گلگت بلتستان پاکستان کے
زیر انتظام 28ہزار مربع میل پر پھیلا ہواگیارہ اضلاع پر مشتمل علاقہ ہے، جس
کی آبادی سرکاری اعداد وشمار کے مطابق 14لاکھ اورغیر سرکاری اعدادوشمار کے
مطابق 20لاکھ کے قریب ہے ۔ گلگت بلتستان پاکستان کے لیے ہر حوالے سے
انتہائی اہمیت کا حامل ہے ماضی میں خطے کی اہمیت سب سے زیادہ دفاعی تھی
لیکن پاک چین دوستی ، تعلقات میں اضافے ،شاہراہ ریشم (قراقرم )کی تعمیر اور
اب پاک چین کوریڈور منصوبے کے بعدخطہ انتہائی اہمیت کا حامل ہے ۔ اگرچہ
سیاحت کے حوالے سے گلگت بلتستان پاکستان کے زیر انتظام علاقوں میں اپنی
مثال آپ ہے ، تاہم حکومتوں کی عدم توجہی اور گزشتہ 14سالوں میں دہشت گردی
کی لہر نے خطے کوشدیدمتاثر کیاتاہم حکومت توجہ دے تو سیاحت کے شعبے میں اب
بھی کامیابی کے واضح امکانات ہیں۔
توانائی کے شعبے میں بھی گلگت بلتستان کی بہت اہمیت ہے۔ حکومت پاکستان اور
عالمی اداروں کی سروے رپورٹ کے مطابق دریائے سندھ اور گلگت بلتستان کے
مختلف علاقوں میں ہائیڈرو پاورپروجیکٹس کے ذریعے 50ہزار سے زائد میگاواٹ
بجلی پیدا کرنے کی گنجائش ہے اور پاکستان کا زیر تعمیر سب سے بڑاہائیڈرو
پاور پروجکیٹ دیامر بھاشا ڈیم بھی اسی خطے میں واقعے ہے۔
اس لئے گلگت بلتستان میں آنے والی کوئی بھی سیاسی ،سماجی اور مذہبی تبدیلی
یا تحریک کا مجموعی طور پر پاکستان کی سلامتی اورمعیشت پر گہرے اثرات مرتب
ہوتے ہیں، اگرچہ مقامی لوگوں کو حکومت پاکستان کے حوالے سے شدید تحفظات
ضرور ہیں، لیکن لوگ آج بھی اپنا جینا مرنا پاکستان کے ساتھ سمجھتے ہیں۔
گلگت بلتستان بنیادی طور پر چار حصوں میں منقسم ریاست جموں وکشمیر کا اہم
فریق ہے اور اقوام متحدہ میں جس کشمیر کو متنازع قرار دیا گیاہے اس میں
گلگت بلتستان بھی شامل ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستانی حکومت اب تک اس خطے کو
بعض جماعتوں اور طبقات کے شدید مطالبے کے باوجود آئینی طور پر اپنا حصہ
قرار نہیں دے سکی ہے اور اس وقت صوبے کی حیثیت صرف انتظامی یا حکمی (آئینی
نہیں )ہے ۔
گلگت بلتستان میں عوامی و سیاسی اصلاحات اور مسائل کے حل میں سب سے اہم
کردار ذوالفقار علی بھٹو کا رہا ہے ،انہی کی کوشش سے سیاسی اور انتخابی
اصلاحات کا آغاز 1970ء میں ہوا اور پہلی مرتبہ انتہائی محدود اور صرف
مشاورتی اختیارات کے ساتھ 21رکنی مشاورتی کونسل قائم کی گئی جس کے 14ارکان
کا انتخاب بالغ رائے دہی اور 7ارکان کانامزدگی کے ذریعے ہوا ۔ خطے میں پہلا
