مردِ آہن گداز قائد اعظم محمد
علی جناح نے جب پاکستان کا پیش کیا تو اس پر انتہائی ثبات و استحکام سے
کھڑے رہے ، پاکستان کا مطالبہ اسلام کے نام پرکیاگیا تھا کہ اس سے مقصود ہی
ایک ایسی مملکت کا حصول تھا جس میں اسلام کو ایک زندہ نظام حیات کی حیثیت
سے متمکن کیا جاسکے ، پاکستان کے مطالبہ کا ریزولیشن مارچ ۱۹۴۰ء میں پاس
ہوا اور شروع اپریل ۱۹۴۰ء میں مہماتما گاندھی نے اس کی طرف کچھ یوں اشارہ
کرکے کہا کہ"میں پوری جرات اور جسارت کے ساتھ اس بات کا اعلان کرتا ہوں کہ
مسٹر جناح اور انکے ہم خیال حضرات اپنی اس روش سے اسلام کی کوئی خدمت سر
انجام نہیں دے رہے بلکہ وہ اس پیغام کی غلط ترجمانی کر رہے ہیں جو لفظ
اسلام کے اندر پوشیدہ ہے ، مجھے یہ کہنے کی ضرورت اس لئے پیش آئی کہ آجکل
مسلم لیگ کی طرف سے جو کچھ ہو رہا ہے اس سے میرے دل کو سخت ٹھیس لگ رہی ہے
، میں اپنے فرائض کی سر انجام دہی میں کو تاہی کروں گا اگر میں ہندوستان کے
مسلمانوں کو اس دروغ بافی سے متنبہ نہ کردوں جس کاا س نازک وقت میں ان میں
پراپیگنڈا کیا جارہا ہے ۔ (ہندوستان ٹائمز مورخہ ۷؍ اپریل ۱۹۴۰ ء)۔
گاندھی جی نے جب یہ ’فتوی ‘ دیا تو ان کی ہم نوائی میں ابو الاعلٰے مودودی
صاحب کیونکر پیچھے رہتے ، انھوں نے بھی گاندھی صاحب کی تائید کرتے ہوئے کہا
کہ"لیگ کے قائد اعظم سے لیکر چھوٹے مقتدیوں تک ایک بھی ایسا نہیں جو اسلامی
ذہینیت اور اسلامی فکر رکھتا ہو اور معاملات کو اسلامی نقطہ نظر سے پرکھتا
ہو۔ (ترجمان القرآن ، ذی الحجہ ۱۳۵۹ھ صہ ۳۳)۔ ہندوستان ٹائمز نے اپنی ۱۴
نومبر ۱۹۳۹ء کی اشاعت میں لکھا تھا کہ" حکومت خداوندی کا تصور ایک داستان
ِ پارینہ ہے اور یہ مسلمانوں کا فعل ِ عبث ہوگا اگر وہ ہندوستان جیسے ملک
میں اس کے احیا کی کوشش کریں یا اس امر کا خیال کریں کہ اس مقصد کیلئے ملک
کو دو حصوں میں تقسیم کردیا جائے ۔ یہ علامت بڑی خوش آئند ہے کہ مسلمانوں
کے ذمہ دار راہنما اس سراب کے پیچھے نہیں لگنا چاہتے۔" ہندوستان ٹائمز کا
فرما ن جاری ہوا ہی تھا کہ ادھر سے مودودی ساحب نے مہر اثبات لگاتے ہوئے
اپنا فتوی جاری کردیا کہ "جو لوگ یہ گمان کرتے ہیں کہ اگر مسلم اکثریت کے
علاقے ہندو اکثریت کے تسلط سے آزاد ہوجائیں ، تو اس طرح حکومت الہی قائم
ہوجائے گی ، ان کا گمان غلط ہے ، اس کے نتیجے میں کو کچھ حاصل ہوگا ، وہ
مسلمانوں کی کافرانہ حکومت ہوگی۔ ( ترجمان القرآن محرم ۱۳۶۰ھ صہ۲۹).۔یہاں
پاکستان کے نظریہ و قیام کے مخالف کانگریس اور جماعت اسلامی ہی نہیں تھی
بلکہ نیشنلسٹ مسلمان بھی کسی سے پیچھے نہیں تھے ۔ سندھ کے خان بہادر الہٰ
بخش نے پاکستان کی تجویز سے متعلق کہا "یہ اسکیم آزادہ ہند کے راستے میں
روڑے اٹکاتی ہے۔"عبدالرحمن سرحدی نے فرمایا "یہ ہندوستان میں برطانوی تسلط
قائم رکھنے کا ذریعہ ہے "مولانا حفیظ الرحمن سیوہاری نے کہا تھا کہ"یہ
برطانوی حکومت قائم رکھے گی"احراری لیڈر مولانا حیبیب الرحمن لدھیانوی نے
فرمایا کہ"یہ اسکیم ملک کے مفاد کیلئے بالعموم اور مسلمانوں کے مفاد کیلئے
بالخصوص نقصان رساں ہے۔اگر کبھی اسلامتان وجود میں آیا تو احرار کے ہاتھوں
آئے گا۔"
تحریک پاکستان کی بنیادیں جہاں مضبوط کیں جارہی تھیں تو مخالفین کے ساتھ
منافقین کی بڑی تعداد بھی پاکستان کی مخالفت میں کمربستہ اور پرجوش نظر
آئے۔سر سکندر حیات پنجاب میں جب وزیر اعظم تھے اسلامیہ کالج کے طلبا کو یہ
