پا کستان کے سابق صدر ایوب مرحوم
نے کشمیر کے حوالے سے ا پنے گہرے تجربات کے بعد اہل پا کستان اور خاص طو ر
سے اہل سیاست کو یہ کہا تھا کہ ہمیں اب کشمیر پر سیاست بند کردینی
چاہئے‘‘۔بلا شبہ جنرل ایوب خان کا کشمیر کے حوالے سے یہ ایک ایسا تا ریخی
تا ثر ہے جس میں ان کے ماضی کے تجربا ت ۔حال اور مستقبل سے آگا ہی کو بخو
بی دیکھا جا سکتا ہے در اصل ایو ب خان جا نتے تھے کہ پا کستان ایک نومو لو
د ریاست ہے جس کو اپنی بقا اور استحکام کی اشد ضرورت ہے۔ اور دوسر ی طرف ا
نہیں ایک طویل مدت تک عملاً پا کستا ن کی سیا ت سے وا بستہ رہنے کی وجہ سے
اس بات کا بھی علم ہو گیا تھا کہ آگے چل کر کچھ لو گ کشمیر کے نام پر پا
کستان میں اپنا سیا سی قد بڑھا نے کی جدو جہد کر ینگے ۔ اس لئے جنرل ایوب
نے پا کستان کے سیا سی حالات کو بھا نپ کر اپنی قوم کو یہ پیغام دیا ۔کہ’’
پا کستان کو کشمیر پر سیاست بند کر دینی چا ہئے‘‘ لیکن جنرل ایوب خان کی
نصیحت کا کو ئی اثر کبھی پا کستان کی سیا ست پر دکھائی نہیں دیا ۔ کیو نکہ
ساٹھ سا ل گزر جا نے کے بعد بھی پا کستا ن کی سیاست کشمیر کے ارد گرد
گھومتی رہی اور ابھی بھی یہ سلسلہ جا ری وساری ہے۔حال ہی میں پا کستان کے
مذہبی رہنماؤں کی طرف سے کشمیر پر جو غیر سنجیدہ بیان آرہے ہیں ان سے قطعی
طور اتفاق نہیں کیا جا سکتا ہے۔بلکہ ان بیجا بیان بازیوں سے صورت حال
اورخراب ہو تی ہے۔دوسری طرف خود پا کستان ہی میں ان بیان بازیوں پر سوالیہ
نشان لگنے ہیں کچھ ماہ قبل پا کستان کے وزیراعظم میاں نواز شریف نے کشمیر
پر بیان دیا تھا ۔ لیکن وہ بھی تنقیدوں کی زد میں آگئے تھے۔اور پا کستا ن
کے صحا فیوں نے جس جرأت اور بے باکی کے ساتھ نواز شریف کے بیا ن کارد کیا
ہے۔اس سے ایسا لگتا ہے کہ ہندوستا ن کی عوام کی طرح پاکستا نی عوام میں بھی
بیداری کی لہر شروع ہو گئی۔جس کی وجہ سے اب پا کستا ن میں بھی سیا سی
بازیگروں کو بیان دینے سے پہلے خوب سو چنا ہوگا ۔ اس کا کریڈت یقناً پا
کستان کے ان تمام صحافیوں اور دانشوروں کو جا تا ہے جو پا کستان کو مثبت
سوچ دینے اور بچا نے میں مسلسل مصروف عمل ہیں ۔بہر حال یہ ایک خوش آئند پہل
ہے جس کی تعریف ہونی چاہئے۔
پا کستان جن اندرونی مسا ئل سے دوچار ہے ۔ایسی سنگین صورت حال میں وہا ں کے
سیا سی اور مذہبی رہنماؤں کا مسئلہ کشمیر اٹھانا اور اسپر اپنے وقت کا تصرف
سمجھ سے با ہرہے ۔ہما را مشورہے کہ پا کستان کو کشمیر کے بجا ئے ہندوستا ن
سے اس بات پرمدد ما نگے کہ پا کستان میں مو جودہ حساس مسا ئل سے کیسے نکلا
جا ئے ۔ اور کس طرح ۔ سندھ ،پنجاب، وزیر ستان، بلوچستا ن، صوبہ سر حد بلکہ
پورے
پاکستان کو بحرانوں سے بچایا جائے۔شاید دنیا میں رائج اسوقت تمام طرح کے
بحران پا کستان کو لاحق ہوگئے۔ اور یہ تمام بحران ایک نہ ختم ہو نے والی
بیماری کا روپ دھار چکے ہیں ۔ تفصیل کے لئے میں پا کستان کے مشہور کالم
