مقبوضہ کشمیر میں ہندو انتہا پسندوں نے 16مئی کو سری
نگرکے لال چوک میں ترنگا لہرانے کا اعلان کر رکھا تھا تاہم کشمیری مسلمانوں
میں زبردست بیداری کی لہر اور طاقت و قوت کے ذریعہ اس عمل کو روکنے کیلئے
سری نگر چلو کال دینے پر ہندو انتہاپسندوں نے تویہاں آنے کی جرأت نہیں کی
لیکن کشمیریوں نے ایک بار پھر جگہ جگہ پاکستانی پرچم لہراکر بھارت سرکار کے
غاصبانہ قبضہ کے خلاف سخت نفرت کا اظہار کیا جس پر ہندو انتہا پسندوں اور
بھارتی میڈیا میں ایک بار پھر سراسیمگی پھیل گئی ہے۔ دختران ملت کی خواتین
نے بھارتی فورسز کے شدید کریک ڈاؤن کے باوجود سڑکوں پر کھڑے ہو کر پاکستانی
پرچم لہرائے اور کشمیر بنے گا پاکستان کے نعرے بلند کئے گئے۔ کشمیر میں بی
جے پی کے پی ڈی پی کے ساتھ براہ راست اقتدار میں شریک ہونے کے باوجود ہندو
انتہاپسندوں کو ترنگا لہرانے میں ناکامی پراسے کشمیریوں کی جدوجہد آزادی کی
فتح قرار دیا جارہا ہے۔
بھارت میں جب سے ہندو انتہاپسند تنظیم بی جے پی اور نریندر مودی برسراقتدار
آئے ہیں نہ صرف ہندوستان میں مسلم کش فسادات میں اضافہ ہواہے اور تعلیم
یافتہ نوجوانوں کی بلاجواز گرفتاریاں کر کے جیلوں میں ٹھونس کر ان کا
مستقبل برباد کیاجارہا ہے‘ مقبوضہ کشمیر میں بھی نہتے کشمیریوں کی نسل کشی
میں تیزی آئی ہے۔پی ڈی پی اور بی جے پی کی مشترکہ حکومت بننے کے بعد آٹھ
لاکھ بھارتی فوج نے ظلم و تشدد کا ایک نیا سلسلہ شروع کر رکھا ہے۔فرضی
جھڑپوں کے ڈرامے رچائے جارہے ہیں۔جگہ جگہ چھاپوں اور تلاشی مہم کے ذریعہ
کشمیریوں کو جینا دوبھر کر دیا گیا ہے۔ حریت قیادت گھروں میں نظربند ہے
اوربڑی تعداد میں سرگرم حریت پسند کشمیریوں کو گرفتار کر کے قیدوبند کی
صعوبتیں برداشت کرنے پر مجبور کر دیا گیا ہے لیکن اس کے باوجود تحریک آزادی
کشمیر میں مزید تیزی آئی ہے اور شہر شہر ہزاروں کی تعداد میں کشمیری سڑکوں
پر نکل کر بھارت سرکار کے غاصبانہ قبضہ کے خلاف احتجاج کرتے دکھائی دیتے
ہیں۔ پچھلے دنوں مسلم لیگ مقبوضہ کشمیر کے چیئرمین مسرت عالم بٹ جیل سے رہا
ہو کر باہر آئے تو پورے کشمیر میں عوام کے اندر جذبہ آزادی کی ایک نئی لہر
دوڑ گئی۔ بزرگ کشمیری رہنما سید علی گیلانی نئی دہلی سے علاج معالجہ کے بعد
واپس کشمیر آئے تو مسرت عالم بٹ کی سربراہی میں ان کے استقبال کیلئے ایک
تاریخی ریلی کا انعقاد کیا گیا جس میں ایک اندازے کے مطابق پچاس سے ساٹھ
ہزار کے قریب کشمیریوں نے شرکت کی ۔ اس ریلی کی منفرد بات یہ تھی کہ
سینکڑوں شرکاء نے ہاتھوں میں پاکستانی پرچم اٹھا رکھے تھے اور تیرا میرا
کیا ارمان کشمیر بنے گا پاکستان‘ہمیں کیا چاہیے آزادی اور حافظ سعید کا کیا
