پاکستان کا ”معاشی حب“ کراچی ایک عرصے سے مختلف قسم کے
مسائل سے دوچار ہے، جن میں بدامنی و دہشت گردی کا دیو ہیکل آسیب سب سے بڑا
اور خطرناک مسئلہ ہے۔ ملک دشمن غیر ملکی ایجنسیوں کے کارندوں کی جانب سے
سیاست و مذہب کے نام پر کی جانے والی دہشت گردی نے شہر قائد کا سکون غارت
کر دیا ہے۔ وزیراعلیٰ سندھ قائم علی شاہ کی کپتانی میں کراچی میں شروع ہونے
والا ٹارگٹڈ آپریشن دوسرے سال کی دہلیز کو چھونے والا ہے، لیکن تاحال امن
کو ترستا ہوا ملک کا سب سے بڑا شہر دہشت گردی کی لپیٹ میں ہے اور آئے روز
دہشت گردی کی کوئی بڑی کارروائی ملک کے باسیوں کے دل و دماغ پر گہرے اثرات
چھوڑ جاتی ہے، لیکن سیاست کی بھول بھلیوں میں گم حکمران ابھی تک گم ہی ہیں۔
بعض حلقے روز اول سے کراچی میں ہونے والی دہشت گردی کے پیچھے بیرونی ہاتھ
کی دہائی دے رہے ہیں، لیکن ذمے داران ”میں نا مانوں“ کی رٹ لگاتے تھکتے ہی
نہیں تھے۔ گزشتہ کچھ عرصے سے ملک کی عسکری قیادت نے اس معاملے پر ہاتھ ڈال
کر ملک میں ہونے والی دہشت گردی کے پس پردہ عناصر کو ڈھونڈ نکالا اور
بھارتی خفیہ ایجنسی ”را“ سمیت دیگر غیر ملکی ایجنسیوں کو خبردار بھی کیا،
بلکہ ملک کے مختلف علاقوں سے 140 ایسے افراد کو گرفتار بھی کیا، جو دشمن
خفیہ ایجنسیوں کی معاونت کر رہے تھے۔
گزشتہ دنوں کراچی میں اسماعیلی برادری کی بس پر حملہ کر کے دہشت گردوں نے
45 افراد کو قتل کر دیا، جو دہشت گردوں کی ایک بڑی کامیابی تھی، جس کے بعد
انویسٹی گیشن کی گئی تو کراچی میں ہونے والے دہشت گردی کی اس بڑی کارروائی
کے تانے بانے بھارتی خفیہ تنظیم ”را“ سے مل رہے تھے، اگرچہ دہشتگردوں نے
جاتے ہوئے جائے وقوعہ پر ایک کالعدم تنظیم کے پمفلٹ بھی پھینکے، تاکہ تفتیش
کا رخ موڑا جاسکے، لیکن اس کے باوجود ”را“ خود چھپا نہ سکی اور کراچی میں
ہونے والی دہشت گردی میں اب وہ لوگ بھی ”را“ کے ملوث ہونے کا برملا اظہار
کر رہے ہیں، جو پہلے اس بات کو ماننے کے لیے تیار ہی نہ ہوتے تھے۔ وزیر
اعلیٰ سندھ قائم علی شاہ اور سابق وزیر داخلہ عبدالرحمن ملک کے علاوہ وفاقی
اور صوبائی حکومتیں بھی کراچی میں ہونے والی دہشت گردی کے سلسلے میں بھارت
پر الزام عاید کر چکی ہیں۔ کراچی میںسانحہ صفورا کے بعد سے ملک کی اعلیٰ
قیادت دہشت گردی کے خاتمے کے معاملے میں سنجیدہ اور پرعزم دکھائی دے رہی
ہے۔ اس حوالے سے عسکری قیادت کی جانب سے تو سخت اقدامات کیے ہی جارہے ہیں،
اب حکومت بھی اہم فیصلے کر رہی ہے۔ وزیر اعظم میاں نواز شریف نے آیندہ ہفتے
