وہ صاف ستھرا اور باوقار لباس زیب تن کئے ہوئے
تھا،مگراُس کے چہرے سے تھکاوٹ کے ساتھ بیزاری اورمایوسی کے آثاربھی نمایاں
تھے۔اُس نے محکمہ تعلیم کے ضلعی دفترکے ایک کمرہ میں نہایت باادب انداز میں
داخل ہوتے ہی عاجزی سے سلام عرض کیا۔ کرسی پر براجمان سرکاری اہلکار نے اُس
کی جانب ایک نظر دیکھااورناگواری سے چہرہ دوسری جانب پھیرلیا۔ان صاحب نے اس
کے سلام کا جواب دینا بھی مناسب نہ سمجھا۔ وہ شخص یہ سوچ کردیوار کے ساتھ
ٹیک لگا کر کھڑا ہوگیا، کہ شاید فی الحال مصروفیت کی وجہ سے سرکاری اہلکار
نے اس پر توجہ نہیں دی، ممکن ہے تھوڑی دیر بعداس کی بات سنی جائے۔سرکاری
اہلکار تھوڑے توقف کے بعد دفتری اوقات کے دوران ملاقات کے لئے آئے دوستوں
کے ساتھ دوبارہ شریک گفتگوہوگیا۔دفتری اوقات میں سجی محفل میں ملک کی ابتر
صورت ِحال سے لیکر نااہل حکمرانوں کی لوٹ مار،مسائل میں گھرے غریب و
مجبورعوام کی حالت زار،مہنگائی،بے روزگاری،بڑھتے ہوئے جرائم اورسرکردہ
راہنماؤں پر تنقید جاری تھی۔احکامات ِ الٰہی کی بجاآوری اوراخلاقیات کا بھی
ذکرآیا۔ان بے تکلف دوستوں کی سماجی،اخلاقی اور معاشی انقلاب برپا کردینے
والے نکات پر مبنی گفتگو اگرچہ برموقع نہیں تھی، مگرتھی لاجواب ۔ان لوگوں
نے حکومتی عہدیداروں کی ناکامی،کرپشن اورلوٹ مار سے عوام کی توجہ ہٹانے کے
لئے میڈیا پرٹیلی کاسٹ ہونے والے ٹاک شوز میں کی جانے والی اداکاری کو بھی
آڑے ہاتھوں لیا ۔حکومتی اداروں کی تباہ حالی اورناکامی بھی زیر ِبحث
آئی۔اصلاح معاشرہ جیسی دلکش اورمعلومات افزاء بحث کے باوجودسائل کے چہرہ
پربیزاری اورنفرت وحقارت کے آثار واضح تھے اورآخر کار اسی مایوسی کی حالت
میں وہ کمرے سے باہر چلاگیا۔ اس کے باہر جاتے ہی سرکاری اہلکار کے چہرے
پرفاتحانہ مسکراہٹ قابل ِدید تھی۔
ہم لوگ بھی کس قدرعجیب ہیں،ہمارے کردار وگفتار میں واضح فرق نہ جانے کب ختم
ہوگا۔ سرکاری اداروں کی تباہی میں ہماراکردار ہے،ہم لوگوں کے لئے مشکلات
بھی پیدا کرتے ہیں،ہم لوگوں کے ساتھ انتہائی نارواسلوک بھی اختیارکرتے
ہیں۔ہم اپنے سطحی اورذاتی فائدے کی خاطرکرپٹ اورنااہل سیاستدانوں کومنتخب
بھی کرتے ہیں۔پھر خودہی اُنہیں برابھلابھی کہتے ہیں۔ ہم میں سے جس کوذرا سی
بھی طاقت یا اختیارحاصل ہوجائے ،وہ خود کو سب سے معتبر خیال کرنے لگتا
ہے۔وہ اپنے اختیار کو دوسروں کے لئے مشکلات پیدا کرنے،اپنے مفاد اوردولت
سمیٹنے کے لئے استعمال کرتاہے ۔ہم دوسروں کے ساتھ ذلت آمیزسلوک بھی کرتے
ہیں اورمعاشرے میں پائی جانے والی اخلاقی پستی کا رونا بھی روتے ہیں۔پورے
معاشرے کی اصلاح کے لئے بحث اوروعظ وتقاریربھی کرتے ہیں۔مگراپنے آپ کو بھول
جاتے ہیں۔
مجھے اپنی غرض سے آئے بھی گھنٹہ بھرسے زیادہ وقت گزر چکاتھا۔دل ہی دل
میں،میں بھی ان کی اس طویل گفتگو سے بیزار ہونے لگاتھا۔مگرکیا کرتا کہ مجھے
بھی انتظار کے لئے کہاگیا اور بیٹھنے کی جگہ مل جانے پر ہی خوش تھا۔ تھوڑی
دیر بعد وہ آدمی دوبارہ آیا مگر اس بار وہ آفس کے سٹاف کو ساتھ لے
کرآیا،جوغالباََمتعلقہ ادارے کی یونین کاصدر تھا۔ ان صاحب کے آتے ہی سب
