تمام تر سیاسی جماعتوں اور اعلیٰ سول و فوجی قیادت کے
باہمی مشورے اور اتفاق رائے سے شمالی وزیرستان میں سکیورٹی فورسز نے گزشتہ
سال جولائی میں آپریشن ضربِ عضب کا آغاز کیا تھاضرب عضب حضرت محمد صلی اﷲ
علیہ وآلہ وسلم کی تلوار مبارک کا نام ہے اس کا مطلب ہے کاٹ دینے والی
ضرب۔یہ تلوار غزوہ بدر اور غزوہ احد میں استعمال ہوئی۔اس آپریشن میں آرمی
لڑاکا جیٹ طیارے، گن شپ ہیلی کاپٹر کوبرا اہداف کو نشانہ بنارہے ہیں۔ جبکہ
اسکے ساتھ ساتھ پشاور سے ملحقہ علاقوں میں بھی دہشت گردوں کے ٹھکانوں پر
فضائی اور زمینی کارروائی کا آغاز کیا گیا ہے۔ تقریباً دس ماہ سے جاری اس
آپریشن میں سکیورٹی فورسز کو دہشت گردوں کیخلاف یقینا نمایاں کامیابیاں
حاصل ہوئی ہیں اور سینکڑوں غیرملکیوں سمیت دہشت گرد تنظیموں کے متعدد اہم
کمانڈرز اس آپریشن میں مارے گئے ہیں جبکہ بھاری مقدار میں اسلحہ‘ ایمونیشن‘
گاڑیوں اور دوسرے سامان حرب سمیت دہشت گردوں کے بیسیوں ٹھکانے تباہ ہوئے،
چنانچہ بچ جانیوالے دہشت گرد یا تو افغانستان فرار ہو گئے یا ملک کے مختلف
حصوں میں انہوں نے جائے پناہ حاصل کرلی جہاں انہوں نے خود کو منظم کرنے اور
اندرون و بیرون ملک موجود اپنے سرپرستوں سے رابطوں کا سلسلہ بھی جاری رکھا۔
ان ملک دشمن عناصر نے پاکستان کی ترقی اور خوشحالی میں ہمیشہ رخنہ ڈالا اور
ملک خداداد کو پھلنے پھولنے کا موقع نہ دیا، اور ملک بھر میں دہشت پھیلانے
کے لیے بے گناہ پاکستانیوں کے قتل عام کا سلسلہ جاری رکھا۔ جس پر بارہا یہ
مطالبے سامنے آتا رہا کہ ان ملک دشمن عناصر کے خلاف ایک بہت مو ثر اور
بڑیآپریشن کی ضرورت ہے۔ پاک فوج اس سے پہلے دہشت گردوں کے خلاف کئی آپریشن
کرچکی ہے جن میں جن میں آپریشن راہ راست، آپریشن المیزان، راہِ حق
اورآپریشن راہِ نجات قابل ذکر ہیں۔ ان تمام آپریشنز میں جہاں دہشت گردوں کا
بھاری نقصان ہوا وہاں پاک فوج کے کئی افسران اور سول شہریوں نے جام شہادت
نوش کیا۔
15جون 2014ء کو اب تک کا سے بڑا آپریشن طالبان اور دیگر ملک دشمن گروپس کے
خلاف لانچ کیا گیا۔ اس آپریشن کو ضرب عضب کا نا م دیا گیا ہے۔ عسکری
قیادتوں کی جانب سے بجاطور پرآپریشن ضرب عضب میں بے پناہ کامیابیوں کا
دعویٰ اور آپریشن پر اطمینان کا اظہار کیا جاتا رہا ہے مگر اس آپریشن کے
دوران ہی نیول ڈاکیارڈ کراچی‘ واہگہ بارڈر لاہور‘ ملٹری پبلک سکول پشاور
اور حالیہ دنوں سانحہ صفورا کی شکل میں کراچی میں اسماعیلی برادری کیخلاف
سفاکانہ دہشت گردی کی واردات ہو چکی ہے۔ دہشت گردی کی یہ تمام وارداتیں
دہشت گردوں نے بھاری اسلحہ کے ذریعے دن دہاڑے کی ہیں، جن میں سینکڑوں بے
گناہ انسانوں بشمول بچوں اور خواتین کا بے دردی سے قتل عام کیا گیا جبکہ
آپریشن کے دوران وسیع پیمانے پر ہونیوالی اور بھاری جانی و مالی نقصان کا
باعث بننے والی اس دہشت گردی سے سکیورٹی فورسز کی کارکردگی اور حکومتی رٹ
پر بھی سوالات اٹھے اور دہشت گردی کی ایسی ہر واردات کے بعد آرمی چیف جنرل