اس حوالے سے ایک اجلاس بلانے کا فیصلہ کیا، جس میں سویلین اور فوجی خفیہ
اداروں کے سربراہان کے علاوہ اعلیٰ فوجی اور سویلین حکام بھی شرکت کریں گے۔
وزیر اعظم کی صدارت میں ہونے والے اجلاس میں سانحہ صفورا کے محرکات، ملکی
کی مجموعی سیکورٹی صورتحال اور بھارتی خفیہ ادارے ”را“ کے ملوث ہونے سے
متعلق ثبوتوں کا جائزہ لیا جائے گا۔ گزشتہ روز وفاقی وزیر داخلہ چودھری
نثار علی خان نے بھی کراچی کا دورہ اسی مقصد کے لیے کیا تاکہ کراچی میں
دہشت گردی پر قابو پانے کے حوالے سے مزید اقدامات کیے جاسکیں۔ وزیر داخلہ
نے سانحہ صفورا پر اظہار افسوس کرتے ہوئے کہا کہ واقعہ میں ملوث بعض افراد
کی گرفتاریاں ہوئی ہیں، ان سے مثبت معلومات ملی ہیں۔ واقعہ میں جو ہاتھ بھی
ملوث ہوگا، انشاءاللہ اس تک ضرور پہنچیں گے۔ ان کا کہنا تھا کہ جون 2014سے
اب تک 10ہزار سے زاید انٹیلی جنس آپریشنز کیے جاچکے ہیں، جن میں 36 ہزار
گرفتاریاں ہوئی ہیں۔ یہ طویل جنگ ہے، انشاءاللہ یہ جنگ ہم ہی جیتیں گے۔
ذرایع کے مطابق کراچی میں بڑے آپریشن کی تیاری کی جارہی ہیں۔ کراچی میں
مبینہ دہشت گرد سرگرمیوں، ان کی فنڈنگ اور رابطوں کی بعض تفصیلات ملنے کے
بعد نئے ”روڈ میپ“ کے تحت آپریشن کو سندھ کے دیگر علاقوں تک پھیلایا جائے
گا، جبکہ اس کا تیسرا مرحلہ زیادہ اہم اور سخت ترین ہوگا، کیونکہ وہ صوبائی
و مقامی سرکاری محکموں کے بدعنوان افسران، ان کے رابطوں کے خلاف ہوسکتا ہے
اور بعض اعلیٰ سیاست دانوں، بیوروکریٹس اور انتہائی بدعنوان محکمے نشانہ بن
سکتے ہیں۔ آپریشن کے فیز ٹو کو انٹیلی جنس رپورٹس کی روشنی میں شروع کرنے
کی اجازت کے لیے آرمی چیف کے سامنے پیش کیا گیا تھا۔ حتمی مرحلے کے فال آﺅٹ
سے متعلق کچھ خدشات ہیں، ”بڑی مچھلیوں“ کے پکڑے جانے پر سیاسی تحفظات رکاوٹ
بن سکتے ہیں۔ مبصرین کا کہنا ہے کہ کراچی میں امن اسی صورت میں قائم ہوسکتا
ہے، جب بدامنی میں ملوث عناصر کو بے نقاب کر کے”بڑی مچھلیوں“ کو پکڑا جائے،
بصورت دیگر شہر میں امن قائم ہونا مشکل ہے۔
ذرایع کے مطابق ملک کو عدم استحکام کی جانب دھکیلنے میں غیر ملکی ایجنسیوں
کا بڑا کردار ہے۔ ملک کو درپیش کاوئنٹر انٹیلی جنس کا چیلنج بہت بڑا ہے اور
ملکی ادارے مل کر ہی اس چیلنج سے نمٹ سکتے ہیں۔ گزشتہ ایک دھائی میں
افغانستان کی صورتحال نے پاکستان کو غیر ملکی انٹیلی جنس ایجنسیوں کا
اکھاڑا بنا دیا ہے۔ چیلنج کی نوعیت کا اندازا اس بات سے لگایا جا سکتا ہے
کہ امریکی سی آئی اے، بھارتی را، برطانوی ایم آئی سکس کے علاوہ اسرائیل،