احتراماََکھڑے ہوگئے۔اس سے پہلے کہ کوئی بات ہوتی سہولت کار کے طورپر آنے
والے صاحب نے آنکھ کے اشارے سے سمجھادیاکہ اس کی آمدکومحض کارروائی سمجھا
جائے، پھر کہا کہ اس کے کام کا کیابنا؟ جی بس !بڑے صاحب (اس ادارہ کے ہیڈ)
کی مصروفیات سے آپ سے زیادہ کون واقف ہوگا۔ بس اُن کی میزپر متعلقہ فائل
پڑی ہے۔ جیسے ہی اس کے متعلق ضروری پیش ِرفت ہوئی،انہیں آگاہ کردیا جائے
گا۔بس اب بہت ہو گئی ،اس سلسلہ میں اب انہیں مزید زحمت نہیں ہوگی۔ جناب
انہیں میں خود اطلاع کردونگا،بہت اچھا کہہ کرسہولت کار باہرچلا گیا۔اُس
سائل نے جانے سے پہلے ایک بار پھر کہا جناب ، آپ کو معلوم ہی ہے کہ میں
کتنی دور سے آپ کی خدمت میں حاضرہوتا ہوں۔جی ہمیں معلوم ہے،ہم معذرت خواہ
ہیں، آپ بے فکرہوجائیں، آپ کا کام ہوجائے گا، میں آپ کو اطلاع کردونگا۔وہ
شخص شکریہ کے بعدخداحافظ کہہ کرباہر چلاگیا۔
اُس کے جاتے ہی ان صاحب نے میزکی دراز سے ایک فائل نکالی اور بڑے فخرسے
اپنے دوستوں کودکھاتے ہوئے کہا ایک مدت ہوئی صاحب نے دستخط کردیئے لیکن اس
کوہمارا احساس ہی نہیں، کہ ہماری بھی ضرورتیں ہیں۔ یہ لوگ سمجھتے ہیں کہ
سرکاری کام اتنا آسان ہوتا ہے۔انہیں کیا معلوم ہمیں ان کے کام کے لئے صاحب
کی کتنی ڈانٹ برداشت کرنا پڑتی ہے۔ایسے سفارشی لوگوں سے مجھے بے حد نفرت
ہے۔اسے میں مزید دوچار چکر لگواؤں گا۔مجھ پرنظرپڑتے ہی پہلے تو حیران ہوا،
کیونکہ جذبات میں اُسے یہ بھی یاد نہ رہا کہ کوئی غیرمتعلقہ آدمی بھی بیٹھا
ہے۔تھوڑا پریشان ہوا،پھرسنبھل کربولا،جناب اب چھٹی کا وقت ہوگیا ہے آپ کل
پہلے وقت میں تشریف لائیں۔میں نے وقت دیکھا توابھی پورا ایک گھنٹہ باقی تھا۔
وہ آدمی سڑک کنارے تیزقدموں سے پیدل جارہاتھا، میں نے اُس کے پاس رُک
کرکہا،کہاں جانا ہے۔اُس نے جواب دیا، میں نے تو بس سٹینڈ کی طرف جانا ہے۔
کیاآپ نے بھی ؟ میں نے کہاہاں آؤبیٹھو، میں چھوڑ دیتا ہوں۔۔پھرمجھ سے پوچھا
جناب آپ تو دفتر میں بیٹھے تھے کیا وہ آپ کے دوست ہیں؟میں نے کہاجی نہیں
میں بھی آپ ہی کی طرح کسی کام سے گیا تھا۔تو کیا آپ کا کام ہوگیا؟نہیں مجھے
کل دوبارہ آنے کاحکم دیاگیاہے۔
میرے پوچھنے پر اُس نے بتا یاکہ اُس کاگھراس ضلع کے آخری گاؤں سے بھی
تھوڑازیادہ فاصلے پر ہے۔میں اسی گاؤں کے پرائمری سکول میں اُستاد ہوں۔میرے
سمیت کل تین لوگ یہاں تعینات ہیں،حالانکہ کم از کم پانچ کا یہاں تعینات
ہونا ضروری ہے۔اس پر مزید ظلم یہ کہ ہم تینوں میں سے ایک اسی گاؤں میں اپنی
کریانہ کی دُکان چلارہاہے۔اس لئے وہ صرف تھوڑی دیر ہی کے لئے آتا ہے، اُس
دوران بھی دُکان کا حساب کتاب کرتا رہتاہے۔دوسراآدمی مالٹا،کینوکے باغوں
کا(بیوپاری)سوداگر ہے،اس کی بہت اوپر تک پہنچ ہے۔اس کا کوئی کچھ نہیں بگاڑ
سکتا۔اول تو کوئی آفسر اس دُشوار گزار علاقہ کا رُخ ہی نہیں کرتا،پھر بھی
احتیاطاََ اس کی چھٹی کی درخواست حاضری رجسٹر میں ہروقت پڑی رہتی ہے،تاکہ
بوقت ِضرورت اُس دن کی چھٹی کا اندراج کردیا جائے۔اُستاد نہ ہونے کی وجہ سے
