حریت تنظیمیں،تحریک آزادی اور کشمیر !

گزشتہ سال بھارتی مقبوضہ کشمیر کے سینئر آزادی پسند رہنماسید علی شاہ گیلانی نے تحریک آزادی کشمیر کے حوالے سے کشمیری عوام کی طویل جدوجہد آزادی کے لئے سیاسی کوششوں کو موثر بنانے کے لئے حریت کانفرنس کے مختلف دھڑوں،آزادی پسند تنظیموں کے درمیان اتحاد کی کوشش شروع کی جس کا مثبت جواب سامنے آیا۔تاہم تاریخ کے بھیانک اور تباہ کن سیلاب سے یہ کوششیں تعطل کا شکار ہو گئیں۔سیلاب کی بدترین تباہ کاریوں کے ماحول میں مقبوضہ کشمیر میں مقامی اسمبلی کے الیکشن کا ڈول ڈالا گیاجس کے نتائج کے مطابق’ بی جے پی ‘ نے جموں اور لداخ جبکہ مفتی سعید کی ’پی ڈی پی‘ نے وادی کشمیر میں اکثریت لی اور یوں انہی دونوں جماعتوں کی مخلوط حکومت قائم کی گئی۔مقبوضہ کشمیر میں سیاسی یلغار کرتے ہوئے تحریک آزادی کو شدید دباؤ میں لانے کی ’بی جے پی‘ کی اس کوشش کے ساتھ ہی مقبوضہ کشمیر میں مسلم آبادی کو اقلیت میں تبدیل کرنے کا ایک خطرناک منصوبہ بھی شروع کیا گیا ۔ کشمیر میں آبادی کے تباسب میں تبدیلی کے اس بھارتی منصوبے کی کشمیریوں کی طرف سے سختی سے مخالفت کی جا رہی ہے تاہم یہ منصوبہ اتنا خطرناک ہے کہ اس کے خلاف منظم اور موثر کاروائیوں کی ضرورت ہے۔چند ہفتے قبل حریت کانفرنس ( میر واعظ) دھڑے کا اجلاس ہوا جس میں اس دھڑے میں شریک تمام نمائندوں نے شرکت کی۔اس اجلاس میں یہ فیصلہ کیا گیا کہ عوامی رابطوں پر توجہ دی جائے اور لداخ،کرگل اور جموں میں بھی رابطے کئے جائیں۔اس کے بعد سید علی شاہ گیلانی کی دہلی میں علاج سے واپسی پر سرینگر میں ان کے پرجوش استقبال کا واقعہ پیش آیا جس میں پاکستان کے حق اور بھارت کی مخالفت میں فلک شگاف نعرے لگائے گئے اور پاکستان کے جھنڈے لہرائے گئے۔انڈین حکومت اورانڈین پریس نے سید علی شاہ گیلانی کے اس استقبال کے واقعہ پر اسی طرح کے ردعمل کا اظہار کیا جیسے 1945ء میں کانگریس اور نیشنل کانفرنس کے دریائی جلوس کے خلاف کشمیریوں کے پرجوش مظاہرے کے بعدکیا گیا تھا۔سرینگر میں پاکستان کے حق اور بھارت کی مخالفت میں لگنے والے نعروں اور لہراتے پاکستانی جھنڈوں نے ہندوستانی حکومت اور وہاں کے میڈیا کو سخت تکلیف سے دوچار کیا ہے۔یہی بات کشمیری بھی جانتے ہیں کہ بھارت کو سب سے زیادہ تکلیف مقبوضہ کشمیر میں پاکستان کی حمایت پر ہوتی ہے، بھارت کے بدترین مظالم اور جبر کے جواب میں بھارت کوشدید تکلیف میں مبتلا کرنے کا یہ ایسا موثر ہتھیار ہے جسے کشمیری کبھی فراموش نہیں کرتے۔