ایران اور بعض عرب ملکوں کی ایجنسیاں بھی یہاں معاندانہ کارروائیوں میں
مصروف ہیں۔ آئی ایس آئی اور آئی بی کو متضاد مفادات کے لیے کام کرنے والی
ان ایجنسیوں کے خلاف کام کرنا پڑ رہا ہے، جن کی زبان، ثقافت اور مقامی
ایجنٹ الگ الگ ہیں۔ چیلنج کی ایک مشکل نوعیت یہ بھی ہے کہ بھارت کے لیے کام
کرنا غداری کے زمرے میں سمجھا جاتا ہے، لیکن امریکا سمیت مغربی ملکوں اور
برادر مسلمان ملکوں کے مفادات کے لیے کام کرنے کو معیوب نہیں سمجھا جاتا۔
پاکستان میں جس سطح کی بیرونی مداخلت ہو رہی ہے، اس جیسی کوئی اور مثال
نہیں دی جا سکتی۔
واضح رہے کہ پاکستان میں بہت سی ملک دشمن ایجنسیاں اپنا کام کر رہی ہیں،
لیکن ان میں سر فہرست بھارتی خفیہ ایجنسی ”را“ ہے۔ پاکستان کے اندرونی
معاملات میں بھارتی خفیہ ایجنسی ”را“ کے ملوث ہونے میں کسی کو کوئی شبہ
نہیں ہے۔ پاکستان کو دو ٹکڑے کرنے سے لے کر کالاباغ ڈیم کی مخالفت، فرقہ
وارانہ لڑائی اور بلوچستان میں علیحدگی پسندوں کے علاوہ کراچی میں بدامنی
پھیلانے والوں کی سرپرستی بھی یہی تنظیم کر رہی ہے اور اب تک پکڑے جانے اور
مارے جانے والے سینکڑوں دہشت گردوں کے تانے بانے ”را“ سے ہی جڑے نظر آتے
ہیں۔ ملک کا اہم ترین شہر ہونے کے باعث کراچی کے حالات پورے ملک پر
اثرانداز ہوتے ہیں، اس لیے کراچی دہشت گردوں کا اولین نشانہ بنا ہوا ہے۔
کراچی میں بس پر دہشتگردی کے نتیجے میں مرنے والے 45افراد کے قتل میں بھی
”را“ کے ملوث ہونے کے ثبوت ملے ہیں۔ گزشتہ روز وزیر اعلیٰ سندھ قائم علی
شاہ نے بھارت کی خفیہ ایجنسی را کو کراچی میں بس پر دہشت گردوں کے منظم
حملے کا ذمہ دار ٹھراتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستان کی سیکورٹی ایجنسیوں کو
اسماعیلی برادری کے قتل عام میں ”را“ کے ملوث ہونے کے ثبوت مل گئے ہیں۔
انٹیلی جنس ایجنسیاں ثبوت کے بغیر بات نہیں کرتیں۔ وزیردفاع خواجہ آصف نے
کہا ہے کہ ملک میں دہشت گردی کے خلاف جنگ جاری ہے، لیکن بھارت پاکستان میں
تخریب کاروں کی حمایت کر رہا ہے۔ پاکستان کا دشمن ایک ہے، لیکن اس کے چہرے
دو ہیں، جن میں ایک ملک کے اندر اور دوسرا سرحد پار ہے اور دونوں کے درمیان
وطن عزیز کے خلاف سمجھوتہ ہے۔ کراچی، شکار پور، پشاور اور واہگہ بارڈر
واقعات دہشت گردوں اور بھارتی خفیہ ایجنسیوں کے سمجھوتے کا نتیجہ ہیں۔ فوج
ملک کے اندورنی اور بیرونی دشمنوں سے بیک وقت لڑ رہی ہے، جس میں مسلح افواج
ضرور کامیاب ہوگی اور دہشت گردی کے خلاف جاری جنگ میں جیت کے سوا کوئی
