے ؟
یہاں یہ امر بھی واضح رہے کہ پرویز رشید شعائر اسلام کی گستاخی اور بے
حرمتی کے بعد اسلام کے نام اور کلمہ طیبہ کے نعرے پر معرض وجود میں آنے
والی مملکت خداداد کے اس اہم منصب پر فائز رہنے کا استحقاق کلی طور پر کھو
بیٹھے ہیں انہیں نہ صرف یہ کہ فی الفور اس منصب سے الگ کیا جانا چاہیے بلکہ
انہیں قرار واقعی سزابھی دی جانی چاہیے تاکہ آئندہ کسی’’ جغادری‘‘ کو دینِ
اسلام اور شعائرِ اسلام کے بارے میں ہرزہ سرائی کی جرأت نہ ہو سکے ۔پرویز
رشید کے معاملے میں تمام مکاتب ِفکر کی طرف سے بہت بھرپو ر رد عمل سامنے
آیا ہے لیکن ہم اسے مزید منظم کرنے کے لیے تمام مکاتب فکر کے زعماء ،تمام
اہم جماعتوں کے قائدین سے رابطہ کرکے آئندہ کی حکمت عملی کا اعلان کریں گے
۔یاد رہے کہ پرویز رشید کے اس بیان کے آڈیواور ویڈیوکلپس مختلف دارالافتاؤں
میں بھجوا دئیے گئے ہیں جہاں مفتیان کرام کے پینل اس کا لفظ بہ لفظ جائزہ
لے کر شرعی حکم بیان کریں گے جسے مدنظر رکھتے ہوئے مزید اقدامات اٹھانے میں
مدد ملے گی ۔وزیر اعظم پاکستان اور پاکستان مسلم لیگ کی قیادت کسی غلط فہمی
میں نہ رہے ۔شعائر اسلام کا تقدس اور تحفظ ہمارے دین وایمان کا حصہ اور
زندگی اور موت کا مسئلہ ہے اور اس پر کسی کمپرومائز کی کوئی گنجائش نہیں ۔ |
|