بھارتی انتظامیہ نے حریت پسند رہنماؤں اور کارکنوں کی گرفتاریوں کا سلسلہ ایک بار پھر تیز کر دیا،انہی دنوں بھارتی فورسز کی فائرنگ سے کشمیری نوجوانوں کی ہلاکت پر بھی بھارت مخالف احتجاجی مظاہرے ہو ئے اور بھارتی انتظامیہ نہتے مظاہرین کے خلاف حسب معمول تشدد،جبر،گرفتاریوں اور قید و بند کا نشانہ بنانے کی ظالمانہ کاروائیاں کر رہی ہے۔چند دن قبل ہی جمو ں کشمیر پیپلز موومنٹ(جموں) کشمیر فریڈم فرنٹ،تحریک مزاحمت جموں کشمیر،اسلامک پولیٹکل پارٹی،گجر پہاڑی فورم،مسلم خواتین مرکزاور پیران ولایت جمو ں کشمیر سمیت چند تنظیموں نے حریت کانفرنس(میر واعظ) سے علیحدگی اختیار کرتے ہوئے حریت کانفرنس(گیلانی) میں شمولیت اختیار کی ہے۔اس موقع پر ایک معاہدے پر دستخط کیئے گئے جس میں 1993ء کے آئین پر کاربند رہنے کا عہد کیا گیا۔دوسری طرف حریت کانفرنس (میر واعظ) نے ان تنظیموں کے اس اقدام پر ردعمل میں کہا ہے کہ ان تنظیموں نے کبھی کوئی آئینی مطالبہ نہیں کیا،یہ بھی کہا گیا کہ یہ تنظیمیں محض ایک یا چند افراد پر ہی مشتمل ہیں۔چند مزیدتنظیمیں بھی میر واعظ دھڑے کو چھوڑ کر حریت کانفرنس گیلانی میں شامل ہو رہی ہیں۔گزشتہ دنوں سے ہی دیکھا گیا ہے کہ مقبوضہ کشمیر کی تمام آزادی پسند تنظیمیں عوامی رابطوں پر توجہ دے رہی ہیں اور یہ بات بھی بھارت کے لئے پریشانی کا ایک سبب ہے۔ بھارتی فورسز کی فائرنگ سے ناربل میں ایک نوجوان کی ہلاکت کے خلاف احتجاج کے لئے حریت رہنما ایک ساتھ شریک ہوئے تو کشمیریوں کے لئے یہ ایک امید افزاء منظر تھا لیکن ابھی تک ان کے درمیان اتحاد و اشتراک عمل کی وہ فضا پیدا نہیں ہوئی جس کی کشمیری عوام ان سے توقع کر رہے ہیں۔

یہ ایک حقیقت ہے کہ 1988ء میں بھارت سے آزادی کی مسلح جدوجہد شروع ہونے کے وقت سے ہی ایسی کئی کشمیری تنظیمیں سامنے آ گئی تھیں جومسلح جدوجہد کرنے والے کشمیری نوجوانوں کی سیاسی نمائندگی کر رہی تھیں۔پاکستان نے آزاد کشمیر میں کشمیری حریت پسندوں کے کیمپ بند کر دیئے ،سیزفائر لائین(کنٹرول لائین) سے کشمیری گروپوں کی آمد و رفت کا سلسلہ بند کر دیا گیا تاہم مسلح کشمیری تنظیموں کا متحدہ جہاد کونسل بدستور قائم ہے۔لیکن اس مسلح جدوجہد میں ایسی تبدیلیاں رونما ہوئیں کہ کشمیری عوام کے وہ سوالات تشنہ لب ہی رہ گئے کہ مسلح جدوجہد میں ہونے والی سنگین خرابیوں کا ذمہ دار کس کو قرار دیں،بھارتی مقبوضہ کشمیر کو آزاد کرانے کے بجائے ایک لاکھ سے زائد کشمیریوں کی ہلاکت،بے شمار عصمتوں کی پامالی،جائیدادوں کی تباہی ،قید ،تشدد کی قربانیوں کو ’’ پراکسی وار‘‘ کا سٹیٹس دیا گیا۔مسلح جدوجہد کی طرح تحریک آزادی کے سیاسی شعبے کی خرابیوں اور خامیوں کی جانب بھی کشمیری عوامی حلقوں کی جانب سے کئی بار نشاندہی کی گئی لیکن حریت رہنماؤں کی طرف سے ان خرابیوں اور خامیوں کو کبھی بھی مخاطب کرتے ہوئے اصلاح کی کوئی راہ نہ اپنائی گئی کہ جیسے یہ بات بھی ان کے دائرہ کار میں شامل نہ ہو۔

