معاشرہ (society )افراد کے
درمیان direct or indirectسماجی رابطے یا تعلق کا نام ہے قطع نظر اس بات کے
کہ اس رابطے میں منسلک افراد کہاں رہائش پذیر ہیں ۔یہ ایک طرز زندگی اور
طرز عمل کا نام ہے ۔معاشرہ ایک عالم گیر تصور ہے اور یہی فرق societyکو
communityیا گروہ سے ممتاز کر تا ہے۔قائد اعظم کی سر براہی میں برصغیر کے
مسلمانوں نے تقسیم ہند کا مطالبہ کیوں کیا؟کیوں قائد اعظم ایک عرصہ تک
united hindustanکے حامی رہے اور پھر ٓاخر کار انہیں اس بات کا یقین ہو گیا
کہ ایسا ممکن نہیں ہوگا ؟گو مسلمان عرصہ سے ہندووں کے ساتھ رہ رہے تھے لیکن
وہ دو الگ الگ قومیں تھیں جن کی معاشرتی بود و باش ، اقدار، روایات(مذہبی و
سماجی )ایک دوسرے سے مختلف تھیں ۔ وہ دو الگ الگ معاشرت کے تحت جی رہے تھے
اور وہ کبھی ایک نہیں ہو سکتے تھے چاہے وہ اور دس بیس صدیاں بھی اکٹھے رہ
لیتے ۔ لہذا قائد اعظم اور دیگر اکابریں کو اپنی سوچ کا رخ بدل کر تقسیم کا
راستہ اختیار کرنا پڑا۔
ایک معاشرہ میں ایک سے زیادہ گروہ یا communitiesہو سکتی ہیں ۔ اختلاف رائے
بھی معاشرتی زندگی کا حصہ ہوتا ہے اور ایک معاشرے میں مختلف ٓاراء رکھنے
والے گروہ ساتھ ساتھ رہتے ہیں مگر وہ بحیثت مجموعی اس معاشرے کا حصہ ہو تے
ہیں اور اس معاشرے کے اجتماعی مفاد میں ہی سب گروہوں کا مفاد ہوتا ہے ۔ ٓاج
اگر پاکستانی معاشرے کا بحثیت مجموعہ جائزہ لیا جائے تو ایسانظر ٓاتا ہے کہ
وہ چھوٹی چھوٹی ٹکڑیوں میں تقسیم ہو گیا اور ہر ٹکڑی کے لوگ اپنی ٹکڑی کے
فائدے کے لئے کام کر رہے ہیں اور جو کسی ٹکڑی کا حصہ نہیں وہ کسی کونے میں
منہ چھپا کر بیٹھ گئے ہیں اور خاموش تماشی کی طرح سب ٹکڑیوں کی ٓاپسی رسہ
کشی کو دیکھ رہے ہیں اور کبھی کبھی خوش ہو کر داد دیتے ہیں اور تالی بجا
دیتے ہیں ۔ان ٹکڑیوں میں مذہبی، علاقائی، صوبائی ،لسانی، گروہ شامل ہیں اور
ہر کوئی اپنے اپنے مفاد کے لئے کوشش کر رہا ہے مگر کوئی بھی گروہ اپنے مقصد
میں کامیاب نظر نہیں ٓاتا کیونکہ ہر گروہ بھی دراصل ایک منظم گروہ نہیں ہے
اور اس کی وجہ یہ ہے کہ گروہ کے افراد گروہ کے مشترکہ مقصد کے ساتھ یا تو
پوری طرح اتفاق نہیں کرتے یادیانتداری سے اس کے حصول کے لئے کوشش نہیں کرتے
۔ تو پھر سوال پیدا ہو تا ہے کہ جس گروہ کے مقصد سے وہ اتفاق نہیں کرتے تو
وہ اس گروہ میں کیوں ہیں ؟سادہ سا جواب ہے ایک طرح کے جانور وں کی مجبوری
ہوتی ہے کہ وہ اپنے جیسے جانوروں کے گروہ میں رہیں چاہے وہ گروہ کے اجتماعی
مقاصد میں ساتھ دیں یا نہ دیں۔
جب کوئی گھر بکھرتا ہے، کوئی جہاز ڈوبتا ہے ، کوئی ملک ٹوٹتا ہے تو اس کی
وجوہات externalنہیں بلکہ internalہوتی ہیں ۔ گھر بکھرتا ہے جب گھروالوں کی
باہمی رنجش نکتہ عروج کو پہنچ جاتی ہے ، جہاز ڈوبتا ہے جب اس کے پیندے میں