پیغام‘ کشمیر بنے گا پاکستان ‘کے فلک شگاف نعرے لگائے جاتے رہے۔ ماضی میں
بھی کشمیریوں کے جلسوں و ریلیوں میں پاکستانی پرچم لہرائے جاتے رہے ہیں
تاہم ہزاروں کے مجمع میں ایک دو پرچم نظر آتے تھے لیکن اس مرتبہ تو بزرگ
کشمیری رہنما کے اعزاز میں نکالے گئے جلوس میں ہر طرف سبز ہلالی پرچموں کی
ایک بہار نظرآتی تھی۔ کشمیریوں کی اس ریلی کو پوری دنیا میں نشر کیا گیا۔
بھارتی میڈیا نے تو خاص طور پر طوفان بدتمیزی برپا کر دیا اورپاکستانی پرچم
لہرانے اور حافظ سعید کے حق میں نعرے بازی پر ہندوستانی سیاستدانوں نے فی
الفور مسرت عالم بٹ پر بغاوت کا مقدمہ درج کرنے کا مطالبہ کر دیا۔ہندو
انتہاپسندوں کے سینوں پر سانپ لوٹ رہے تھے کہ پہلے دختران ملت کی سربراہ
سیدہ آسیہ اندرابی نے سینکڑوں خواتین کو اکٹھا کر پاکستانی قومی ترانہ پڑھا
اور پاکستانی پرچم لہرایا اور اب مسرت عالم بٹ نے ان سے بھی بڑھ کر کام کر
دکھا یا ہے۔ شاید یہی وجہ تھی کہ ہندو انتہاپسندوں نے بھی بی جے پی کو
ریاست میں شریک اقتدار دیکھ کر بھارتی فورسز کے تعاون سے مقبوضہ کشمیر کے
گرمائی دارالحکومت سری نگر میں ترنگا لہرانے کا اعلان کر دیا اورسوشل میڈیا
کے ذریعہ اس کی تشہیر شروع کرتے ہوئے بلندوبانگ دعوے کئے گئے۔ انتہاپسند
سمجھتے تھے کہ انہیں آٹھ لاکھ فوج اور ریاستی حکومت کی پشت پناہی حاصل ہے
اس لئے وہ ایسا کرنے میں ضرورکامیاب ہوجائیں گے مگر وہ مظلوم کشمیری قوم جو
ڈیڑھ لاکھ سے زائد شہداء کی وارث ہے‘ اس قبیح حرکت کو ٹھنڈے پیٹوں کیسے
برداشت کر سکتی ہے ؟ ہندوؤں کا یہ اعلان سامنے آتے ہی حریت کانفرنس (گ)، جے
کے ایل ایف، حریت (ع)، دختران ملت، مسلم لیگ اوردیگر کشمیری حریت پسند
جماعتوں نے بزور بازو انہیں روکنے کی بات کی تو کشمیری طلباء، وکلاء، تاجر
اور دیگر شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے لوگ بھی میدان عمل میں آگئے۔
جموں کشمیر چھوڑ دو تحریک کی طرح اس بار بھی کشمیری نوجوانوں نے سوشل
میڈیاکا بھرپور استعمال کیا اور پورے کشمیر میں ترنگا لہرانے کی کوششوں کے
خلاف زبردست تحریک کھڑی کر دی۔یہ صورتحال دیکھ کر نئی دہلی میں ایک اعلیٰ
سطحی اجلاس طلب کیا گیا اور بھارتی سکیورٹی حکام نے واضح طور پر متنبہ کیا
کہ اول تو سری نگر کے تاریخی لال چوک میں بھارتی ترنگالہرانا ممکن نہیں ہے
اور اگرزبردستی ایسا کرنے کی کوشش کی گئی تو اس کے خطرناک نتائج برآمد ہوں
گے جس پر ہندو انتہا پسندوں کی جانب سے ’’یوتھ فار نیشن‘‘ نامی تنظیم کو اس
عمل سے روکنے کا فیصلہ کیاگیا۔ مذکورہ تنظیم کے اہلکاروں نے جموں سے سری
