سیاسی قلابازیاں
(Hidayatullah Akhtar, Gilgit)
ایک محاورہ ہے کہ محبت اورجنگ میں سب
جائزہے۔ اگر اس مقولے کو سیاست کی زبان میں میں لکھا جائے تو ایسا لکھا جا
سکتا ہے کہ سیاست اور انتخابات میں سب جائزہے ۔کچھ ایسا ہی سماں آج کل گلگت
بلتستان کی سیاسی فضامیں دکھائی دے رہا ہے ۔ جو کچھ ہورہاہے وہ سب ان حالات
پرفٹ آتا ہے۔ جگہ جگہ مختلف سیاسی پارٹیوں کے الیکشن کمپین کے دفاتر وجود
میں آئے ہیں اور کچھ مزید دفاتر کھولنے کی منصوبہ بندی کی جارہی ہے۔ فٹ
پاتھ جوعوام کی سہولت کیلئے بنائے گئے ہیں ا ن پر بھی ا ن سیاسی پارٹیوں کے
کارکنان براجمان ہیں اس پہ طرہ یہ کہ اونچی آواز میں ریکارڈنگ جیسے یہ ان
کابنیادی حق ہو اوپر سے ان دفاتر کے سامنے بے ترتیب کھڑی گاڑیاں گلگت شہرکی
تنگ سڑ کوں پرٹریفک کے مسائل میں مزیداضافے کاباعث بن رہی ہیں ۔ ان الیکشن
دفاترکے آس پاس اکثر لڑائی جھگڑے اور تو تو میں میں کی تکرار بھی سننے کو
مل جاتی ہے۔ جب کوئی اس بارے توجہ دلائے تو کہا جاتا ہے چلتا ہے انتخابات
کاموسم ہے ایسی ہوا کا چلنا لازمی ہے . ضرور چلنا چاہیئے جمہوریت ہے اور
جمہوریت تو اسی کا نام ہے لیکن جمہوریت کامطلب یہ تو نہیں کہ نظم وضبط
کوتوڑا جائے اخلاقی اقدارکوپامال کیا جائے ۔اگریہ چیزیں قانون اور اخلاق کے
دائرے میں رہ کر سرانجام پاجائیں تو سونے پہ سہاگہ کے درجہ پا سکتی ہیں
ورنہ لوگوں کے لیے وبال جان بن جاتی ہیں۔عوام کی خدمت کانعرہ لگانے والوں
کو خود ہی غور کر نا چاہیئے کہ وہ ایساکرکے خدمت بجالارہے ہیں یاکچھ
اور۔۔گلگت بلتستان اسمبلی کے آنے والے انتخابات جو اس سال جون میں ہونے جا
رہے ہیں کامیابی کیلئے آزاد اورسیاسی پارٹیوں کے امیدواروں کی دوڑیں لگنی
شروع ہو چکی ہیں۔ ان کی سیاسی سرگرمیوں کی طرف دیکھ کر یہ کہا جاسکتا ہے کہ
اس دوڑ کے ساتھ ان کی نیندیں بھی اڑتی دکھائی دے رہی ہیں۔ لگتا ایسا ہے کہ
سیاسی امیدواروں نے اس دوڑ میں اپنے ساتھ خاص و عام کو بھی امیدوں کے سہارے
جینے اور امیدوں کے پل باندھنے اور ان امیدوں کوپایہ تکمیل تک پہنچانے
کیلئے سیاسی بازی گری کے کرتب اور سیاسی قلا بازیوں کا تماشہ دکھانے کا
تہیہ کررکھاہے اور آئے روز ایسے تماشے دیکھنے کو ملتے ہیں کہ انسان کانوں
میں ہاتھ لگانے پہ مجبور ہوتا ہے۔ دیر تک سونے والے افراد کو جلدی جگانے
اور غریب کسان یا مزدورجوسویرے حسب عادت اپنے کھیتوں یا مزدوری پر پہنچتے
ہیں ان کی دہلیز پریہ سیاسی قلا باز دودھ والے کی طرح علی الصباح دکھائی
دیتے ہیں یہاں تک دیکھا گیا ہے کہ کسانوں کے ساتھ کھیتوں کو پانی یا چارہ
