یہ ایک اٹل حقیقت ہے کہ آزاد
کشمیر اور مقبوضہ کشمیر کو ایک آزاد ملک بن جانا چاہئے۔ مقبوضہ علاقہ چونکہ
غیر مسلم ملک کے ساتھ ہے تو شاید وہ فیصلہ سازی میں اسقدر خود مختار نہیں
ہیں جتنا کہ آزاد کشمیر آزاد اور خود مختار ہے۔ آزاد کشمیر کا جھنڈا اور
ترانہ اسکے آزاد اور خود مختا ر ہونے کی نشانی ہے۔ پاکستان سے الحاق ہونے
کا فائدہ بھی ہے کہ بغیر ویزا سروس کے آزادی سے سفر کیا جاسکتاہے اور ویسی
مشکلات برداشت نہیں کرنا پڑتی جو مقبوضہ علاقے کے لوگوں کو کرنا پڑتی ہیں۔
تجارت ، روزگار، تعلیم وغیرہ کے معاملات میں بھی ہر طرح کی آزادی اور فائدے
ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ لوگوں کے ذہنوں میں اپنی کمزوریاں چھپانے کے لئے
پاکستان کے خلاف انگلی اٹھا کے اپنے آپکو فرشتہ ثابت کر دیا جاتاہے اور اﷲ
کے خوف کا بھی احساس نہیں کیا جاتا۔
آج اگر ماضی کی تمام قرار دادوں، جہاد ، اقوام متحدہ وغیرہ جیسے معاملات کو
ایک دن کے لئے بھلا دیا جائے اور صرف موجودہ آزاد و خود مختار چالیس لاکھ
عوام کے مسائل کا مطالعہ کیا جائے تو معلوم ہو گا کہ ایک انگلی تو پاکستان
کی طرف ہو گی اور باقی چار خود اپنی طرف۔ آزاد و خود مختار عوام کے لئے
مسائل حل کئے جاتے ہیں یا ان کے لئے مذید پریشانیاں پیدا کی جاتی ہیں تو
باضمیر لوگ اپنی کی گئی غلطیوں پر شرمندہ ہونگے اور مستقبل میں ضرور اپنی
غلطیوں کو آخرت کے عذاب سے بچنے کے لئے اصلاحات کریں گے۔
اس وقت یہا ں چار لاکھ ملازمتوں کی فوری ضرورت ہے۔ جن لوگوں کے رشتہ دار
حکمرانوں کی فہرست میں شامل ہیں، ان کے لئے تو تعلیم حاصل کرنے کے دوران ہی
جاب آرڈرز آ جاتے ہیں۔ لیکن مسلہ ان لاکھوں لوگوں کا ہے جن کے ٹیکسز سے بنا
بجٹ ان کے لئے کبھی بھی فائدہ مند نہیں ہوتا۔ میرٹ کیا اس پامالی کی وجہ سے
نااہل لوگ معاشی ترقی میں کوئی کردار نہیں ادا کر پاتے اور ساری زندگی کرسی
پہ بیٹھٹنے کی تنخواہ وصول کرتے ہیں۔
ملازمتوں کے امتحان میں اپلائی کرنے کے حکومت کو درخواستوں کی مد میں
کروڑوں کی آمدنی ہوتی ہے، لیکن غریب کا پیسہ اس وقت ضائع ہوتا ہے جب اسے
امتحان میں شامل ہونے کے لئے بھی نہیں بلایا جاتا اور بننے والے بغیر
امتحان کے افسر بن جاتے ہیں۔ اگر کوئی صرف اپنا حق حاصل کرنے یا صرف حقیقت
معلوم کرنے کے لئے متعلقہ دفاتر سے رابطہ بھی کرے تو بڑے بڑے پڑھے لکھے بھی
ایسی زبان استعما ل کرتے ہیں کہ اپنی نہ سہی مگر ان کی حقیقت ضرور معلوم ہو
جاتی ہے کہ ملازمت کے حصول کے کون سی خاص قابلیت ضروری ہے۔ نوجوان نسل جان
لے کہ ملازمت کے حصول کے اس طریقہ کار میں نہ پاکستان کا قصور ہے اور نہ ہی
انڈیا کا۔
اس وقت آزاد کشمیر کے ہر گھر میں کیبل ٹی۔وی کی نشریات دیکھی جاتی ہیں ،
یعنی پاکستانی، انڈین، اور یہودیوں کے چینلز دیکھے جاتے ہیں ، کسی کو ان سے
نفرت نہیں۔ حکومت کو چاہیے کہ کم از ایک چینل تو آزاد کشمیر کا ہو کہ کشمیر
سے عشق کرنے والے صرف اپنے لوگوں کو ہی دیکھ سکیں۔ اس طرح بیروز گاری بھی
دور ہو گی اور کشمیری تحریک کے اصل معنی عوام کو معلوم ہوں گے۔ یعنی تین
کشتیوں میں سوار لوگوں کو ڈوبنے سے بچایا جا سکے ۔ لیکن مسلہ پھر وہی ہو گا
سفارشی لوگ اپنے چینل کو ٹیلنٹ نہ ہونے کی وجہ سے ساری انویسٹمینٹ ڈبو دیں
گے۔
ایک آسان حل صرف زراعت کی پروموشن ہے، پھلوں اور سبزیوں کی پیداوار میں
اضافے کے لئے ــ سبز انقلاب کی ضرورت ہے، لوگوں کو کھانے پینے کا سامان
سستے داموں ملے گا، بیروزگاروں کو روزگار ملے گا، فوڈ انڈسٹریز کو کم قیمت
پر اشیاء حاصل ہوں گی، سفر کے اخراجات کا خاتمہ ہو گا، ملک کم از کم خوراک
کے معاملے میں خود کفیل ہو گا۔ لیکن بات وہی کہ پھر معمول کی طرح کرپشن ہو
گی ہو گی صرف تنخواہوں کے حصول والے لوگ تعینات ہوں گے اور عام لوگوں کے
لئے معمول کے دھکے۔
آخر میں ایک ہی حل ہے کہ آزاد کشمیر پاکستان کا صوبہ بن جائے،کیونکہ خود
مختار کشمیر یا دوہری تہری کشتیوں میں سوار رہنے کی وجہ عوام اور معیشت کا
ستیاناس ہو چکا ہے۔ صرف کشمیری کی شرط کی وجہ سے نہ تو یہا ں ملٹی نیشنل
کمپنیاں آ سکتی ہیں اور نہ ریسرچ ماہرین نئی ایجادات کے لیئے آ سکتے ہیں۔
قومی اسمبلی میں اپنے حقوق کے لئے ایک آواز ہو گی۔ کھیلوں میں ایک نام ہو
گا، جدید تعلیم کے حصول میں آسانیاں ہونگی اور بیروزگاری میں کمی ہو گی۔
ایک ایٹمی ملک کا حصہ بننے سے ساری دنیا میں ایک پہچان ہو گی،پریشان ہونے
کی ضرورت نہیں مگر قومیت پھر بھی کشمیریت ہی رہے گی۔
|