سوراخ ہو جاتے ہیں ، ملک ٹوٹتا ہے جب معاشرہ ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو جاتا ہے ۔
بنگلہ دیش بننے کی primaryوجہ سیاسی حالات یا جنگ نہیں تھی بلکہ وہ ایک
معاشرتی شکست کا نتیجہ تھا۔ مغربی پاکستان میں بسنے والوں نے مشرقی پاکستان
میں بسنے والوں کو سیاسی طور پر تو اپنا لیا لیکن معاشرتی طور پر انہیں
قبول نہ کیا ۔ ہندوستان نے تو صرف اس کمزوری کا فائدہ اٹھایا۔
پاکستان کو ترقی کی منزل کی طرف لیجانے کی ہر ممکن کوشش کی جا رہی ہے پانی،
بجلی، صحت ، تعلیم ، مواصلات ہر شعبہ میں لو گ کام کر رہے ہیں مگر پاکستان
میں اگر کسی شعبہ میں کام نہیں ہو رہا تو وہ ہے معاشرہ society۔ پانی، بجلی
، گیس تو وہ سہولیات ہیں جو معاشرتی زندگی کو پر ٓاسائش بناتی ہیں مگر یہ
سہولیات معاشرہ نہیں بناتی ۔معاشرہ یا معاشرتی بود و باش ایک سوچ اور طرز
عمل کا نام ہے اور پاکستان کے لوگوں کو یہ سوچ اور طرز عمل سکھانے کے لئے
شائد کو ئی کام نہیں ہو رہا ۔ انفرادی طور پر شائد لوگ کام کر رہے ہونگے
لیکن کوئی اجتماعی تحریک نظر نہیں ٓاتی ۔
بچہ کے لئے پہلا مدرسہ اس کا اپنا گھر اور پہلا استاد ماں ہو تی ہے یہاں سے
بچے کی شخصیت سازی کا عمل شروع ہو تا ہے یہیں سے بچے کے اندر مثبت اور منفی
، تعمیری اور تخریبی رجحانات جنم لیتے ہیں اور اگر یہاں پر خرابی پیدا ہو
جائے تو وہ ٓاگے چل کر بچے کی شخصیت کو بہت متاثر کر تی ہے ۔ میں کیا
دیکھتا ہوں کہ بچہ کی تربیت کا یہ پہلا ادارہ بھی اب پہلے کی طرح کام نہیں
کر رہا ۔ پہلے جھوٹ بولنے پر والدین بچے کو سزا دیتے تھے اب modernوالدین
بچے کو جھوٹ بولنے کے لئے کہتے ہیں ۔ "بیٹا/mumy papaکو نہیں بتانا ٓاج ہم
بازار گئے تھے یا فلاں کام کیا تھا" ۔میں یہ نہیں کہتا کہ ایسا کہنے سے
انکی نیت بچے کو جھوٹ سکھانا ہوتی ہے لیکن ان کا یہ unintentionalفعل بچے
کے لئے indirectlyجھوٹ بولنے کی طرف ایک دروازہ کھولتا ہے اور جب جھوٹ کا
دروازہ کھلتا ہے تو پھر صرف جھوٹ اندر داخل نہیں ہو تا بلکہ وہ اپنے ساتھ
اور خرابیاں بھی لاتا ہے ۔ ٓاج سب والدین یہ چاہتے ہیں کہ ان کا بچہ بڑا ہو
کر ڈاکٹر، انجنئیر ، سائنسدان ، وکیل ، فوجی بنے ۔ مگر میں نے بہت کم سنا
یا دیکھا کہ کسی نے یہ خواہش کی ہو کہ اس کا بچہ بڑا ہو کر معاشرے کا ایک
مثبت اور تعمیری حصہ بنے۔ کسی پیشہ یا ہنر میں قابلیت اور مہارت اور
معاشرتی اقدار میں فضیلیت دو الگ الگ چیزیں ہیں۔
اجتماعی فائدے کے کاموں میں سب سے بڑی رکاوٹ اختلاف ہو تی ہے ۔ اگر ایک شخص
کی قربانی سے سو لوگوں کی جان بچ سکتی ہے تو ایک شخص کی قربانی دینا گھاٹے
کا سودا نہیں ۔ اگر کالا باغ ڈیم بننے سے پورے ملک کو فائدہ ہو سکتا ہے اور
مان لیا جائے کہ کسی شہر کو نقصان ہو سکتا ہے تو بھی گھاٹے کا سودا نہیں۔
