کسی شخص، جماعت یا چیز کے بارے
میں عمومی طور پر جو تاثر پایا جاتا ہے، کئی بار معاملہ اس کے بالکل الٹ
ہوتا ہے۔ مثلاً لوگوں میں مشہور ہوتا ہے کہ فلاں شخص پرلے درجے کا کنجوس
مکھی چوس ہے، مگر تجربے سے پتا چلتا ہے کہ یہ شخص تو اچھا خاصا سخی ہے۔
سندھ میں شکارپور اور خیبرپختونخوا میں بونیر کے لوگوں پر بے وقوف ہونے کی
پھبتی کسی جاتی ہے، حالانکہ سندھ کی بیوروکریسی میں شکارپوری چھائے ہوئے
ہیں، یہی معاملہ بونیریوں کا ہے۔ لیکن چونکہ عوام میں ایک بات چل پڑی ہے،
اس لیے ان اچھے بھلے لوگوں کا منفی تاثر قائم ہوگیا ہے۔ شہر میں کئی مقامات
کی بریانی، پائے، دہی بڑے اور چاٹ وغیرہ کا بڑا نام ہوتا ہے اور یہ چیزیں
مہنگے داموں دھڑادھڑ بک رہی ہوتی ہیں، حالانکہ ان کے قریب ہی ان سے سو گنا
اچھی اور کم قیمت پر یہی چیزیں مل رہی ہوتی ہیں، مگر ہم ان کو چھوڑکر مہنگی
اور ناقص چیز خریدنے کو ترجیح دیتے ہیں۔ یہ سارا چکر محض تاثر کا ہوتا ہے۔
منفی تاثر اچھی چیز کو گھٹیا اور مثبت تاثر راکھ کو بھی سونا بنادیتا ہے۔
تاثر کا یہ چکر ہماری سیاست میں بھی کارفرماہے، بلکہ ساری سیاست ’’امیج‘‘
کے ہی اردگرد گھومتی ہے۔ مذہبی طبقہ عموماً پیپلزپارٹی کو مذہب بیزار اور
مسلم لیگ کو مذہب دوست جماعت سمجھتا ہے، حالانکہ تجربات سے بالکل الٹ صورت
حال سامنے آتی ہے۔ مثلاً قیام پاکستان کے بعد قادیانیوں کی آئینی حیثیت کا
تعین کرنے کا معاملہ اہم ایشو کے طور پر سامنے آیا، اس حساس معاملے پر بڑی
عوامی تحریکیں چلیں، مسلم لیگ جب بھی حکومت میں آئی، اس نے ان تحریکوں کو
کچلنے کی پوری پوری کوشش کی، اس نے ختم نبوت زندہ باد کے نعرے لگانے والوں
کے سینوں میں گولیاں اتاریں اور ان سے جیلوں کو بھردیا۔ یہ امر ریکارڈ کا
حصہ ہے کہ ملکی تاریخ کے پہلے انتخابات میں 11قادیانیوں نے بطور مسلمان حصہ
لیا تھا اور ان سب کو ٹکٹ مسلم لیگ نے دیے تھے۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ
قادیانی مسئلے کو مسلم لیگ حل کرتی، مگر اس نے کھل کر قادیانیوں کا ساتھ
دیا، جبکہ پیپلزپارٹی جسے سیکولر اور مذہب بیزار جماعت کہا جاتا ہے، نے
عوامی جذبات کے عین مطابق اس مسئلے کو آئینی طور پر حل کیا۔ 1973ء کے آئین
کو اسلامی آئین کہا جاتا ہے، قوم کو یہ تحفہ بھی مسلم لیگ نہیں پیپلزپارٹی
نے دیا تھا۔ قادیانیوں کا ذکر چل رہا ہے تو یہ بتانا بھی مناسب ہوگا کہ
ملکی تاریخ میں دو سیاسی راہنماؤں نے کھل کر اور میڈیا کے سامنے قادیانیوں
کو اپنا بھائی کہا ہے، ان میں سے ایک الطاف حسین ہیں اور دوسرے میاں
نوازشریف ہیں۔
ایک عام مسلمان کو بھی معلوم ہے کہ اﷲ نے سود کو حرام قرار دیا ہے ،مگر