راحیل شریف کی غیرمعمولی فعالیت اور ملک دشمن عناصر کے خلاف سخت ترین
بیانات سے جہاں پوری قوم کا حوصلہ بلند ہوا وہیں پاک فوج کا مورال بھی بلند
ہوا ہے اور دہشت گردی کے خاتمے کی اس جنگ میں مسلح افواج کی دلیری اور
شجاعت قابل دید نی ہے۔
دہشت گردی کے قلع قمع کرنے کیلئے آپریشن ضرب عضب کے آغاز کے وقت سے ہی سول
اور عسکری قیادت متحد ہے۔ حکومت کی جانب سے تمام سیاسی قیادتوں کی مشاورت
اور معاونت سے آئین میں 21ویں ترمیم کا اضافہ کرکے اور قومی ایکشن پلان
تشکیل دے کر سکیورٹی فورسز کے ہاتھ مضبوط کئے گئے اور انہیں دہشت گردی کے
قلع قمع کیلئے کوئی بھی ٹھوس اقدام بروئے کار لانے کا مکمل اختیار دیا گیا
ہے۔ شمالی وزیرستان کے آپریشن ضرب عضب ہی نہیں‘ کراچی میں جاری رینجرز کے
ٹارگٹڈ آپریشن اور بلوچستان میں ایف سی کی کارروائیوں میں بھی عسکری
قیادتوں کا عمل دخل ہے۔ حکومت نے سکیورٹی فورسز کی دفاعی‘ حربی ضروریات
پوری کرنے کیلئے گزشتہ سال دفاعی بجٹ میں دس فیصد اضافہ کیا اور آئندہ ماہ
کے مجوزہ وفاقی بجٹ میں بھی دفاعی بجٹ میں خاطرخواہ اضافہ کی شنید ہے اس
لئے دفاع وطن اور ملک میں مستقل قیام امن کیلئے سکیورٹی فورسز کے ساتھ قوم
کی توقعات بجاطور پر بڑھ گئی ہیں۔ اس تناظر میں سکیورٹی فورسز کی ساکھ‘
شہرت‘ صلاحیت اور استعداد سمیت سب عزم اور حوصلے میں اضافے کی بھی کہیں
ذیادہ ضرورت ہے ۔اس موقع پر پاکستانیوں کا فرض بنتا ہے کہ مسلح افواج اور
سیکیورٹی فورسز کی حوصلہ افزائی کی جائے۔
آرمی چیف جنرل راحیل شریف نے آئی ایس آئی ہیڈکوارٹرز کا دورہ کرکے جہاں ملک
کی سا لمیت کیخلاف دشمن ایجنسیوں کی سازشیں ناکام بنانے کے عزم کا اظہار
کیا‘ اور ملکی دفاع میں اپنی انٹیلی جنس ایجنسی کے کردار کو قابل فخر قرار
دے کر اسکی ستائش کی‘ وہیں انہوں نے یہ بھی باور کرایا کہ دہشت گردی کیخلاف
سول اور فوجی اداروں میں تعاون ضروری ہے۔ سول اور عسکری قیادتیں اس نکتہ پر
متفق ہیں کہ کراچی‘ بلوچستان‘ خیبر پی کے اور ملک کے دوسرے حصوں میں اب تک
ہونیوالی دہشت گردی کے پیچھے بھارتی ایجنسی ’’را‘‘ کا ہاتھ ہے۔ اور دہشت
گردی کی بعض وارداتوں میں بھارتی ساختہ اسلحہ استعمال ہونے سے بھی ’’را‘‘
کے ملوث ہونے کے الزامات کو تقویت ملی ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ملک دشمن
اس ایجنسی اور ملک دشمن عناصر کی سازشوں کا توڑ کرنے اور ملک میں ان کے
پھیلائے گئے نیٹ ورک کو اکھاڑنے کیلئے سول اور عسکری اداروں کے عملاً ایک
صفحے پر ہونے اور باہمی اعتماد و تعاون کو مضبوط بنانے کی پہلے سے بھی
زیادہ ضرورت ہے ، تاکہ دشمن کو فاش شکست ہو، اور ملک کو ہمیشہ کے لیے دہشت
گردی اور ملک دشمن دہشت گردوں سے نجات مل سکے۔بلاشبہ دہشت گردی کے خلاف اس
جنگ میں پوری پاکستانی قوم پاک فوج اور سیکیورٹی فورسز کے ساتھ کھڑی ہے،
اور دعا گو ہے کہ پاکستان سے جلد دہشت گردی کا مکمل خاتمہ ہو اور یہاں سے
جلد امن کا سورج طلوع ہو۔آمین |