کراچی سانحہ....کون پوشیدہ ہے پردہ زنگاری میں؟
(عابد محمود عزام, karachi)
درندہ صفت دہشت گردوں نے کراچی میں بس پر
حملہ کر کے حیوانیت و سفاکیت کی بدترین مثال قائم کی ہے۔ خواتین و بچوں
سمیت 44 افراد کے بہیمانہ قتل نے پاکستانیوں کے اذہان پر گہرے اثرات چھوڑے
ہیں، جن سے چھٹکارہ پانے کے لیے ایک زمانہ درکار ہے۔ قوم کو ذہنی طور پر
خوفزدہ کرنے اور دنیا میں پاکستان کی ساکھ کو نقصان پہنچانے کے لیے دہشت
گردوں نے درندگی کی یہ کارروائی مضبوط منصوبہ بندی کے ساتھ کی ہے، دشمن کو
جس میں کامیابی ملنے سے عالمی سطح پر پاکستان کے بارے میں انتہائی منفی
تاثر پھیلے گا اور دہشت گردی کے خلاف جنگ میں کئی کامیابیاں سمیٹنے کی وجہ
سے عالمی سطح پر پاکستان کی بہتر ہوتی ساکھ پر بھی انتہائی برے اثرات مرتب
ہوں گے۔ معلوم ہوتا ہے کہ اس سانحے سے پاکستان کو اقتصادی طور پر مفلوج
کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ گزشتہ دنوں چین نے پاکستان کے ساتھ اقتصادی معاہدے
کیے ہیں، جن کو پاکستان کی ترقی کے لیے اہم قدم قرار دیا جارہا ہے۔ ان میں
گوادر کاشغر ہائی وے منصوبہ انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔ ماہرین کے مطابق اس
منصوبے سے پاکستان کی ترقی و خوش حالی کے نئے دور کا آغاز ہوجائے گا۔
ماہرین نے اسی تناظر میں اس معاہدے کو گیم چینجر قرار دےا۔ اہم بات یہ ہے
کہ گوادر کاشغر ہائی وے کا روٹ اسماعیلی کیمونٹی کے لیے بھی بہت اہمیت
رکھتا ہے۔ بزنس کمیونٹیوں میں اسماعیلی کمیونٹی اہم درجہ رکھتی ہے، جو کہ
گوادر کاشغر ہائی وے کے روٹ کے دونوں سروں پر موجود ہے اور اس معاشی قوت کے
حامل ہائی وے کو کامیاب بنانے میں اسماعیلی کیمونٹی بنیادی کردار ادا کر
سکتی ہے۔ حملے کی ٹائمنگ کو دیکھتے ہوئے یہ کہا جاسکتا ہے کہ اسماعیلی
کمیونٹی پر کیے جانے والے حملے کا مقصد ملک کی ترقی کے سنگ میل اس منصوبے
کو ناکام بنانا ہے۔ یہ حملہ عین اس وقت کیا گیا جب حکومت نے گوادر کاشغر
ہائی وے پر سیاسی جماعتوں کے اعتراضات کو ختم کرنے کے لیے آل پارٹیز
کانفرنس طلب کی تھی اور حکومت گوادر کاشغر ہائی وے پر سیاسی جماعتوں کو
اعتماد میں لے رہی تھی، کیونکہ سیاسی جماعتوں کے خدشات کے سبب یہ خطرہ پیدا
ہو رہا تھا کہ اس اہم منصوبے کا حال بھی کالا باغ ڈیم جیسے نہ ہوجائے۔ اس
مسئلے کو بات چیت کے ذریعے حل کرنا یقینا ایک مثبت اقدام ہے، لیکن ملک دشمن
عناصر کو پاکستان کے مفاد میں یہ مثبت اقدام کسی صورت قبول نہیں تھا، ابھی
اس کانفرنس کا آغاز بھی نہیں ہوا تھا کہ اس سے کچھ ہی دیر پہلے کراچی میں
دہشت گردی کا واقعہ رونما ہوگیا۔
کراچی میں ہونے والی یہ خون ریزی کسی نئی اور پہلے سے گہری، وسیع اور منظم
عالمی پلاننگ کا پتا دے رہی ہے۔ اگرچہ ایک کالعدم تنظیم نے فوری طور پر
واقعہ کی ذمہ داری قبول کر لی، لیکن درحقیقت ملک میں ہونے والی دہشت گردی
کی ہر کارروائی کے فوری بعد واقعہ کی ذمہ داری قبول کرنے والے ان عناصر کی
ڈوریاں بھی تو انہیں قوتوں کے ہاتھ میں ہےں، جو ہر حال میں پاکستان کو غیر
مستحکم کرنا چاہتی ہیں۔ کراچی میں بس پر ہونے والا حملہ پاکستان کے خلاف
ایک بین الاقوامی سازش ہے۔ وزیر اعظم پاکستان میاں نوازشریف نے بھی اس بات
کا اظہار کیا ہے کہ سانحہ کراچی عالمی سازش ہوسکتی ہے۔ اس بات میں شک کی
کوئی گنجائش نہیں ہے کہ پاکستان کو غیر مستحکم کرنے کے لیے بھارت، امریکا
اور اسرائیل سمیت دیگر پاکستان دشمن قوتیں سرگرم عمل ہیں، لیکن ان میں
