اخبارات معلومات کا ایک
وسیع ذخیرہ اپنے اندر سمیٹے ہوئے ہیں۔گاؤں،گوٹھ، ضلع، شہر، ملک سے لے کر
بین الاقوامی سطح پر تمام تر معلومات کی فراہمی اخبارات کے ذریعے ممکن
ہے۔بعض افراد کا ماننا ہے کہ ٹیلی وژن معلومات اور آگاہی حاصل کرنے کا
زیادہ مؤثر اور فوری ذریعہ ہے۔بلا شبہ یہ بات اپنی جگہ درست ہے لیکن ٹیلی
وژن پر ایک بار دکھایا جانے والا کوئی معلوماتی پروگرام ہم بار با ر اپنی
مرضی سے نہیں دیکھ سکتے جبکہ اخبارات کا معلوماتی مواد ہم جب چاہیں، جہاں
چاہیں، جسطرح چاہیں، جسوقت چاہیں اور جتنی بار چاہیں پڑھ سکتے ہیں۔ اشاعت
شدہ تمام تر معلومات ہم صدیوں تک محفوظ رکھ سکتے ہیں اسکی سب سے بڑی مثال
یہ ہے کہ قرآن مجید آج بھی ہمارے پاس اپنی اصل حالت میں موجود ہے۔اسکے
علاوہ صدیوں پرانے مؤجدوں اور فلسفیوں کا کتابی ورثہ بھی آج کے دور میں
دستیاب ہے۔ اخبارات کے حوالے سے بات کی جائے تو قیامِ پاکستان کے بعد سے اب
تک کے تمام اخبارات کا ذخیرہ بھی محفوظ ہے۔صحافت اس بات پر زور دیتی ہے کہ
ہر بات کو پورے حقائق کے ساتھ پیش کیا جائے۔زبان سے کہے ہوئے الفاظ سے تو
انسان مکر سکتا ہے لیکن تحریر شدہ الفاظ ثبوت بن جاتے ہیں۔ممکن ہے اخبارات
کی اہمیت کا تھوڑا اندازہ تو قارئین کو ہو ہی گیا ہوگا۔
صحافت ایک ایسا شعبہ ہے جس میں کچھ اصطلاحات ایسی استعمال ہوتی ہیں جنہیں
عام قاری سجھنے سے قاصر ہے۔ بہت سے قارئین ایسے ہیں جو اخبارات صرف خبریں
پڑھنے کی غرض سے خریدتے ہیں۔ اسکے بعد اخبار انکے لئے ردّی میں شمار ہوجاتا
ہے۔ لیکن شعبہ صحافت سے تعلق رکھنے والے افراد اخبارات کی تحریروں کی اہمیت
سے بخوبی واقف ہیں۔لہٰذا اسی بات کو مدِّ نظر رکھتے ہوئے میں نے فیصلہ کیا
کہ خبرکے ساتھ ساتھ اخبارات کی دیگر تحریروں کی اہمیت سے بھی قارئین کو
آگاہ کیا جائے ۔تاکہ انہیں اخبارات کو پڑھنے کے ساتھ ساتھ سمجھنے میں بھی
آسانی ہو۔ذیل میں اخبارات کی صحافتی اعتبار سے اہم ترین تحریروں کی وضاحت
پیش کی جاتی ہے۔
خبر:
خبر ایک ایسا تحریری اور ریکارڈ یافتہ مضمون ہے جو عوام کو حالاتِ حاضرہ ،
خدشات، خیالات اور حالیہ واقعات کے بارے میں آگاہی فراہم کرتا ہے۔ہر وہ بات
خبر ہے جو انسانی دلچسپی کا سبب بنے۔اور جو ہمیں یہ بتائے کہ ہماری آس پاس
کی دنیا میں کیا کیا نئے واقعات رونما ہو رہے ہیں۔اس بات کا خیال رکھنا
چاہیئے کہ آج کی خبر آج ہی عوام تک پہنچ جائے کیونکہ اگلے دن وہ خبر تاریخ
بن جاتی ہے خبر نہیں رہتی۔خبر عوام کے روز مرہ مسائل اور دلچسپیوں کے مطابق
ذاتی نوعیت کی ہو۔اس میں جدّت اور محقق مواد شامل ہونا ضروری ہے۔
مراسلہ:
مراسلہ عوام کی اظہارِ رائے کی عکاسی کرتا ہے۔ مراسلہ نگار باقاعدہ اخبار
کا ملازم نہیں ہوتا بلکہ کوئی بھی عام آدمی مراسلہ لکھ سکتا ہے۔یہ ایک
