قرآن کریم اور انبیاء کی بعثت کا
محورتقوی و پرہیز گاری/ آصف ناصر
کلمہ تقوی سورہ بقرہ میں بنیادی حیثیت رکھتا ہے اور تمام آسمانی کتب کا
محور اور مرکزہے جیسا کہ اللہ تعالی کا ارشاد ہے۔
ولقد وصینا الذین اوتوالکتاب من قبلکم و ایاکم ان اتقو اللہ
ہم نے تم سے پہلے اھل کتاب کو اور اب تمہیں یہ وصیت کی ہے کہ تقوی اختیار
کرو۔
لہذا اگر تقوی سے بڑھ کر کوئی چیز ہوتی تو یقینا خدا وند عالم اس کا ذکر
کرتا دنیا وآخرت کی تمام اچھائیاں اسی لفظ تقوی میں مضمر ہیں انبیاء علیہ
السلام بھی توحید کے بعد یہی وصیت کرتے ہیں۔
الا تتقون۔
یعنی تم لوگ کیوں تقوی اختیار نہیں کرتے؟
اسی طرح سورہ بقرہ کے شروع میں ارشاد ہو رہا ہے
الم ذلک الکتاب فیہ ھدی للمتقین
یہ وہ کتاب ہے جس میں متقیوں کے لئے ہدایت ہے
یہ کتاب ( قران مجید)متقی لوگوں کی حقیقی راہنما ہے اور تقوی کا لغوی معنی
اپنی حفاظت کرنا ہے اور اصطلاح میں ان تمام چیزوں سے اپنے آپ کو بچانا جو
اس کیلئے نقصان کا سبب ہیں اور ان چیزوں کی طرف رغبت کرنا جو اس کے لئے
فائدہ مند ہیں بالفاظ دیگر واجبات کا بجا لانا اور محرمات سے بچنا تقوی
کہلاتا ہے۔
حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام تقوی کی تعریف بیان کرتے ہوئے ارشاد
فرماتے ہیں۔
ان لا یفقدک اللہ حیث امرک ولا یراک حیث نھاک
اللہ تعالی نے جس چیز کے بجا لانےکا حکم دیا ہے اسے بجا لانے کی کوشش
کرواور جس چیز سے نہی فرمائی ہے ان سے بچنے کی کوشش کرو ۔
الف : قرآن میں تقوی کی اہمیت
قرآن مجید میں تقوی کو بہت اہمیت دی گئی ہے ایمان کا مرحلہ اسلام سے بلند
ہے اور تقوی کا مرحلہ ایمان سے بھی بلند تر ہے جیسا کہ ارشاد رب العزت ہے۔
اتقو اللہ ان کنتم مومنین
اگر تم مومن ہو تو تقوی اختیار کرو۔
اسی طرح ارشاد رب العزت ہے۔
یا ایھا الذین امنو ا اتقو للہ
صاحبان ایمان اللہ کے لیئے تقوی اختیار کریں۔
ب، انبیاء علیہم السلام کے نزدیک تقوی کی اہمیت
تقوی انبیاء علیہم السلام کی دعوت میں بنیادی مقام رکھتا ہے انبیا علیہم
السلام خدا اور اس کی وحدانیت کی دعوت دینے کے بعد سب سے پہلے تقوی کا
فرماتے تھے جیسا کہ اللہ تعالی قرآن مجید میں حضرت محمد مصطفی (ص) کو خطاب
کرتے ہوئے ارشاد فرماتا ہے۔
قل افلا تتقون
)اے محمد ) ان سے کہ دیجئے کہ آپ تقوی کیوں نہیں اختیار کرتے۔
اسی طرح باقی انبیاء نے اپنی تبلیغ میں توحید کے بعد تقوی کو بہت اہمیت دی
ہے۔
ج : تقوی و آئمہ علیہ السلام
آئمہ علیہم السلام کا کردار وہ گفتار، تقوی پر مشتمل تھا یہی وجہ ہے کہ جب
ہماری نگاہ نہج البلاغہ پر پڑتی ہے تو اس کتاب کا محور کلام تقوی ہی محسوس
ہوتا ہے حضرت امیر المؤمنین علیہ السلام تقوی کو تمام اخلاقی مسائل کا
سردار قرار دیتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں۔
التقی رئیس الاخلاق یعنی تقوی اخلاق کا سردار ہے۔
حضرت امیر المومنین علی ابن ابی طالب کی نظر میں وہی شخص حقیقی متقی ہے جس
کے تمام اعمال ایک طشت میں رکھ کر پوری دنیا کو دکھائے جائیں،اور اس میں
ایک عمل بھی ایسا نہ ہو جس کی وجہ سے اسے شرمندگی اٹھانی پڑے۔
حضرت امام باقر علیہ السلام اپنے سچے شیعوں کی علامت بیان کرتے ہوئے ارشاد
فرماتے ہیں۔
فواللہ ما شیعتنا الا من اتقی اللہ وطاعہ۔
یعنی خدا کی قسم ہمارا شیعہ وہی ہے جو تقوی اختیار کرے اور اللہ کی اطاعت
کرتا ہو۔
تقوی کی علامتیں
قرآن مجید میں تقوی اختیار کرنے والوں کی بہت سی علامتیں بیان ہوئی ہیں ان
میں سے ایک علامت عزت وتکریم ہے جیسا کہ خداوندمتعال ارشاد فرماتا ہے۔
ان اکرمکم عنداللہ اتقاکم۔
بے شک اللہ کے نزدیک تم میں سب سے زیادہ عزت والا وہ ہے جو سب سے زیادہ
پرہیز گار ہو۔
تقوی کے مراتب
1. تقوی بدن:اپنے جسم کو نجاسات سے دور رکھنا تقوی بدنی کہلاتا ہے۔
2. تقوی نفس:اپنے نفس کو شیطانی وسوسوں اور صفات رذیلہ و خبیثہ سے دور
رکھنا کو تقوی نفس کہا جاتا ہے۔
3. تقوی قلب:دل کو حضرت حق تعالی کے علاوہ ہر چیز سے پاک و صاف کرنے کا نام
تقوی قلب ہے جس شخص میں بھی یہ تینوں صفات موجود ہوں وہ اللہ تعالی کی خاص
عنایت اورلطف کا مستحق ہے۔
|