سرفہرست بھارت ہے، جو ہمیشہ ہر اس عمل، اقدام اور فیصلے کو سبوتاژ کرنے کی
کوشش کرتا رہا ہے، جس سے پاکستان کی تعمیر، ترقی اور خوش حالی کا کوئی
منصوبہ وابستہ ہو۔ پاک چین اقتصادی راہداری کا منصوبہ بلاشبہ ایک ایسا
منصوبہ ہے، جو اگر پروگرام کے مطابق بروقت پایہ تکمیل کو پہنچ گیا تو اس سے
پاکستان کا اقتصادی نقشہ اور تعمیر و ترقی کا گراف مکمل طور پر بدل سکتا ہے،
لیکن بھارت دیگر پاکستان دشمن قوتوں کے ساتھ مل کر اس منصوبے کو ناکام کرنے
کے لیے کوشاں ہے۔ کراچی میں ہونے والے حملے میں بھی ”را“ ملوث ہے۔ سیکرٹری
خارجہ نے سانحہ صفورا میں ”را“ کے ملوث ہونے کی تصدیق کرتے ہوئے کہا ہے کہ
پاکستان میں دہشت گردی کی کارروائیوں میں ”را“ ملوث ہے، معاملہ کئی بار
بھارت کے سامنے اٹھایا ہے۔ سانحہ صفورا میں ”را“ کے ملوث ہونے کے ثبوت بھی
بھارت کو فراہم کردیے ہیں۔ حساس اداروں نے تین کالیں ٹریس کر کے دو افراد
کو گرفتار کیا ہے، دونوں ”را“ کے سہولت کار ہیں۔ دہشت گردوں نے ”را“ سے
تربیت لینے کا اعتراف بھی کیا ہے۔ چند روز قبل یہ اطلاعات بھی منظر عام پر
آئیں تھیں کہ بھارتی خفیہ ایجنسی ”را“ پاکستان میں چائنا کی انویسمنٹ خصوصاً
گوادر کاشغر ہائی وے کو ناکام بنانے کے لیے خصوصی ڈیسک بھی قائم کرچکی ہے،
جس کو یہ ذمہ داری سونپی گئی ہے کہ پاکستان میں چین کی ہونے والی سرمایہ
کاری کو ناکام بنایا جائے۔ بھارتی خفیہ ایجنسی کے سربراہ بذات خود اس ڈیسک
کی نگرانی کر رہے ہیں اور وہ اس معاملے میں براہ راست وزیراعظم مودی کو
رپورٹ کریں گے، اس کارروائی کے لیے ”را“ کو بھارتی حکومت نے بھاری فنڈ بھی
جاری کیا ہے اور یہ اس کا 1971ءمیں پاکستان کو دولخت کرکے بنگلا دیش بنانے
کے مشن کے بعد سب سے بڑا آپریشن ہوگا۔اس آپریشن کے تحت ”را“ کا بنیادی مشن
جارحانہ انٹیلی جنس معلومات جمع کرنا، نفسیاتی جنگ، تخریب کاری، سبوتاژ کی
کارروائیاں اور اہم شخصیات کو قتل کرنا ہوگا۔کراچی میں بے گناہ لوگوں کا
بہیمانہ قتل بھی اسی پلاننگ کا ایک حصہ ہے، جس کے ذریعے قوم کو نفسیاتی طور
پر خوفزدہ کرنا مقصود ہے۔
بھارتی خفیہ ایجنسی ”را“ کی جانب سے کی جانے والی پاکستان مخالف سرگرمیاں
کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہیں۔ پاکستان دشمن تنظیم ”را “ کا نصب العین ہی
پاکستان کو عدم استحکام سے دوچار کرنا ہے، جس کے لیے ملک کے مختلف شہروں
میں اپنے ایجنٹوں کی مدد سے قتل و گارت گری اور بم، دھماکے کروا کر ہر موڑ
پر پاکستان کو عدم استحکام سے دوچار کرنے کی کوشش کی جاتی ہے، جبکہ اس کی
جانب سے اپنے ایجنٹوں کے ذریعے پاکستان کے سادہ لوح عوام کو مذہبی، سیاسی
اور لسانی عصبیت کی بنا پر آپس میں لڑا کر بھی پاکستان کو عدم استحکام کا
شکار کرنے کی کوشش کی جاتی رہی ہے۔ بلوچستان اور ملک کے دیگر کئی علاقوں سے
”را“ کے ایجنٹس پکڑے جانے کے ساتھ ساتھ بھاری مقدار میں بھارتی اسلحہ بھی
متعدد بار پکڑا جاتا رہا ہے۔ بھارتی ایجنسی ”را“ کو جنرل راحیل شریف وارننگ
بھی دے چکے ہیں۔ 5 مئی کو کور کمانڈرز کانفرنس میں پاکستان کے اندر دہشت
گردی پھیلانے میں بھارت کی بدنام زمانہ خفیہ ایجنسی ”را“ کے ملوث ہونے کا
سخت نوٹس لیا گیا اور آرمی چیف جنرل راحیل شریف کے دورہ افغانستان کے دوران
بھی افغانستان کے راستے پاکستان میں ”را“ کی مداخلت زیر بحث رہی۔ آرمی چیف
ملک سے دہشت گردوں کا صفایا کرنے کے لیے پر عزم ہیں، لیکن دہشت گردوں کے
ناپاک عزائم کو خاک میں ملانے کے لیے پوری قوم کو متحد ہوکر پاک آرمی کے
ساتھ مل کر دہشت گروں کا مقابلہ کرنا ہوگا ۔ |
|