ملکی تباہی کا ذ مہ دا ر کون؟

تحریر: تا نیہ طارق ‘ راولپنڈی

عام انتخابات کے بعد سے اب تک ملکی سیاست میں گرما گرمی جاری ہے۔ سیاسی ہلچل کی وجہ سے حالات بھی کبھی کشیدہ تو کبھی نارمل ہوجاتے ہیں۔ اس گھماگمی کے اچھے اور برے اثرات بالواسطہ اور بلاواسطہ ملک پر مرتب ہورہے ہیں۔ ملک گزرتے روز کے ساتھ ہی تباہی کی طرف جیسے گامزن ہے۔ کہیں امید کی کرنیں پھوٹتی دیکھائی دیتی ہیں تو حوصلہ بڑھتا ہے مگر اس اثنا دوسری جگہ سیاسی لیڈر ایک دوسرے کی ٹانگیں کھینچتے پائے جاتے ہیں جس سے تمام امیدوں پر حوس پڑنے لگتی ہے۔ ملکی بے حالی میں حکومتی سطح پر جہاں کچھ کمیاں اور کوتاہیاں ہیں وہیں بطور عوام ہماری بھی کچھ ذمہ داریاں ہیں۔ ان ذمہ داریوں سے آنکھیں چرانے کے باعث آج ہم مسائل کا شکار دیکھائی دیتے ہیں۔

قائد ا عظم محمد علی جناح نے بڑی جد و جہد اور کٹھن مراحل سے گزرنے کے بعد یہ ملک حاصل کیا تھا لیکن اس ملک کی حا لت دن با دن خراب ہوتی جا رہی ہے اور پا کستان کی اس حالت کے ذمہ دار ہم لوگ خود ہیں۔ آج ہمارے ملک میں جھوٹ ‘ چوری اور غیبت جیسی کئی برائیاں عام ہو گئی ہیں۔ نہ صرف بھائی بھا ئی کا دشمن ہے بلکہ پوری امت مسلمہ ہی حالت جنگ میں دکھا ئی دے رہی ہے۔

ہم بطور پاکستانی اور مسلم آ پس میں دست و گر یباں ہیں اس کے بعد کہا جاتا ہے کہ ہما رے خلاف سا زشیں ہو رہی ہیں اور ہمیں آپس میں لڑایا جا رہا ہے اور یہ جو کچھ بھی ہو رہا ہے اس میں دوسرے ملکوں کا ہاتھ ہے۔ ان جملوں نے ہمیں کبھی اپنا احتساب نہیں کرنے دیا۔ دوسروں پر الزام عائد کرنے کی بجائے اپنی ذات کے اندر چھپی برائیوں کو تلاش کرنے اور دور کرنے کی کوشش نہیں کرتے۔ ہم سب جانتے ہیں کہ اگر ایک شہری دوسرے سے بے ایمانی کرتا ہے تو اس میں کسی بیرونی ملک کی سازش کا عنصر کہیں نہیں پایا جاتا۔ اگر ایک آدمی جھوٹ بولتا ہے تو یہ اس کا ذاتی فعل ہے جس سے معاشرے میں بدعہدی پیدا ہوتی ہے۔ یہ سب برائیاں ہمارے ایمان کی کمزوری کی وجہ سے ہیں۔

چھوٹ، چوری، بدعنوانی، رشوت زنی، بد عہدی جیسی چھوٹی چھوٹی معاشرتی برائیوں کی بنا پر ہم ترقی یافتہ ممالک کی صف میں پیچھے رہ گئے ہیں۔ شریعت اسلامیہ کا اگر مطالعہ کیا جائے تو یہ تمام برائیاں جنہیں آج کے دور میں معمولی سمجھ لیا گیا اور ہر دوسرا شخص کرتے ہوئے ہچکچاتا نہیں بہت کبائر گناہوں میں شمار کی جاتی تھیں۔ بنیادی طور یہ برائیاں نہ صرف معاشروں کے معاشرے تباہ کرنے کا سبب بنتی ہیں بلکہ ان برائیوں کی بدولت ہم اپنی تاریخ کو بھی مسخ کر رہے ہیں۔

آج مسلمان اسلامی تعلیمات کو بھلا کر بدگما نی ، غیبت‘ رشوت زنی اور نجانے کتنی برائیوں کا شکا ر ہیں۔ ہمار ے ملک میں نفرت اور بے چینی بڑھتی جارہی ہے۔ ملکی سلامتی اور امت مسلمہ کی خیر و عافیت کیلئے حکومت اور عوام کا کردار بہت اہمیت کا حامل ہے۔ ہماری عسکری اور سیا سی قیادت کو چاہیے کہ اپنی صلاحیتوں کا بھرپور استعمال کرتے ہوئے وطن عزیز کے خلاف سازشوں کو ناکام بنائیں اور مسلمان ممالک میں پھیلی کشیدگی کے سدباب کے لئے ثالث کا کردار ادا کرتے ہوئے انہیں مشکل حالات سے نکا لنے کی کوشش کریں۔

جہاں حکومت سطح پر ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں وہیں ہماری عوامی سطح پر بھی کچھ ذمہ داریاں بنتی ہیں جن پر عمل پیرا ہوکر ہم اپنے معاشرے کو پاک و صاف رکھ پائیں گے۔ اگر ہمارا معاشرہ مستحکم ہوگا تو یقینا ملک و ملت کے استحکام میں بھی ہمارا کردار نمایاں ہوگا۔ ہمیں چاہیے کہ اپنے اسلاف کی سیرت کو اپناتے ہوئے برائیوں کا حصہ بننے کی بجائے قلع قمع کریں۔ ہمارے اسی کردار سے شاید ہمارے حکمران بھی راہ راست پر آجائیں گے اور جب عوامی سطح سے اعلیٰ سطح تک سب سیدھی پر پر گامزن ہوں گے تو ملک کو تباہی سے بچایا جاسکے گا۔ نہ صرف ہمارے ملک کا نام روشن ہوگا بلکہ عوام کو بھی سکون کا سانس لینا نصیب ہو سکے گا ۔
Maryam Arif
About the Author: Maryam Arif Read More Articles by Maryam Arif: 1317 Articles with 1142598 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.