تاکید کر رہے تھے کہ"زندگی میں تمہارا نصب العین کچھ ہی ہو لیکن یاد رکھو ،
تم کسی ایسی اسکیم کی تائید نہ کرنا جس کا منشا ء ہندوستان کو تقسیم کرکے
مسلمانوں کے لئے الگ خطہ منتخب کرنا ہو ، یہ اسلام کے بنیادی اصولوں کے
خلاف ہوگا ، "ان کے دست راست سر چھوٹو رام نے کہا کہ"سر سکندر کسی خالص
اسلامی حکومت میں وزیر اعظم تو ایک طرف ، کوئی ذمے داری کا عہدہ لینے کیلئے
تیار نہیں ہونگے ، پنجاب میں صرف پنجابیوں کی حکومت ہوگی۔"دوسری مولوی فضل
الحق صاحب بھی بولے کہ ہم سے پوچھا جاتا ہے کہ تم نے جناح کی مدد کیوں نہیں
کی ، ہمارا جواب یہ ہے کہ ہم نے کبھی ایسے شخص کو لیڈر نہیں مانا جو غیر
بنگالی ہو۔"
جناح ، اپنوں اور بیگانوں کی بھانت بھانت کی بولیوں کو سنتے اور دل کے سکون
اور اطمینان کے ساتھ مخصوص تبسم کے ساتھ یہ فرماتے ہیں ۔
رہے ہیں اور ہیں فرعون میرے گھات میں اب تک
مجھے کیا غم کہ میری آستیں میں ہے یدِ بیضا
چنانچہ ان تمام اعتراضات اور ہفوات کے جواب میں ، انہوں نے یکم مارچ ۱۹۴۱ء
کو ، مسلم اسٹوڈنٹس فیڈریشن کے لاہور کے سیشن میں اپنے خطبہ صدرات میں
فرمایا۔"لاہور کے پلیٹ فارم ہی سے مسلم لیگ نے پاکستان کا مطالبہ پیش کیا
اور آج میں اسی پلیٹ فارم سے اعلان کردینا چاہتا ہوں کہ پاکستان ایک ایسی
منزل ہے جس تک پہنچنے سے مسلمانوں کو کوئی طاقت روک نہیں سکتی ، ہندوستان
کے براعظم میں پاکستان کے علاوہ اور کوئی دستور کامیاب نہیں ہوسکتا ،
پاکستان بن کر رہے گا ، میں تو یہ کہوں گا کہ یہ بن چکا ہے"۔اور یہ مردِ
آہن کی استقامت کا ہی نتیجہ تھا کہ بالآخر مخالفین بھی کہنے پر مجبور ہوگئے
کہ مسٹر این سی دَت ( جو آل انڈیا کانگریس کمیٹی کے رکن تھے انہوں نے فرورہ
۱۹۴۰ ء میں اپنی ایک کھلی چھٹی میں جو اخبار مدینہ بجنور کی یکم فروری کی
اشاعت میں شائع ہوئی تھی ، لکھا کہ"ان حالات میں ، میرا خیال ہے کہ ہندو
مسلم قضیہ کا حل یہی ہوگا کہ ہندوستان میں ہندو اور مسلمانوں کو دو قومیں
سمجھ لیا جائے اور پھر دو قوموں کی حیثیت سے ان کے متعلق ایک متحدہ قومیت
کا خیال ہمیشہ ہمیشہ کیلئے دل سے نکال دیا جائے۔ مسٹر جناح نے حال ہی میں
گاندحی کو جواب دیتے ہوئے متحدہ قومیت کے تصور کو سراب کے لفظ سیتعبیر کرکے
اس خیال کا اظہار کیا ہے وہ ، میرے خیال میں اب نہیں، تو کل حقیقت بن کر
رہے گا۔ بہرحال ، اگر یہ چیز جلد طے ہوجائے تو کچھ بُرا نہیں، اگر ہندوستان
کے ہندو اور مسلمانوں میں بحیثیت فرقہ کے نہیں بلکہ بحیثیت دو قوموں کے
سمجھوتہ ہوجائے"
پاکستان کی تاریخ بڑی تلخ حقائق سے بھری پڑی ہے ہمارا قلم کند ہوجاتے ہیں
جب ہم یہ دیکھتے ہیں قیام پاکستان کی مخالفت کرنے جب نئی نسل کے سامنے دروغ
پر مبنی وہ تاریخ رکھتے ہیں جس سے یہ ظاہر کرنے کی کوشش کی جاتی ہے کہ جیسے
پاکستان کا حصول صرف ان کی مرہنوں منت وجود میں آیا ، سر سکندر اور مولویٰ
فضل الحق ، جیسی شخصیات بعد میں پاکستان کے اقتدار پر بھی براجمان رہی ،
لیکن ان کی بنیادی سوچ نے پاکستان کی ساتھ کیا سلوک کیا ، یہ کسی سے پوشیدہ
نہیں ہے۔آج کا پاکستان بین الااقوامی تنازعات و ریشہ دیوانیوں میں اس لئے
الجھا ہوا ہے کیونکہ ایسا ظاہر کیا جاتا ہے کہ نام تو مسلمانوں کا ہے لیکن
حکومت ، کافرانہ ہے ۔ہمیں پاکستان کی نظریاتی اساس کو سمجھنا چاہیے کہ
پاکستان کی نظریاتی اساس جمہوری ، آمرانہ یا سکیولر نہیں بلکہ سو فیصد
اسلامی اور دو قومی نظریئے کے مطابق تھی۔ |