جمہوریت اور دہشت گردی
(Javed Iqbal Cheema, Italia)
انقلاب زمانہ دیکھئے کہ ووہی لوگ
ووہی ادارے جو جمہوریت جمہوریت کی تسبیح دن رات ورد کرتے ہیں .ووہی جمہوریت
کی تباہی و بربادی کے ذمہ دار ہیں .گو کہ جمہوریت ایک اچھا نظام حکومت ہے .جو
اسلام کی روح کے عین مطابق بھی ہے .مگر مسلمان ملکوں کو راس نہیں آتا یا ہم
اپنے اندر لاگو ہی نہیں کرنا چاہتے .نام ہم جمہوریت .انصاف اور قانون اور
احتساب کا لیتے ہیں .مگر ہمارے رویے غیر جمہوری ہیں .کیونکہ قانون سب کے
لئے برابر نہیں ہے .کسی جگہ پر بھی امپلیمنٹشن نہیں ہے .اگر قانون ہے تو
عملداری نہیں ہے .جہاں قانون کی گرفت حکمرانوں کے گریبان تک پںچنے کی کوشش
کرتا ہے .وہاں فیصلے نظریہ ضرورت کے تحت آ جاتے ہیں .جمہوریت کا راگ الاپنے
والے چھوٹے چھوٹے صوبے نہیں بنا سکے .جاگیرداری نظام ختم نہیں کر سکے .پولیس
اور پٹواری کلچر کو ختم نہیں کر سکے .اور تو اور جمہوریت کی روح بلدیاتی
سطح پر اقتدار منتقل نہیں کر سکے .اس میں کوئی شک نہیں کہ جمہوریت کے
ٹھیکیداروں کا لب و لہجہ .رویہ .ڈکٹیٹر اور فرعون سے بھی بڑھ کر ہے .خاص کر
وہ قوتیں وہ سیاستدان جو ڈکٹیٹر کی حکومت میں مزے لے چکے ہیں وہ اس جمہوریت
کے سب سے بڑے دشمن ہیں .کیونکہ حکمران گروپ کے اندر بھی ووہی لوگ ہیں جو ہر
حکومت میں ہوتے ہیں .مگر پھر بھی حکمران چاہے تو انقلابی اقدامات سے اپنی
اہلیت ثابت کر سکتا ہے .مگر وہ جرات .اہلیت .کہاں سے آے.کیونکہ مشورے دینے
والے یا تو مراسی ہیں .یا چمچے ہیں یا قصیدہ خوان ہیں .یا درباری ہیں یا وہ
بھی اقتدار کے بھوکے ہیں چند ٹکوں کی خاطر ایمان بیچنے والے ہیں .تو حکمران
اس خول سے باہر کیسے نکلے .مکڑی کے جال سے راستہ کس طرح بناۓ.بولڈ فیصلے
کیسے کرے .اسلح سے پاک معاشرہ کس طرح کرے .انصاف و احتساب کی جنگ کیسے لڑے
جس سے ملک سے دہشت گردی کا خاتمہ ہو .کس طرح ملک میں امن قایم کرنا ہے .کس
طرح کرپشن .دہشت گردی ختم کرنی ہے .حکمران کو معلوم ہے تو کرتا کیوں نہیں .اگر
نہیں معلوم تو ہم سے پوچھ لے .بغیر فیس کے بتانے کو تیار ہوں .بلکہ میاں
نواز شریف .شہباز شریف کو ہیرو بنانے کو تیار ہوں .ہم خوشامدیوں کی طرح
خادم اعلی نہیں بنایں گے .بلکہ حقیقی معنوں میں پاکستان کی تاریخ میں نام
سنہری حروف میں لکھوانے کی ذمہ داری لیتے ہیں .مگر فیصلے تخت یا تختہ کی
بنیاد پر ہوں گے .اگر ملک میں سبز انقلاب نہ آ جاۓ تو پارلیمنٹ کے سامنے
تختہ دار پر لٹکنے کو تیار ہوں .آزمایش شرط ہے .اگر حکمران میں حوصلہ ہے تو
ہم تیار ہیں .کیونکہ میں ذاتی طور پر سمجھتا ہوں کہ اگر حکمران نے فیصلے
میریٹ پر وقت پر کئے ہوتے .انصاف و احتساب کو تیز کیا ہوتا .اخلاقی قدریں
اپنائی ہوتیں .١٢ مئی کے واقعہ کے کرداروں کو تختہ دار پر لٹکایا ہوتا .بلدیہ
فیکٹری میں آتشزدگی کو منتقی انجام تک پنچایا گیا ہوتا ..اچھے پولیس افسروں
کو کھڈے لائن نہ لگایا ہوتا .کراچی کا گورنر .وزیر اعلی کو تبدیل کر دیا
گیا ہوتا ..رینجر .فوج کو فری ھینڈ دے دیا گیا ہوتا .تو شاید آج ١٣ مئی کو
اسماعیلی بس پر حملہ نہ ہوتا .میں سمجھتا ہوں کہ اس دہشت گردی میں را ملوث
ہے .مگر ان کا ساتھ دینے والے تو میرے ملک کے غدار ہیں .مگر میرا حکمران
سمجھتا ہے اجلاس بلانے سے .مذمت مذمت کرنے سے یا مسلح حل ہو جاۓ گا .نہیں
بلکل ایسا نہیں ہو گا .کوئی یہاں مذمت کر رہا ہے کوئی لندن میں بیٹھ کر مگر
مچھ کے آنسو بھا رہا ہے .کوئی اپنی ذمہداری سمجھ کر مستعفی نہیں ہوا .کسی
کو گھر نہیں بھیجا گیا .چند دن بیانات .مذمت مذمت کی قراردادیں .اور پھر بس
.فایل دفتر داخل .یا ردی کی ٹوکری میں .جہاں حکومتی سطح پر اتنے غدار ہوں .کرپٹ
ہوں .نا احل ہوں .وہاں اکیلی فوج .رینجر .اکیلا جرنیل کیا کرے گا .جنرل
راحیل شریف جتنی محنت کر رہا ہے .کاش حکومتی مشینری بھی اتنی ہی جانفشانی
سے ایمانداری سے فوج کا ساتھ دیتی .تو یہ ہر روز کی ہونے والی ٹارگٹ کلنگ
کبھی نہ ہوتی .جمہوریت کے ٹھیکیدارو ذرا غور تو کرو .ان ٹارگیٹ کللرز کی
کڑھیاں کہاں کہاں ملتی ہیں .کیوں مصلحت پسندی .کیوں منافقت سے کام لیتے ہو
.کیوں کبوتر کی طرح آنکھیں بند کر کے بلی سے بچنا چاہتے ہو . اس بلی .چوہے
کے کھیل سے نکلو..میاں صاحب .شیر بنو .شیر بنو .شیر بنو ... |
|