اٹھانے میں بھی مدد گار بن رہے ہیں سیاسی پارٹیوں کے کارکنان کی بات ہی کچھ
اور ہے ابا بیلوں کی طرح چاروں اور پھیل جاتے ہیں اور ووٹروں کی خدمت اور
سیوا کرنے کے علاوہ ان کو شیشے میں اتارنے میں اپنی مہارتوں کو سارا سارا
دن ازماتے رہتے ہیں۔ مزے کی بات تو یہ ہے کہ اتنی مساوات دکھائی دیتی ہے کہ
خاص اور عام کافرق بھی نظرنہیں آرہا اب ان سیاسی بازیگروں کی بانہیں سب کے
لیے برابر پھیلی ہوئی ہوتی ہیں۔ا گرکوئی گلے ملنے میں تھوڑی بھی ہچکچاہٹ کا
مظاہرہ کرے تو ان کے پیار اور جوش میں ایک دم سے چڑھاؤسا آجاتا ہے اور یہ
سیاسی جوش بھلا کہاں رکتا ہے جو ووٹر کو کھینچ کر گلے نہ لگائے۔ ایسا کرنا
اس موسم میں سیاسی قلاباز اپنافرض اولین سمجھتے ہیں ایسے ایسے سیاسی کرتب
دکھانے کے ماہر کہ دیکھنے والے ششدر رہ جاتے ہیں۔ لگتا ایسا ہے کہ اب ان
سیاسی رہنماؤں میں اچھا خاصا بد لاؤ آیا ہے اب یہ صبح سویرے اٹھنے کے عادی
ہو گئے ہیں ، ان کے اخلاق میں تبدیلی آگئی ہے ، پہلے سے اب یہ زیادہ متقی
اور پرہیز گار ہو گئے ہیں۔ بس ایک وہ ہی تو ہیں جن کے دل میں عوام اور
علاقے کا درد ہے باقی سب ہیر پھیر ہیں ۔بات یہاں تک محدود نہیں رہتی ہے۔
انتخابات کا رنگین اور قوس و قزاح کا موسم اپنے اندر بڑی دل کشی کا ساماں
رکھتاہے۔اس رنگین موسم میں ان سیاسی رہبروں کومقدس رشے ناطے کابھی بڑا پاس
ہو تا ہے۔ اگر کسی کو رشتے کا پتہ نہ چلے تو یہ سیاسی لیڈر رشتے کی ایسی
لڑیاں اور تانے با نے ملاتے ہیں کہ بیچارا ووٹر انگلی منہ میں دبا کے رہ
جاتا ہے۔ اگر رشتے کاکہیں سے سراغ نہ ملے تو ا نہیں کوئی پریشانی بھی نہیں
ہوتی ہے۔ وہ اس لیئے کہ رشتہ صرف ماں باپ کا،بھائی بہن کا یا ماماتائے کا
ہی نہیں ہوتاہے بلکہ رشتوں کی کئی اور اقسام بھی ہیں جن کو ہرکوئی سمجھتاہے
بس یہ سیاسی قلا باز موقع محل دیکھ کر اپنا پینترابدل لیتے ہیں اورکوئی نہ
کوئی رشتہ ضرور ایسا تراشتے ہیں کہ عقل دنگ رہ جاتی ہے۔ مذہب،ذات ،برادری
اورقبیلے کے رشتے انتخابی ہوا کے رخ کو تبدیل کرنے کیلئے بڑے موزوں ،موثر
اور تیر بہدف تصور اور مشہور سمجھے جاتے ہیں اس لیئے ان کا استعمال بھی ان
سیاسی بازیگروں کے کرتب میں شامل ہوتے ہیں۔ ان رشتوں کے ہتھیار استعمال
کرنے میں یہ رہنما بڑے ماہر ہیں اور ایسے رشتوں کوکچھ اس انداز میں استعمال
میں لاتے ہیں جیسے نشہ فروخت کرنے والے چوری چھپے غیرقانونی اور حکومت کی
آنکھوں میں دھول جھونک کر نشے کے زہر کو معاشرے میں پھیلا رہے ہوتے ہیں ۔سیاسی
قلا بازیاں ایک ہوں تو بتائیں اس سیاسی میدان میں ایسے ہی کرتب دکھانے
