بلدیاتی انتخابات میں عوام کی دلچسپی
(Roshan Khattak, Peshawar)
تل دھرنے کی جگہ نہ
تھی،بازار کیا تھا، ایک تنگ سی گلی تھی۔جہاں اکیلے گزرنا محال تھا وہاں
انسانی گروہ کے گروہ متحرک نظر آرہے تھے موٹر سائیکل سوار اپنے موٹر
سائیکلوں پر سوار ہو کر گزرنے پر بضد تھے، عجیب سی چہل پہل تھی کسی کے چہرے
پر مسکراہٹ تو کسی کے چہرے پر سنجیدگی اور پریشانی کے آثار نمایاں تھے، یہ
جگہ تھی پشاور کا جھنگی محلہ، جہاں بلدیاتی انتخابات میں حصہ لینے والے
امیدوار اپنے دوستوں اور سفارشیوں کے ہمراہ انتخابی مہم کے لئے کارڈز،
پوسٹرز اور فلیکسز چھاپنے آئے تھے۔ یہ منظر نامہ جہاں میرے لئے خوشی کا
باعث بن رہا تھا وہاں کچھ تشویش بھی لاحق ہو رہی تھی ۔اچانک آبائی گاوٗں
جانا پڑ گیا تو وہاں بلدیاتی الیکشن کے حوالے سے سر گر میاں دیکھ کر دل ایک
دفعہ پھر خو شی و تشویش دونوں احساسات سے معمور ہوا، اور کالم ہذا کے تحریر
کا باعث بنا۔
خوشی اس لئے ہو رہی ہے کہ بلدیاتی الیکشن میں عوام کا بھرپور حصہ لینا قومی
ترقی کے لئے ایک نیا شگون ہے۔دراصل کسی بھی جمہوری نظام میں بلدیاتی اداروں
کی بے پناہ اہمیت ہو تی ہے ۔وطنِ عزیز میں پہلی مر تبہ فیلد مارشل محمد
ایوب خان نے 1059میں بلدیاتی نظام متعارف کروایا،1969میں ان کی حکومت کے
خاتمے کے ساتھ بلدیاتی نظام بھی ختم کر دیا گیا۔دوسری بار جنرل ضیا الحق نے
اپنے دورِ حکومت میں لوکل گورنمنٹ سسٹم رائج کیا اور یہ پڑھ کر آپ کو
حیرانگی ہو گی کہ تیسری مرتبہ بھی بلدیاتی نظام ایک فوجی حکمران جنرل پر
ویز مشرف نے 2001میں قائم کیا ۔ہمارے سیاسی حکمران جو جمہوریت جمہوریت کہتے
کہتے نہیں تھکتے، ہمیشہ بلدیاتی نظام سے پہلو بچاتے رہے حالانکہ ملک کے بہت
سے مسائل بلدیاتی انتخابات سے ہی ختم ہو سکتے ہیں۔ جب ہر ضلع تحصیل اور
گاوٗن میں عوام کو شراکتِ اقتدار کا احساس ہو تو اکثر مسائل خود بخود حل ہو
سکتے ہیں ۔عوام کے چھوٹے چھوٹے مسائل مقامی سطح پر ہی حل ہو جاتے ہیں -
یہی وجہ ہے کہ خیبر پختونخوا میں بلدیاتی الیکشن کے لئے جوش و خرو ش میرے
لئے باعثِ مسرت ہوا۔خیبر پختونخوا میں 30مئی کو ہونے والے انتخابات کے لئے
93 ہزار سے زائد امیدوار میدان میں آگئے ہیں۔ صوبائی الیکشن کمیشن کے مطابق
خیبر پختونخوا میں بلدیاتی انتخابات میں حصہ لینے کے لئے ایک لاکھ 3ہزار
522 امیدواروں نے کا غذات جمع کرائے جن میں سے 93ہزار سے زائد امیدوارون کے
کاغذات منظور کئے گئے ہیں ۔42ہزار سے زائد امیدوار صرف ویلیج کونسل کے لئے
میدان میں اتر آئے ہیں۔جو اس بات کا ثبوت ہے کہ پاکستانی عوام شرکتِ اقتدار
میں شدید خواہش رکھتی ہے اور اپنے مسائل مقامی سطح پر حل کرنے کی آرزومند
ہے۔
بلدیاتی انتخابات کا ایک اور بڑا فا ئدہ یہ بھی ہے کہ مقامی سطح پر جمہوریت
کے لئے نرسری تیار ہو تی ہے جو بعد ازاں تناور درخت بننے کی صلاحیّت حاصل
کر لیتی ہے۔ مگر بلدیاتی انتخابات کا ایک اور رخ بھی ہے جو تشویش کا باعث
ہے اور وہ یہ کہ اس انتخابات میں حصہ لینے والے عموماٌ ایک ہی محلے، ایک ہی
گاوٗں یا ایک ہی علاقے سے تعلق رکھتے ہیں اور ان کے ووٹرز جو ہو تے ہیں وہ
بھی عموما کثیرالجہتی تعلق دار ہو تے ہیں ، جس کی وجہ سے عزیزوں، رشتہ
داروں اور ایک ہی گاوٗں اور علاقے سے تعلق رکھنے والوں کے در میان ناچاقی
پیدا ہو نے کا قوی امکان ہو تا ہے۔
پختون معا شرے میں تحملّ اور بر داشت کی چونکہ کمی پائی جاتی ہے اس لئے
لڑائی جھگڑے ، ہاتھا پائی اور آپس میں مستقبل کے تعلقات کے خراب ہو نے کا
بھی شدید اندیشہ پایا جا تا ہے۔ بناء بر ایں بلدیاتی انتخابات نے بیک وقت
ہمیں خوشی اور تشویش کے احساسات سے دو چار کر دیا ہے۔ اندریں حالات صوبائی
حکومت سے گزارش ہے کہ الیکشن کے دن سیکیوریٹی کے فول پروف انتظامات کئے
جائیں اور ہر پو لنگ سٹیشن پر ایسا پرامن ماحول مہیا کیا جائے، جس میں
لڑائی جھگڑے یا فساد کی نو بت نہ آئے اور انتخابات میں حصہ لینے والوں اور
عوام سے یہ التماس ہے کہ وہ تحمل اور برداشت سے کالم لیتے ہوئے کامرانی یا
ناکامی دونوں صورتوں میں اپنے جذبات پر قابو رکھیں تاکہ آنے والے بلدیاتی
انتخابات حقیقی معنوں میں صوبہ خیبر پختونخوا کے لئے ثمر آور ثابے ہو سکیں۔۔۔۔۔۔۔ |
|