ہمارے ملک کا مالیاتی نظام ابھی تک اس نحوست سے آزاد نہیں ہوسکا ہے۔ شریعت
کورٹ نے سود کے خلاف تاریخی فیصلہ دیتے ہوئے حکومت کو پابندکیا تھا کہ وہ
جلدازجلد سودی لین دین ختم کردے۔پھر اس فیصلے کے خلاف کوئی اور نہیں بلکہ
میاں نوازشریف اعلیٰ عدلیہ کے پاس پہنچ گئے اور اور سود سے جان چھڑانے کے
فیصلے کو چیلنج کردیا، کئی برس گزرنے کے باوجود میاں صاحب کی یہ درخواست
ابھی تک زیرسماعت ہے، گویا ملک میں اس وقت جو سودی نظام چل رہا ہے، اسے
تحفظ نوازشریف نے دیا۔ ہفتہ وار چھٹی کے معاملہ کو دیکھ لیں، یہ بات تو
ٹھیک ہے کہ اسلام میں ہفتہ وار چھٹی کے لیے کوئی خاص دن مخصوص نہیں ہے،
لیکن دنیابھر میں ہر ملک اپنی مذہبی اور ثقافتی روایات کے مطابق چھٹی کے دن
کا تعین کرتا ہے۔ عیسائی ملک میں اتوار کے دن کو خاص اہمیت ہے، اس لیے وہ
اس دن چھٹی کرتے ہیں۔ یہودی یوم سبت یعنی ہفتے کو مقدس دن سمجھتے ہیں،
اسرائیل اور اس کے زیراثر ممالک میں اس روز عام تعطیل ہوتی ہے۔مسلم دنیا
میں جمعہ کے دن کو اہم مقام حاصل ہے، اس لیے ہفتہ وار چھٹی کے لیے اس دن کو
مناسب سمجھا جاتا ہے۔ پیپلز پارٹی کے سربراہ اور وزیراعظم ذوالفقاربھٹو نے
مذہبی طبقے کے مطالبے پر جمعے کو ہفتہ وار تعطیل کا اعلان کیا تھا، جس پر
نوازشریف کی حکومت آنے تک عمل ہوتا رہا، میاں نوازشریف نے حکومت بناتے ہی
جمعے کی چھٹی ختم کرکے دوبارہ اتوار کی چھٹی کردی۔
آئین کے مطابق پاکستان کی پارلیمنٹ کسی صورت قرآن وسنت کے خلاف قانون سازی
نہیں کرسکتی۔لیکن ملکی تاریخ میں ایک بار ایسا موقع آیا ہے جب پارلیمنٹ نے
کھل کر قرآن وسنت کے خلاف قانون منظور کیا۔ حقوق نسواں سے متعلق بل جسے
تمام مکاتب فکر کے علماء نے دوٹوک انداز میں قرآن وسنت کے منافی قرار دیا
تھا، نہ صرف پارلیمنٹ میں پیش کیا گیا بلکہ بھاری اکثریت سے منظور بھی
کرالیا گیا۔ ملک وقوم کو یہ سیاہ ترین دن کسی سیکولر پارٹی کی حکومت نہیں،
بلکہ مسلم لیگ کی حکومت میں دیکھنا پڑا تھا۔ موجودہ مسلم لیگی دور حکومت
میں پارلیمنٹ نے 21 ویں ترمیم منظور کی ہے، اس ترمیم میں واضح طور پر دہشت
گردی کو مذہبی طبقے سے جوڑا گیا ہے، ن لیگ کو پارلیمنٹ میں دو تہائی اکثریت
حاصل ہے، اگر وہ چاہتی تو مناسب کانٹ چھانٹ کے بعد ترمیم منظور کراسکتی
تھی،مگر اس نے جان بوجھ کر مذہبی طبقات کے خلاف قرارداد منظور کرائی۔ اس
ترمیم کے ذریعے آئینی طور پر دہشت گردی کی تعریف کا تعین ہوچکا ہے جس میں
مذہبی طبقے کو مجرم بناکر کھڑا کردیا گیا ہے۔ مسلم لیگ کا مذہبی طبقے پر اس
سے بڑا ظلم اور کیا ہوسکتا ہے!!