نگار جناب جاوید عالم قریشی کا ایک اقباس پیش کرتا ہوں۔’’پا کستان اور ہم
گزشتہ ۶۳سال سے عجیب کیفیت سے گزر رہے ہیں ایک بحران ختم نہیں ہو پا تا ہے
کہ دوسرا منہ پھاڑ ے کھڑا ہے بلکہ یہ کہنا چاہیے کہ ان بحرا نوں نے زندگی
عذاب بنا رکھی ہے ۔منیر نیا زی نے کہا تھا
اک اور دریا کا سامنا تھا منیر مجھ کو
۔ میں ایک دریا کے پا ر اترا تو میں نے دیکھا۔
بحرا نوں میں سب سے شدید بجلی کی نا ہوت اور لو شیدنگ کا بحران ہے ۔ صنعتیں
بند ہوتی جا تی ہیں مزدور بے روز گار ہو تے جاتے ہیں لو گوں کے چو لہے ٹھنڈ
ے ہو رہے ہیں لیکن حکومت کے کان پر جوں تک نہیں رینگتی ۔مسئلے کو حل کر نے
کی نجا ئے ٹامک ٹوئیاں ما رتے ہوے حکومت نے سر کاری دفاتر میں دو چھٹیاں کر
دیں دوکانداروں کو حکم دیا گیا کہ دکانیں ۸ بجے شام بند کردی جائیں ۔طوعا
ًو کرھاًکا روباری حضرات نے یہ پا بندی بھی قبول کر لی ۔لیکن نتیجہ کیا
نکلا ؟لو شیڈنگ میں مزید اضافہ ۔پریشان حال اور بے روزگار لوگ سڑکو ں پر
نکل آئے زبر دست احتجاج ہوے حکومت ٹس سے مس نہیں ہوئی۔لو گوں کی تکلیف اور
اذیت کو دیکھتے ہو ئے ن لیگ کے قا ئدین نے کہا کہ ۸بجے دکا نیں بند
کروادینا کا ری باری لو گوں کے ساتھ زیادتی ہے ا ور وہ زیادہ دیر اس کی
حمایت نہیں کر سکیں گے ۔حکومت کو کوئی ٹھوس اور پا ئیدار حل تلاش کرنا ہوگا
۔ایک طرف تو بجلی کی عدم فراہمی کا یہ عالم ہے کہ لاہور اور فیصل آباد جیسے
بڑے شہروں میں چودہ چودہ گھنٹہ سولہ سولہ بجلی غائب۔ادھر بجلی کے بل جوں کے
توں بلکہ بعض حالات میں زیادہ۔ کار خانے بند ہونے سے لوگ بے روز گار ہورے
ہے ہیں۔ خود کشیا ں کر رہے ہیں عوام اپنے بچوں کو فروخت کر نے پر مجبور ہیں
لیکن حکو مت کی کو ئی دلچسپی نہیں۔ پا کستان کے مشہور اخبار نوائے وقت کی
ایک تجزیاتی رپورٹ کے مطابق۔
۔ کرپشن اور بدعنونی کی وجہ سے پا کستان میں جمہوریت بد ترین بحران کا شکار
ہو چکی ہے ۔ تجزیاتی رپورٹ کے مطابق پا کستان میں ہر قسم کا نظام حکو مت نا
کام رہا ہے ۔ صدارتی پا رلیمانی آمرانہ نظام حکومت کے ساتھ ساتھ جمہوریت کی
نا کامی کی بھی اصل وجہ کرپشن اور بد عنوانی ہے ۔ تجزیاتی رپورٹ کے مطابق
پا کستان میں ہر شعبہ کے طاقت ور افراد اس ملک کو لوٹ رہے ہیں ایسا میکا
نزم بنا جا چکا ہے کی غریب عوام کا استحصال اشرافیہ کی مجبوری اور ضرورت بن
چکا ہے۔ مہنگا ئی کی وجہ سے اشیا ئے ضروریہ بھی اب غریب آدمی کی دستر س سے
با ہر ہو چکی ہے جس کی وجہ سے پا کستان میں غریب لوگ بد ترین نفسیا تی
الجھنوں کا شکار ہو گئے ۔لا ہور اسلام آباد کراچی جیسے شہروں میں غریب
افراد خود کشیاں کر نے پر مجبور ہیں ۔ سرمایا دار پا کستان میں مکروہ بد
عنوایوں میں ملوث ہیں۔ سر ما ئے کی طاقت کو استعمال کر کے غریب طبقہ کا
استحصال کیا جا رہا ہے سیا سی جماعتوں حکومت بیور کریسی اسٹیبلشمنٹ میں سب