لیکن اختلاف ۔۔اجتماعی فائدے کے کاموں میں اختلاف یہ ثابت کر تا ہے کہ ہم
معاشرتی طور پر ایک نہیں ۔ اوپر سے لیکر نیچے تک گروہ بندی اور تقسیم ہماری
سب سے بڑی کمزوری ہے اور دشمن اس کمزروری سے بڑی اچھی طرح واقف ہے ۔جب ہم
کسی تھیوری کا critical analysisکر تے ہیں تو ہم دیکھتے ہیں کہ اس میں
loopholesکیا ہیں تو ہم ان کو highlightکرتے ہیں ۔ جب ہم کسی شخص کی شخصیت
کا جائرہ لیتے ہیں تو ہم دیکھتے ہیں کہ اس کے strongاور weakپوائنٹس کیا
ہیں۔جب ہم کسی societyکا تجزیہ کرتے ہیں تو ہم اس کی معاشرت ، رہن سہن ،
بود و باش ، رسوم و رواج ، پیشہ و ہنر وغیرہ کا جائزہ لیتے ہیں جس سے اس
معاشرہ کی خوبیوں اور خامیوں کا پتہ چلتا ہے اور جب کسی معاشرے کی خوبیوں
اور خامیوں کا پتہ چل جاتا ہے تو پھر اس معاشرے کو شکست دینا بڑا ٓاسان ہو
جاتا ہے ۔ ہمارے دشمن ہماری معاشرتی کمزوریوں سے واقف ہیں اسی لیئے ہمارے
معاشرے کو شکست ہو رہی ہے ۔ اختلافات تو ہمارے اندر پہلے سے موجود ہیں دشمن
تو بس صرف ان کو ہوا دے رہا ہے ۔ اپنی تباہی کا باقی کام تو ہم خود کر رہے
ہیں۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ ایک greater pakistani societyکے قیام کے لئے کام
شروع کیا جائے اور پاکستانیت کو فروغ دیا جائے ۔ایک ایسی societyجس کا
مشترکہ مقصد ایک ہو اور اس مقصد کے حصول کے لئے مشترکہ جدو جہد کی جائے۔
مفاد عامہ کے کاموں میں ذاتی مفاد اور اختلافات کو پس پشت ڈال کر دل سے حصہ
لیا جائے ۔(سوسائٹی کے قیام سے مراد یہ نہیں کہ پاکستانیوں کی کوئی جماعت
بنا لی جائے ۔ جماعتیں تو پہلے ہی بہت ہیں۔معاشرہ ایک سوچ ایک طرز زندگی
اور عمل کا نام ہے لہذا ایسی سوچ اور طرز عمل اپنایا جائے جو پاکستان اور
پاکستانیوں خواہ وہ کہیں بھی رہائش پزیر ہیں کے اجتماعی مفادمیں ہو)۔
پاکستان کے خلاف ہرزہ سرائی کرنے والوں کو دلیل کے ساتھ غلط ثابت کیا جائے
اور اپنے عمل سے یہ ثابت کیا جائے کہ ہم صرف اور صرف پاکستانی ہیں اسی سے
ہم اقوام عالم میں اپنا اور اپنے ملک کا نام روشن کر سکتے ہیں اور اگر ہم
ایسا کرنے میں ناکام رہے تو پھر دشمن تو ہماری کمزوریوں سے واقف ہے اور جب
تک یہ کمزوریاں ہمارے اندر ہیں وہ فائدہ اٹھاتا رہے گا۔ Rawیا CIAیا کسی
اور خفیہ ایجنسی کو الزام دینا بے سود ہے کیونکہ جو ہماری نظر میں غلط ہے
اور ہمارے قومی مفاد کے خلاف ہے وہ ان کی نظر میں سہی ہے کیونکہ وہ ان کے
قومی مفاد میں ہے ۔ ہم کسی کو اس کے قومی مفاد میں کام کرنے سے نہیں روک
سکتے اورنہ روکنا چاہیے ہمارا کام یہ ہے کہ ہم اپنے قومی مفاد میں کام کریں
اور اپنے اجتماعی مفاد کے لئے ایک جان ہو کر کوشش کریں اسی طرح ہم کامیاب
اور وہ ناکام ہو سکتے ہیں۔ |