قومی ایکشن پلان پر پورے ملک میں عملدرآمد ہورہا ہے، مگر جس طرح پنجاب کی ن
لیگی حکومت علماء اور مدارس کے پیچھے پڑی ہوئی ہے، ایسا کسی اور صوبے میں
دیکھنے کو نہیں ملتا۔ خیبرپختونخوا میں تحریک انصاف کی حکومت ہے، پی ٹی آئی
کو بھی پیپلزپارٹی کی طرح مذہب بیزار جماعت کہا جاتا ہے، مگر اس صوبے میں
ایکشن پلان کے نام پر علماء اور مدارس کو تنگ نہیں کیا جارہا۔ سندھ میں
پیپلزپارٹی برسراقتدار ہے، اس نے مدارس کی رجسٹریشن کے معاملے پر کچھ سختی
دکھائی لیکن عمومی طور پر علماء کو پریشان نہیں کیا گیا، یہی معاملہ
بلوچستان کی قوم پرست حکومت کا ہے ،لیکن پنجاب کی ن لیگی حکومت نے مذہبی
طبقے کا جینا دوبھر کردیا ہے۔ درجنوں علماء کرام کے نام فورتھ شیڈول میں
ڈال دیے گئے ہیں، علماء اور بدمعاشوں کو ایک صف میں کھڑا کردیا گیا ہے۔
لاؤڈاسپیکر ایکٹ کی آڑ میں مقدمات کی بھرمار ہے۔ بڑی تعداد میں مذہبی
جماعتوں کے کارکنان کو جیلوں میں ٹھونس دیا گیا ہے۔ اس وقت عملاً پنجاب میں
ن لیگی حکومت مذہبی طبقے کے خلاف کریک ڈاؤن جاری رکھے ہوئے ہے۔
مسلم لیگ کے ا دوار حکومت میں مذہب اور اہل مذہب کے ساتھ جو زیادتیاں کی
گئیں، اس کی داستان بہت طویل ہے۔ اس کالم میں محض چند اشاروں پر اکتفا کیا
گیا ہے، لیکن تماشا یہ ہے کہ اس کے باوجود مسلم لیگ ’’دین دوست اور علماء
دوست‘‘ جماعت کے تاثر کو انجوائے کررہی ہے۔ ہر دور کی مسلم لیگ نے مذہبی
طبقات کو نیچا دکھانے کی کوشش کی ہے، ن لیگ بھی اس معاملے میں کسی سے کم
نہیں ہے۔ دراصل میاں برادران سیاسی طور پر اپنے لیے سب سے بڑا خطرہ مذہبی
طبقے کو ہی سمجھتے ہیں، پیپلزپارٹی اور پی ٹی آئی جیسی جماعتوں کو تو یہ
لوگ سیکولر وغیرہ قرار دے کر نمٹ لیتے ہیں۔ ن لیگ چاہتی ہے کہ دائیں بازو
کا ووٹ سارا کا سارا اسے ملے، چونکہ مذہبی جماعتیں بھی اسی ووٹ پر انحصار
کرتی ہیں، اس لیے ن لیگ مذہبی جماعتوں کے خلاف پرلے درجے کا بغض رکھتی ہے۔
پرویزرشید کے بیان کو اسی تناظر میں دیکھنا چاہیے۔ پرویزرشید نے
شعائراسلام، علماء اور مدارس سے متعلق انتہائی قابل اعتراض تقریر ذاتی
حیثیت میں نہیں کی، بلکہ وہ حکومتی ترجمان کے طو رپر تقریب میں مدعو تھے۔
ایک ہفتے سے بھی زاید گزرنے کے باوجود حکومت کی جانب سے معاملے کا نوٹس نہ
لینا اس بات کا ثبوت ہے کہ پرویزرشید کا بیان ن لیگ کی پالیسی کے عین مطابق
تھا۔
|