AJKمیں حقیقی سمال بزنس سکیمز کی ضرورت

کافی عرصہ پہلے AJK میں کچھ سیاستدانوں کی بہت زیادہ بیان بازی معاشی انقلاب لانے کے حوالے سے ہوئی اور گھریلو صنعتوں اور سمال بزنس سکیمز متعارف کرانے کے سبز باغ دکھائے گئے۔ اور پھر ان سیاستدانوں نے اقتدار میں آ کے دونوں وعدے پورے کئے یعنی خواتین کو مرغیاں فراہم کر کے گھریلو سطح پر سمال بزنس سکیم متعارف کرائی گئی۔ اور سکیم کا افتتاح مرغیوں کو دانہ ڈالنے سے کیا جاتا۔ یہ سب خبریں اخبارات میں موجود ہیں۔ اب پھر ان ہی صنعتوں کے فروغ کے وعدے کئے جا رہے ہیں تو ضرورت اس امر کی ہے ان کے اثرات کو بھی دیکھا جائے جو کہ مجھے اور سب لوگوں کو(ان بزنس سکیمز کے فوائد) معلوم ہونگے۔

ہمارے ہمسایوں کے بچوں کو چوزوں سے کھیلنا بہت پسند ہے۔ ان کے والدین نے گھر میں چوزے اور چند مرغیاں رکھی ہوئی ہیں۔ ہوتا یوں ہے کہ ہر ہفتے کے دوران ایک دو چوزے یا تو چوری ہو جاتے ہیں یا پھر بلی ان کھا جاتی ہے۔ مرغیاں بھی بس کبھی کبھار ہی انڈے دیتی ہیں۔ اگر کبھی کوئی بیماری کا حادثہ ہو جائے تو سب کا صفایہ ہو جاتا ہے۔لیکن والدین بچوں کو خوش رکھنے کے لئے انہیں پھر نئے چوزے لا دیتے ہیں۔ یعنی یہ صرف شوق سے مرغیاں پالنے کے اثرات ہیں، لیکن اگر ان کو گھریلو کاروبار کے طور پہ لے لیا جائے تو سوائے نقصان سے کچھ حاصل نہیں ہوگا سوائے چوبیس گھنٹے کی محنت کے۔

فائن آرٹس میں ماسٹرز کی خواہش نہ پوری ہونے کی وجہ سے میں نے شہر میں موجود گرلز ووکیشنل سینٹر سے پینٹنگ کی سکلز سیکھنے کے لئے دو ہفتے کا کورس کیا۔ اس دوران مجھے اس ادارے کی طالبات کو دیکھ کے بہت افسوس ہو ا کہ ان کے اس شوق سے سیکھنے سے کیا فوائد حاصل ہونگے؟ ان طالبات کی تعلیم پرائمری سے زیادہ اور بی۔اے سے کم تک ہوتی ہے عمومی طور پہ۔ وہاں کی اساتذہ اور پرنسپل کو میں نے بہت خوش اخلاق اور جاں فشانی سے کام کرتے ہو ئے دیکھا۔ اس بات کی بھی خوشی ہوئی کہ طالبات سلائی، کڑھائی، فیبرک پیننٹنگ، گلاس پینٹنگ، ڈیکوریشن والی اشیاء نہایت مہارت اور باریکی سے بہت جلد سیکھ جاتی تھیں۔

میں نے پرنسپل سے ان طالبات کے مستقبل کے بارے میں بات کی تو معلوم ہوا کہ زیادہ تر ان طالبات کا تعلق انتہائی غریب گھرانوں سے ہوتا ہے، یعنی سلائی مشین کی خرید سے زیادہ کی انکی استطاعت نہیں ہوتی۔دوسری افسوسناک بات یہ کہ ان کی بنائی ہوئی اشیاء کی مانگ یہاں بالکل نہیں ہے۔ لوگ دکانوں سے بنی بنائی اشیاء ہی خریدتے ہیں، بلکہ ہاتھ سے بنی ان اشیاء کو دکاندار اگر اپنی دکانوں میں رکھ بھی لیں تو نہ بکنے کی وجہ سے واپس کر جاتے ہیں۔ یہ طالبات چونکہ بہت غریب اور کم تعلیم یافتہ ہوتی ہیں لٰہذا انہیں اپنا کاروبار کرنے کی کوئی سمجھ بوجھ نہیں۔ اور انہوں نے ٹھیک ہی کہا، کیونکہ جو میں نے پینٹنگ سکلز وہاں سے سیکھیں اسے گھر میں بھی کسی نے خاص پسند نہیں کیا، الٹا دو، تین ہزار رنگوں، پینٹ برشوں وغیرہ کے خریدنے پہ ضائع ہو گیا اور میرا شوق بھی ہمیشہ کے لئے ختم ہو گیا کہ کیسا فضول کام ہے۔

میں نے سادہ سے تجربات سے مارکیٹ سروے بیان کر دیا ہے کہ ان بزنس سکیمز کو پروموٹ کرنا سراسر نقصان ہے۔ اصل میں ہنر مندی کے پیشے پر لاکھو ں روپے خرچ ہوں تو ہزاروں میں فوائد ہونگے اور گھر بار کا خرچ نکل سکے گا۔ کشمیری شالیں اور دوسری مصنوعات تو پاکستان کی ٹیکسٹائل ملز تیار کر رہی ہیں۔ کلچرل اشیاء کی مانگ تب بڑھتی ہے جب اپنے علاقے کے لوگ ان کو استعمال کریں، ورنہ کسی کو دلچسپی نہیں ہوتی۔

اگر یہاں کے لوگوں کو ہنر مند کرنا ہی ہے تو ہوزری کی صنعت متعارف کرائیں۔ اور مرغبانی کی جگہ باغبانی کو فروغ دیں۔ بزنس کو چلانے کے لئے ماہرین سے مشاورت کی جائے۔ انوسٹمنٹ کے جدید طریقوں پر عمل درآمد کیا جائے۔ چیمبر آف کامرس بنائے جائیں۔

انٹرنیٹ سے فوائد حاصل کئے جائیں۔ کم ا ز عوام کو بے وقوف بنا کے وقت ضائع نہ کرایا جائے۔

Asma
About the Author: Asma Read More Articles by Asma: 26 Articles with 26043 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.