دوسرا آپشن موجود نہیں۔
دوسری جانب سابق وزیر داخلہ عبدالرحمن ملک نے ملک میں جاری دہشت گردی کی
کارروائیوں میں بھارتی خفیہ ایجنسی ”را“ کو ملوث قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ
سانحہ کراچی بھی ایک سوچی سمجھی سازش تھی۔ ”را“ پاکستان کے قیام سے ہی اس
کے خلاف سازشوں میں مصروف رہی ہے، جو بلوچستان میں بھی حالات کو خراب کر
رہی ہے۔ انہوں نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ وہ ”را“ کے خلاف شواہد کو منظر
عام پر لا کر اس معاملے کو نا صرف بھارتی حکام بلکہ اقوام متحدہ میں بھی اس
معاملے کو اٹھائے اور ان شواہد سے متعلق پارلیمنٹ کو بھی اعتماد میں لے۔
مبصرین کے مطابق وطن عزیز میں فرقہ ورانہ، لسانی فسادات اور قتل وغارت گری
میں بھارت کے ملوث ہونے کے ثبوت کئی بار منظر عام پر آچکے ہیں۔ پاک چائنہ
اکنامک کوریڈور منصوبے کے اعلان کے بعد بھارت نے پاکستان میں دہشت گردی کا
نیا بازار گرم کر دیا ہے۔ اس منصوبے کو ناکام بنانے کے لیے بھارتی خفیہ
ایجنسی ”را“ نے خصوصی سیل قائم کیا ہے۔ بھارت سمجھتا ہے کہ یہ منصوبہ مکمل
ہو گیا تو پاکستان جنوبی ایشیا کا ایک مضبوط ملک بن جائے گا۔ بھارت پاکستان
کو ترقی کی راہ پر گامزن نہیں دیکھنا چاہتا۔ اس لیے وہ پاکستان کو عدم
استحکام سے دوچار کرنے کے لیے ملک میں دہشت گردی پروان چڑھا رہا ہے۔ اب
وزیراعظم، آرمی چیف، دفاعی اداروں اور دفترخارجہ کی طرف سے پاکستان میں
دہشت گرد ی کے سرپرست کو بے نقاب کرنا اور یکسو ہوکر دہشت گردی کی بیخ کنی
کے لیے جدو جہد کرنا خوش آئند ہے۔ ذرایع کے مطابق دشمن خفیہ ایجنسیوں کی
کارروائیوں کو روکنے کے لیے انٹیلی جنس آپریٹنگ سسٹم کو بہتر بنانے اور
معاملے کو عالمی سطح پر اٹھانے پر غور کیا جا رہا ہے۔ غیرملکی اداروں کے
ناپسندیدہ آپریشنز کو روکنے کے لیے قانون کا سہارا لینے پر بھی غور ہو رہا
ہے۔ ان دنوں وزیراعظم نواز شریف اپنے سینئر وزرا سے مشاورت کر رہے ہیں کہ
کیسے دوست ملکوں سے رابطہ کر کے معاملہ سلامتی کونسل سمیت عالمی فورمز پر
اٹھا جائے، جبکہ دفتر خارجہ کو ہدایت کر دی گئی ہے کہ پاکستان میں مداخلت
کرنے والے ممالک پر سفارتی دباؤ ڈالنے کے لیے دوست ممالک سے رابطے کیے
جائیں۔ مبصرین کا کہنا ہے کہ ملک اب حالت جنگ میں ہے، دشمن ممالک کی
ایجنسیوں نے ملک کو عدم استحکام کی جانب دھکیلنے کا تہیہ کیا ہوا ہے، جس کا
مقابلہ پوری قوم کو متحد ہوکر کرنا ہوگا اور دہشت گردی کے خاتمے کے لیے سخت
اقدامات کرنے ہوں گے۔
|