والدین بچوں کو سکول نہیں بھیجتے۔یہی بچے جوان ہوکربیکار اورفارغ ہونے کی
وجہ سے جرائم پیشہ افرادکے ہاتھوں کھلونا بن جاتے ہیں۔اس طرح ان کی ساری
زندگی جرائم کی دُنیا میں گزرجاتی ہے۔
ہاں شہرآنے کا سبب بتانا بھول ہی گیا۔ مجھے اپنے ایک محکمانہ کام کے لئے یہ
ساتواں چکر ہے۔ اس دوران میں پیسہ کے علاوہ وقت برباد کرچکا ہوں،مگر ابھی
تک میری درخواست پر ضلعی آفیسر(ڈی۔ای۔او) کے دستخط نہیں ہوسکے اور معلوم
نہیں مزید کتنا ذلیل و خوار ہونا پڑے۔جس دن مجھے ضلعی آفیسر کے آفس آنا
ہوتا ہے اُس دن ڈیوٹی پر کوئی بھی نہ ہونے کی وجہ سے سکول مکمل طورپر
بندرہتاہے۔ ضلعی آفس آنے کے لئے نماز فجرسے پہلے گھرسے نکلنا پڑتا ہے ،تا
کہ فجرکے فوراََ بعدگاؤں سے چلنے والی گاڑی پر پہنچ سکوں۔یہاں پہنچنے تک
مجھے کم ازکم تین گاڑیاں تبدیل کرنی پڑتی ہیں،اس بار بار کی تبدیلی سے ،یہاں
پہنچنے تک آدھا دن ضائع ہوجاتا ہے۔اسی طرح واپس گھر پہنچنے میں بھی تاخیر
ہوجاتی ہے۔اکثر اوقات آدھی رات کوگھر پہنچتا ہوں۔
وزیراعلیٰ پنجاب میاں محمد شہباز شریف کی پرعزم قیادت میں تعلیم پر خصوصی
توجہ دی گئی۔اس شعبہ میں وہ کافی متحرک نظرآئے اورانتہائی پرزورانداز میں
کام کیا۔وزیراعلی پنجاب نے تعلیم کے شعبہ میں بہتری کے لئے ہنگامی بنیادوں
پر اقدامات کئے۔جس سے اس شعبہ میں کافی حدتک بہتری آئی۔ نصف صدی سے زیادہ
عرصہ پر محیط شعبہ تعلیم سے برتی جانے والی بے امتنائی سے پیدا ہونے والے
مسائل راتوں رات حل ہونے سے رہے۔لہٰذا اس مقصد کے حصول میں100% کامیابی کے
لئے اصلاحاتی پالیسیوں میں تسلسل اورانتھک محنت درکارہے۔قوم کے بچوں کو
تعلیم دینے کی بجائے مسلسل غیر حاضری کے سبب قومی بدیانتی کے مرتکب افرادجن
کی تعدادآٹے میں نمک کے برابر ہے،مگر پورے شعبہ تعلیم کی بدنامی کاموجب بنے
ہوئے ہیں۔ایسی کالی بھیڑوں، نااہل،مفاد پرست افراد سے چھٹکارے کے لئے کسی
رورعایت کے بغیرسخت اقدامات کئے جائیں۔
بے شک صحیح طور پرخدمات سرانجام دینے والے دیانتداراورنیک نیت اُساتذہ کرام
جوتعداد میں کہیں زیادہ ہیں۔ایسے حضرات کی تعریف اورحوصلہ افزائی نہ
کرنابھی زیادتی ہے۔ اس عظیم شعبہ سے منسلک افرادجوصوبہ بھر کے شہروں
اوردوردرازدیہی علاقوں میں دیانتداری،نیک نیتی اورخلوص دل سے قومی ذمہ داری
سمجھتے ہوئے درس وتدریس کی خدمات سرانجام دے رہے ہیں،ایسے حضرات کی دل
آزاری اورحوصلہ شکنی کی بجائے ان کے مسائل ترجیحی بنیادوں پر حل کرنے
ہونگے۔ہماری وزیراعلیٰ پنجاب میاں محمد شہباز شریف صاحب سے خصوصی گزارش ہے
کہ محکمہ تعلیم کے دفاتر میں مسائل کے حل کے لئے آنے والے اساتذہ کرام کے
ساتھ عزت و احترام کے ساتھ پیش آنے کی خصوصی ہدایات جاری کی جائیں۔ درس
وتدریس سے وابستہ افراد کے تحصیل(A.E.O ( اور ضلعی دفاتر (E.D.O.&D.E.O.)
میں انتظامی معاملات اور مسائل کی بروقت انجام دہی کے لئے آبرومندانہ طریقہ
کاروضع کیا جائے اور اس سارے عمل کی مناسب انداز میں نگرانی کا بھی معقول
بندوبست کیاجائے،تاکہ اُساتذہ کرام قومی تعمیروترقی میں اپنا بے مثال کردار
یکسوئی اوربے فکری کے ساتھ اداکرسکیں۔
|