نگر کیلئے جلوس کی شکل میں روانہ ہونا تھا۔ بی جے پی جیسی تنظیم کی جانب سے
دعوے کئے جارہے تھے کہ انہوں نے مقبوضہ کشمیر میں رجسٹریشن مہم شروع کر
رکھی ہے اور اس سلسلہ میں اب تک دولاکھ سے زائد افراد کو وہ اپنا ممبر بنا
چکی ہے لیکن پورا زور لگانے کے باوجود وہ سری نگر جانے کیلئے کوئی قابل قدر
تعداد اکٹھی نہیں ہو سکی اور جو تھوڑے بہت انتہاپسند اکٹھے ہوئے‘ جموں کی
کٹھ پتلی حکومت نے ان کی عزت بچانے کیلئے یوتھ فار نیشن نامی تنظیم کے صدر
نرم جیت سنگھ سمیت متعدد اہلکاروں کو حراست میں لے لیااور ظاہر کرنے کی
کوشش کی گئی کہ ریاستی انتظامیہ اگر انہیں زبردستی نہ روکتی تو وہ سری نگر
جانے کیلئے تیار تھے حالانکہ حقیقت بالکل اس کے برعکس ہے اور گرفتاریوں کا
یہ ڈرامہ سب کچھ طے شدہ امر تھا۔بہرحال ہندو انتہا پسند وں کے سری نگر نہ
پہنچ سکنے کو بی جے پی اور دیگر انتہاپسندوں کی بہت بڑی ناکامی اور
کشمیریوں کی کامیابی قرار دیاجارہا ہے۔ ایک کشمیری تنظیم کے ذرائع کے مطابق
بھارتی فورسز نے ہفتہ کو پورے سری نگر کا کریک ڈاؤن کر رکھا تھا۔ جگہ جگہ
ناکے لگا کر تمام راستے بند کر دیے گئے تھے۔ حریت کانفرنس (گ) کے چیئرمین
سید علی گیلانی سمیت دیگر کشمیری قائدین کو ان کے گھروں میں نظر بند رکھا
گیا تاکہ ترنگا لہرانے کے خلاف تحریک زور نہ پکڑ سکے مگر یہ سب کاوشیں بے
کار ثابت ہوئیں۔ کشمیری نوجوانوں نے کئی دن پہلے سے ہی سری نگر کے لال چوک
میں ہندوؤں کے ترنگا لہرانے کے پروگرام کو ناکام کرنے کی تمامتر تیاریاں کر
رکھی تھیں۔ قریبی رہائشی بھی پوری طرح اپنا فریضہ نبھانے کیلئے تیار تھے
لیکن بی جے پی قیادت نے حالات بھانپ کر ہندو انتہاپسندوں کو روکے رکھا تاکہ
انہیں کسی قسم کی مشکل میں مبتلا ہونے سے بچایا جاسکے۔ ادھر سری نگر کی
صورتحال یہ رہی کہ دختران ملت کی سربراہ آسیہ اندرابی کی قیادت میں کشمیری
خواتین لال چوک تو نہ پہنچ سکیں البتہ قریبی سڑکوں پر انہوں نے ایک بار پھر
پاکستانی پرچم لہرائے اور وطن عزیزپاکستان سے لازوال محبت کا اظہار کیا
گیا۔ اسی طرح کشمیریوں نے سری نگر کے سکیورٹی زون میں واقع ہری پربت قلعہ
اور سڑکوں پر لگائے گئے مختلف پول اور بورڈز پر بھی پاکستانی پرچم
لہرائے۔کشمیریوں کا یہ جذبہ دیکھ کر یہ بات یقین سے کہی جاسکتی ہے کہ بھارت
سرکار کی جانب سے نہ تو کشمیر ی پنڈتوں کیلئے الگ بستیاں بساکر آبادی کی
تناسب بگاڑنے جیسی سازشیں کامیاب ہوں گی اور نہ ہی وہ طاقت کے بل بوتے پر
مقبوضہ کشمیر پر زیادہ دیر تک اپنا غاصبانہ قبضہ برقرار رکھ سکے گا۔کشمیر
کی آزادی کا سورج جلد طلوع ہو گا۔ ان شاء اﷲ |