مختصر تحریر ہے۔ اسکی اخبار میں کوئی خاص جگہ مختص نہیں۔مراسلے کا عنوان
آزاد ہوتا ہے یعنی موضوع کی مناسبت سے اسکا عنوان تجویز کیا جاتا ہے۔مراسلہ
اخبار کے مدیر کے نام عوام کے اجتماعی مسائل سے اخبار کے توسط سے حکامِ
بالا کو آگاہ کرنے کے لئے تحریر کیا جاتا ہے۔یہ ایک جانبدار تحریر ہے جو کہ
بلا معاوضہ تحریر کی جاتی ہے۔ یہ ادارتی صفحے پر بائیں جانب شائع کئے جاتے
ہیں۔
کالم:
کالم ایک جانبدار اور آزاد تحریر ہے۔کالم نگار کیلئے ضروری ہے کہ وہ
باقاعدہ اخبار کا ملازم ہو یا عارضی بنیاد پر اخبار سے وابستہ ہو۔کالم نگار
اپنے کالموں میں صحافیانہ تجزیہ اور دانشورانہ تبصرہ پیش کرتے ہیں۔کالم
نگاروں کی ادارتی صفحہ پر اپنی اپنی مستقل جگہ متعین ہوتی ہے۔کالم نگار بہ
عوض معاوضہ کالم تحریر کرتا ہے۔کالم ایک مستقل عنوان اور ایک ذیلی عنوان پر
مشتمل ہوتا ہے۔کالم رائے عامہ کی تشکیل میں بھرپور کردار ادا کرتے
ہیں۔عموماً سنجیدہ طبقے کے افراد کالم کے مخصوص قارئین میں شمار ہوتی ہیں۔
اداریہ:
اداریہ ایک سنجیدہ ، مدبّرانہ اور مدلّل تحریر ہے۔اداریہ اخبار کا مدیر
یامدیران حالاتِ حاضرہ سے متعلق ملک و قوم کے حوالے سے اہم ترین موضوع پر
تحریر کرتا ہے۔ اداریے کی اخبار میں ایک خاص جگہ متعےّن ہے۔مدیر یعنی
اداریہ نویس باقاعدہ اخبار کا تنخواہ دار ملازم ہوتا ہے۔اداریہ ایک غیر
جانبدار تحریر ہے جو کہ اخبار کی پالیسی کی عکاسی کرتا ہے۔اداریہ سنجیدہ
طرزِ فکر کے لوگوں میں زیادہ مؤثر حیثیت رکھتا ہے جو کہ حالاتِ حاضرہ سے
باخبر رہنا چاہتے ہیں۔
آرٹیکل:
آرٹیکل شعبہ ہائے زندگی پر گہری نظر رکھنے والے مشہور شخصیات کی جانب سے
لکھی جانے والی تحریر کو کہتے ہیں۔آرٹیکل میں عموماً عام موضوعات کا احاطہ
کیا جاتا ہے ،اسکا کوئی مخصوص موضوع نہیں ہوتا۔ہر وہ شخص آرٹیکل تحریر کر
سکتا ہے جو کسی بھی موضوع کے بارے میں گہری جانکاری اور الفاظ کا ذخیرہ
رکھتا ہو۔اچھا آرٹیکل کم سے کم آٹھ سو اور زیادہ سے زیادہ بارہ سو الفاظ پر
مشتمل ہوتا ہے۔
فیچر:
فیچر ایک طویل اور دلچسپ تحریر کو کہتے ہیں۔جو کم سے کم ۳ ہزار اور زیادہ
سے زیادہ ۵ ہزار الفاظ پر مشتمل ہوتی ہے۔اس میں موضوع کے ان تمام پہلوؤں کو
سرخی پاؤڈر لگا کر پیش کیا جاتا ہے جن پہ کسی کی خاص توجہ نہ ہو۔فیچر نگار
ایسا طرزِ تحریر اختیار کرتے ہیں جو جاذبِ نظر ہو۔فیچر ایک جامع اور محقق
تحریر ہے۔ فیچر نگار کے لئے ضروری ہے کہ وہ ایک تحقیق کرنے والا شخص ہو،
چاہے صحافی ہو یا غیر صحافی۔
بظاہر تو ہر تحریر ایک دوسرے سے منفرد نظر آتی ہے لیکن اہمیت کے اعتبار سے
ہر تحریر یکساں اہمیت کی حامل ہے۔ امید ہے کہ یہ تمام تر معلومات قارئین
کیلئے کسی بھی اخبار کو پڑھنے کے ساتھ ساتھ سمجھنے میں بھی مددگار ثابت ہو
گی۔ |