الیکشن 30دسمبر 1970ء کو 14جنرل نشستوں کیلئے ہوا۔1975ء میں ذوالفقار علی
بھٹو کے دور میں وزیر امور کشمیر و شما لی علاقہ جات سید قائم علی شاہ
(موجودہ وزیر اعلیٰ سندھ )کی نگرانی میں انتخابی اصلاحات کی گئی اورمشاورتی
کونسل کو نادرن ایریاز کونسل کا نام دیاگیا، جبکہ مخصوص نشستوں کا خاتمہ
کرکے دو جنرل نشستوں کا اضافہ کیا گیااور ایوان 16رکنی رہا۔6اکتوبر 1975 ء
کو دوسری بار انتخابات ہوئے ۔11اکتوبر1979ء ، 26اکتوبر 1983ء ،11نومبر
1987ء کو جنرل محمد ضیاء الحق کے دور میں 16ہی نشستوں کے لئے انتخابات ہوئے
مگر اصلاحات پر توجہ نہیں دی گئی،تاہم انتخابات تسلسل کے ساتھ ہوئے ۔
1991ء میں وزیر اعظم نواز شریف نے خطے میں کچھ انتخابی اور اصلاحات کی
بنیاد رکھی،جنرل نشستوں کی تعداد 16سے کم کرکے 14 کرتے ہوئے اور تاریخ میں
پہلی بار خواتین کیلئے 2نشستیں مخصوص کردی گئیں اس طرح مجموعی طور پر ایوان
16رکنی ہی رہااور 3نومبر 1991ء کو انتخابات ہوئے ۔ گلگت بلتستان کے لئے
بہتر انتخابی اصلاحات کا آغازنگراں وزیر اعظم معین قریشی کے دور میں ہو ا
اور بینظیر بھٹو کے دوسرے دور میں اپریل 1994ء میں خطے میں عدالتی، انتظامی
اور انتخابی اصلاحات کا پکیج دیا گیا جس کے تحت وفاقی وزیر امور کشمیر
وشمالی علاقہ جات کو چیف ایگزیکٹو کی حیثیت دی گئی جبکہ کونسل کے منتخب
ارکان سے ایک ڈپٹی چیف اور پانچ مشیروں کو نامزد کیاگیا ۔ جنرل نشستوں کی
تعداد 16سے بڑھا کر 24کردی اور خواتین نشستوں کی تعداد 2ہی رکھی اس طرح
ایوان کی مجموعی تعداد26ہوئی۔اور5اکتوبر1994 ء انتخابات ہوئے۔
1999ء میں سپریم کورٹ آف پاکستان میں دائر پٹیشن کی سماعت کے بعد عدالت نے
خطے کی عوام کو آئینی اور بنیادی حقوق دینے کا حکم دیا جس کے نتیجے میں
مسلم لیگ( ن)کی نواز شریف کی سربراہی میں قائم حکومت نے ایک آئینی و
انتظامی پیکج کا اعلان کیاجس میں مختلف اصلاحات کی گئی اور 5نومبر1999ء کو
انتخابات کا اعلان کیا گیا ،لیکن انتخابات سے تقریباً ایک ماہ قبل ہی نواز
شریف حکومت کا خاتمہ ہوا اور اقتدارجنرل پرویز مشرف قابض ہوئے ۔ مشرف حکومت
نے شیڈول کے مطابق انتخابات کرائے اور ایک نیا پیکج ’’ گلگت بلتستان لیگل
فریم ورک آڈر(ایل ایف او)‘‘جاری کیا جس میں پہلی مرتبہ نادرن ایریاز کونسل
کا نام تبدیل کرکے ناردرن ایریاز قانون ساز کونسل رکھا گیا ۔وزیر امور
کشمیر و شمالی علاقہ جات کو بر بنائے عہدہ قانون ساز کونسل کا چیف