کیلئے کچھ نئے اور پرانے سیاسی قلا باز پھر سے میدا ن میں کو دے ہیں
اورسیاسی گراؤنڈ میں اس وقت ہزاروں نہیں تو سینکڑوں قلا بازیاں جاری ہیں۔
مسجد ہو یا چرچ ، خانقاہ ہو یا جماعت خانہ سب کے سب سیاسی پارٹیوں کے
امیدواروں کیلئے آنکھوں کے تارے بنے ہوئے ہیں بظاہر ان عبادت گاہوں سے
سیاسی سر گر میوں سے اپنی برات کااعلان ہوا ہے لیکن محسوس یہی ہو رہا ہے کہ
فرقہ واریت کا ناسور اپنی جگہ بر قرار اور تازہ ہے کچھ مذہی پارٹیاں خود کو
سیاسی پارٹیاں تصور کرتی ہیں مگر ان کانعرہ ہی مذہب کاہے جیسے ایک نعرہ
سوشل میڈیا میں بڑا مشہور ہے جان بھی حسین کی ووٹ بھی حسین کا ۔ اس وقت
پاکستان کی سبھی سیاسی پارٹیا ں سوائے آزاد کشمیرکے گلگت بلتستان کے
انتخابی میدان میں سیاسی دنگل کیلئے تیار ہیں۔ اس کیلئے کوئی پی آئی اے کی
فلائٹ سے کوئی پبلک ٹرانسپورٹ کے ذریعے ،تو کوئی شندور کے راستے گلگت کے
سیاسی دنگل میں اتر آئے ہیں اورلنگوٹ کس کر گلگت بلتستان کو پاکستان
کاآئینی صوبہ بنانے کامصمم عزم کا اظہارکررہے ہیں ۔ہمدردی اور غمگساری کا
جذبہ بھی ان کے دلوں میں ایسا امڈ آیا ہے یا ایسا چھلک کر باہر آیا ہے کہ
دل داد دیئے بغیر نہیں رہ سکتا ان کی ہمدردی کی ایک جھلک راقم کواس وقت
دیکھنے کوملی جب ایک جگہ جنازے میں شرکت کیلئے پہنچا تو کیا دیکھتا ہوں کہ
جی بی کی بڑی اور چھوٹی سیاسی پارٹیوں کے رہنماؤں کے ساتھ آزاد امیدواروں
کی کثیرتعداد ہم سے پہلے جنازہ گاہ پر اپنے کارکنوں کے جلوس کے کے ہمرہ
موجود تھے اورجب جنازہ اٹھ رہا تھا تو وہ منظر بھی بڑا دیدنی تھا ہر
امیدوار بڑھ بڑھ کر جنازے کوکندھا دینے کیلئے بے تاب نظر آرہا تھا ۔آپ سمجھ
رہے ہونگے شاید یہ کسی بڑے سیاسی شخصیت کا جنازہ تھا یا مرنے والا کوئی بہت
ہی امیر ترین آدمی تھا یہ دونوں باتیں مرنے والے شخصیت کی خصوصیت میں شامل
نہیں تھی مرنے والا توایک متوسط خانداں کابزرگ تھا لیکن بھلاہوانتخابات کے
موسم کا جس نے مرنے والے شخص کو وی آئی پی بنا دیا ۔ دانا را اشارہ کافی
است ۔ سمجھنے والے سمجھ گئے ہیں جو نہ سمجھے وہ انتخابات کے بعد کی صورتحال
یا پانچ سال پہلے کے مناظر کواپنے ذہن میں ضرور جگہ دیں اور اس جائزے کی
روشنی میں اپنے ووٹ کو ضائع ہونے سے بچانے کی حتی المقدور کوشش کریں ورنہ
بیچارے فضلو کی طرح یہ کہتے پھریں گے کہ صاحب یہ پرچی اورووٹ کیا ہوتا ہےَ
۔ اپنے ووٹ کو انتخابات نہ سمجھیں۔سیاسی قلابازوں کی بجائے انتخابات میں
اپنے قیمتی ووٹ کا جائز اور صحیح استعمال کر کے مخلص ، ایماندار اورحرص و
لالچ سے پاک علاقے کی فلاح بہبود کیلئے کام کرنے والے خادموں کاانتخاب کریں-
|
|