دونوں دھڑوں کے نمائندوں پر مشتمل حر یت کانفرنس کی آزاد کشمیر /پاکستان شاخ بھی قائم ہوئی۔کشمیری عوام کو حریت تنظیموں سے متعلق بڑی شکایات میں تحریکی مفاد کے بجائے تنظیمی مفاد کو ترجیح دینا اور کئی حریت رہنماؤں کی جائیدادوں اور ان کے معاشی ’’سٹیٹس‘‘ میں نمایاں تبدیلی کے معاملات بھی شامل ہیں۔بلاشبہ بلخصوص مسلح جدوجہد ختم ہونے کے بعد سے حریت پسند تنظیمیں کشمیری عوام کو جدوجہد کا پلیٹ فارم مہیا کرنے میں بھی ناکام رہیں ۔اس بات میں کوئی شک و شبہ نہیں کہ حریت کانفرنس کی خرابیوں اور خامیوں کو بہتری کے لئے مخاطب کرنا ضروری ہے لیکن بعض عناصر حریت کانفرنس کی مختلف خرابیوں اور خامیوں کو بیان کرتے ہوئے کشمیریوں کی طویل اور مقدس جدوجہد آزادی کو حرف تنقید بناتے ہوئے ہندوستانی قبضے اور موقف کو مضبوط بنانے کی کوشش میں نظر آتے ہیں۔کشمیری عوام نے آزادی کے لیے جدوجہد کرتے ہوئے بے مثال قربانیاں دی ہیں،کسی تنظیم یا شخصیات کے لئے نہیں۔یوں حریت تنظیموں کی بد انتظامی،مال و دولت بنانا اور کشمیریوں کی جدوجہد آزادی کی درست سیاسی نمائندگی نہ کرنا،حریت کانفرنس پر ایسے الزامات ہیں جس کی اصلاح تحریک آزادی کشمیر کے لئے ناگزیر ہے۔لیکن حریت تنظیموں کی ان خرابیوں اور خامیوں کو اس طور پیش نہیں کیا جا سکتا کہ کشمیریوں کی تحریک آزادی کو داغ زدہ یا بے سود قرار دیتے ہوئے کشمیریوں کو ورغلانے کی کوشش کی جائے۔ مقبوضہ کشمیر میں حریت کانفرنس سے یہ مطالبہ کرنے والے کہ ’’ کشمیریوں کو نہ مروایاجائے‘‘ ، کشمیریوں کے فطری جذبہ آزادی کی توہین کہ مترادف ہے کہ کشمیریوں کی مسلسل اور بے مثال قربانیاں حر یت تنظیموں کے لئے نہیں بلکہ کشمیریوں کے حق آزادی کے لئے ہیں۔

اس وقت مختصر طور پر یہی کہا جاتا ہے کہ حریت کانفرنس کی تنظیموں میں غیر سنجیدگی،مفاد پرستی نمایاں ہے،اس صورتحال کی اصلاح ناگزیر ہے کہ اس سطح کے کردار کے مظاہرے سے کشمیریوں کی طویل اور مقدس تحریک آزادی پر بھی حرف آ رہا ہے۔ حریت کانفرنس کا مقبوضہ کشمیر کی طرح آزاد کشمیر /پاکستان میں بھی کردار نہایت اہمیت کا حامل ہے ،لیکن حریت کانفرنس آزاد کشمیر اپنی سو چ و فکر رکھنے کے بجائے محض ایسی ’’ کمانڈ اینڈ کنٹرول‘‘ میں ہی محدود ہے جس کی کوئی منصوبہ بندی نظر نہیں آتی ہے۔مقبوضہ کشمیر کی آزادی پسند تمام تنظیموں کو اپنی نئی صف بندی پر توجہ دینی چاہئے ،تنظیموں کو آگے پیچھے کرنے سے ایسی صف بندی نہیں ہوتی جو کشمیریوں کی سیاسی جدوجہد کو مضبوط و موثر بنا سکے۔ہماری رائے میں آزاد کشمیر /پاکستان میں بھی حریت کانفرنس کا کردار نہایت اہمیت کا حامل ہے لیکن اس کے لئے ایک قابل تقلید مثال قائم کرنے کی ضرورت ہے،اس وقت تو یہ میرٹ بن چکا ہے کہ حریت کانفرنس آزاد کشمیر میں بڑے رہنما ؤں کو محدود کر دیا گیا ہے اور جس نے زیادہ مال و دولت بنایا ہے وہی قابل ،تحریک کا ہمدرد اور قابل احترام و مقدم قرار پاتا ہے۔’’ کمانڈنگ اتھارٹی‘‘ سے متعلق امور کی اصلاح بھی بنیادی نوعیت کا ایک اہم معاملہ ہے۔حریت تنظیموں اور رہنماؤں سے یہ کہنا ہے کہ کشمیری عوام آپ کے بارے میں شدید اعتراضات رکھتے ہیں، کشمیریوں کی نسل در نسل، بے مثال قربانیوں کا احساس کریں، خود کی اور تحریک کی اصلاح کریں ،ورنہ تنظیموں اور شخصیات کی مفاد پرستی میں کشمیریوں کی مقدس جدوجہد آزادی کو فیصلہ کن نتائج پر مبنی شدیدنقصانات سے دوچار ہونے کے خطرات موجود ہیں ۔اگر حریت رہنما مسئلہ کشمیر سے متعلق حقائق اور مستقبل کے امکانات کا ادراک نہیں رکھ سکتے اور ان کی روشنی میں کشمیریوں کی رہنمائی نہیں کر سکتے تو ان کی رہنمائی اور نمائندگی حریت پسند کشمیریوں کے کسی کام کی نہ ہو گی۔

Athar Massood Wani
About the Author: Athar Massood Wani Read More Articles by Athar Massood Wani: 777 Articles with 699072 views ATHAR MASSOOD WANI ,
S/o KH. ABDUL SAMAD WANI

Journalist, Editor, Columnist,writer,Researcher , Programmer, human/public rights & environmental
.. View More