ایگزیکٹیو بنایا گیا ،جبکہ نادرن ایریاز قانون ساز کونسل کے منتخب ڈپٹی چیف
ایگزیکٹو کو گریڈ 18تک کے ملازمین کے تبادلے اور کونسل کومختلف نکات پر
قانون سازی کا محدود اختیاردیاگیا اور پہلی بار اسپیکر کا عہدہ بھی تخلیق
کیاگیا ۔کونسل میں خواتین کی نشستوں کی تعداد 2کی بجائے 5کی گئی،اس طرح کل
ایوان 29رکنی رہا ۔
2004میں ایک مرتبہ پھر جنرل پرویز مشرف کے دور میں اصلاحات کی گئی جنرل
نشستوں کی تعداد 24ہی رکھی گئی تاہم ٹیکنوکریٹ اور خواتین کی 12نشستوں کا
اضافہ کیا گیا جو برابر تقسیم تھیں اورایوان کو 36رکنی بنااورالیکشن
12ستمبر 2004ء کو ہوئے،جبکہ پہلی بار ڈپٹی اسپیکر کا عہدہ بھی تخلیق
کیاگیا۔پیپلزپارٹی کی حکومت نے 9ستمبر 2009ء کو’’ گلگت بلتستان ایمپاور منٹ
اینڈ سلف گورنس آرڈر 2009ء ‘‘جاری کیا جس کے تحت جنرل نشستوں کی تعداد 24ہی
رکھی تاہم ٹیکنو کریٹ کی 3اور خواتین کی 6نشستیں مخصوص کردی گئی اور ایوان
33رکنی بنا۔پہلی مرتبہ خطے کو انتظامی صوبے کا نام دیا گیا اور گورنر، وزیر
اعلیٰ اور وزراء کے عہدے تخلیق کئے گئے اور’’ ناردرن ایریاز قانون ساز
کونسل ‘‘ کو’’ گلگت بلتستان قانون ساز اسمبلی ‘‘کا درجہ دیا گیا، جبکہ آزاد
کشمیر طرز پر 15رکنی گلگت بلتستان قانون ساز کونسل ‘‘بھی بنائی گئی جس کے
6ارکان کے انتخاب کا اختیارگلگت بلتستان قانون ساز اسمبلی کے ارکان کو دیا
گیا اور حکم نامے کے مطابق گورنر اور وزیر اعلیٰ دونوں مقامی ہونگے ۔ گلگت
بلتستان قانون ساز اسمبلی کی 24جنرل نشستوں کے لئے 12نومبر 2009ء کو
انتخابات ۔گلگت بلتستان اایمپاور منٹ اینڈ سلف گورنس آرڈر 2009ء میں دو نوں
ایوانوں کو49نکات پر قانون سازی کے محدود اختیارات بھی دئے گئے ہیں ۔
نواز شریف کی موجودہ حکومت نے اصلاحات تو نہیں کی ہیں تاہم پہلی بار نگراں
حکومت کے تحت 8جون کو 24جنرل نشستوں کے لئے پولنگ کرائی جا رہی ہے اور ایک
درجن سے زائد جماعتیں انتخابی عمل میں شریک ہیں ۔ یہ گلگت بلتستان میں
قانونی ساز اسمبلی کے دوسرے اور مجموعی طور پر گیارہویں انتخابات کے ہیں جن
کے ابتدائی دو مراحل مکمل ہوئے ،مجموعی طور456 امیدوار میدان میں ہیں اور
حقیقی تعداد 17مئی کو حتمی فہرست کے اجراء کے ساتھ سامنے آئے گی اورپولنگ
8جون کو ہوگی،6لاکھ18ہزار سے زائد ووٹرز حق رائے دہی استعمال کریں گے ،تاہم
انتخابی سرگرمیاں عروج کی جانب بڑ رہی ہیں ،مسلم لیگ (ن) اور دیگر کے مابین
مقابلے کا امکان ہے ۔مسلم لیگ (ن) کے حافظ حفیظ الرحمان پارٹی کی کامیابی
کے لئے کوشاں ہیں ۔ |