جگہ سرما یا دار جا گیر دار اور جر نیل بیٹھے ہو ئے ہیں۔ جو صرف اپنے طبقے
کی بہتری کے لئے پا لیسی بنا رہے ہیں ۔ غریب طبقے کے مفا دات کو تحفظ دینے
پر کو ئی تو جہ نہیں دے رہے ہیں جس کی وجہ سے غربت اور امارت میں خوفنا ک
حد تک فا صلہ ہو چکا ہے غر بت اور امارت میں اتنے بڑے فرق کی وجہ سے سماجی
معا شرہ تباہ ہو کر رہ گیا ہے‘‘( ص ۸تو صاحب منزل کہ بھٹ کا ہوا راہی)مذکور
ہ صورتحال پرفیض احمد فیض کا یہ شعر
میں نے دیکھا ہے بہاروں میں چمن کو جلتے
۔ ہے کو ئی خواب کی تعبیر بتا نے والا
یہ ہے ان لوگوں کا پا کستان جن کا رات اور دن کا مشغلہ کشمیر اور صرف کشمیر
!یہ کو نسی دا نشمندی۔اور کہا ں کی فراست ہے کہ اپنے گھر کو بچانے کے لا لے
پڑے ہوئے ہیں۔اور دوسروں کے گھر پے چیخ و پکار ۔ اور ہنگا مہ آرائی۔اور
ساتھ اپنے قیمتی ذرائع ا ور اثاثوں کابے جا استعمال ۔عقل سے ماوراء ہے۔ اب
وقت آگیا ہے کہ اہل پا کستان بشمول مفکرین اور دانشوروں کے کشمیر مسئلہ کو
ترک کے اس با ت کی فکر کریں کہ بلوچستان ،پنجاب سندھ وزیر ستان اور صوبہ
سمیت تمام پا کستان کو کیسے بچایا جائے ۔ اور اس کے ساتھ ساتھ پا کستان کے
لوگ اپنے سیا سی قا ئدین کا بھی احتساب کر نے کے لئے آگے آئیں۔کیو نکہ پا
کستان کے قا ئدین نے پا کستان کو لوٹ کھسوٹ کر دیوالیہ بنا دیا ہے۔ ایک
سرکا ری رپورٹ کے مطابق پا کستان کے وزیر اعظم نواز شریف کی دولت ۷ ملین
امریکی ڈالر کے قریب ہے ،اور زرداری بھی ان سے کم نہیں ۔ یہ تو ایک دو کا
حال ہے۔ با قی جو صورت حال ہو گی یا ہے اس کا ہمیں علم نہیں۔اور ہمیں اس کی
ضرورت بھی نہیں ۔ ہا ں! وہ لوگ ضرور جانے جو ہر وقت کشمیر کشمیر کرتے رہتے
ہیں۔ کیو نکہ کہیں ایسا تو نہیں ہے کہ پا کستان کے اہل سیاست اپنے عیبوں کی
طرف سے لوگوں کا رجحان بدلنے کے لئے ۔ کشمیر اور اس طرح کے دوسرے جذ با تی
ایشوز کا سہارا لیتے ہوں۔ بحر حال کچھ بھی ہو کشمیر پرپا کستان کی مداخلت
قطعی درست نہیں کیونکہ اس سے پہلے پا کستان مشرقی پا کستان کے حوالے سے جو
غلطیا ں کر چکا ہے ۔ اس کا داغ ہمیشہ پا کستا ن کی پیشانی پر رہے گا اور تا
ریخ انہیں معا ف نہیں کر یگی ۔
آ ج معاصر دنیا میں پا کستان کی جو صورت حال ہے اس کو دیکھتے ہو ئے ایسا
لگتا ہے ۔ کہ دنیا کے نقشے میں اب بھی اس کا وجو د خطرے میں ہے اس لئے وہاں
کی قیادت کوان سنگین حالات میں اپنے کچھ فیصلوں پر نظر ثا نی کی اشد ضرورت
ہے ۔ خاص طور سے مسئلہ کشمیر پر نظر ثانی اور اپنے پڑوسی ملک ہمدوستان سے
اپنے تجارتی اور معاشی تعلقات کی بحالی ۔اور یہ ا سی صورت میں ممکن ہو سکتا
ہے جب کشمیر پر پا کستان اپنی ضد والی پا لیسی ترک کر دے ۔ یہ ہندوستا ن
اور پا کستان دونوں کے لئے مفید ہوگا ۔شا ید۔،،، اگر ہند و پاک دونو ں
آزادی کے بعد دوستانہ مراسم کے ساتھ ا یک دوسرے کا تعاون کرتے تو ضرور ترقی
کی نئی راہیں کھلتی۔ |