ہمارے بڑے بھائی کے پردیس میں
درینہ دیسی دوست (دیسی ڈالڈے کے مقابل نہیں بلکہ پردیس کی ضد کے طور پر ہے)
محترم جناب عمر صاحب سے روبہ روملاقات کا شرف تو سعودیہ آکر ھی حاصل ہوا،
تاھم ان سے صوتی اور عکسی ملاقات کا سلسلہ پاکستان میں بھی بذریعہ انٹرنیٹ
جاری تھا۔
موصوف اتنے ھی وسیع الظرف ہیں جتناکہ صاحبِ جسامت، موصوف کافی لمبے چوڑے
حدودِ اربعہ کے مالک ہیں، غالبا اس کی دو وجہ ہوسکتی ہیں۔ ۱: یہ کہ کم عمری
میں ذمہ داریوں کا بارِگراں ان کے بجائے کسی اور کے کندھے پر تھا۔ یہ ظاہر
ہے کہ بغیر کسی وزن کے ’’اُٹھان‘‘ جلدی اور خوب ہوتی ہے۔ ۲: یہ کہ عموما
بچے پڑھائی کے بوجھ میں دبے ہوتے ہیں اور ساری توجہ ذھنی نشونما پر صرف کی
جاری ہوتی ہے جس سے ان کی جسمانی بڑھوتری خاطر خواہ نہیں ہوتی اور اکثر اس
عرصہ میں کمزور اور دبلے پتلے ہی دکھائی دیتے ہیں۔ مذکورہ بالا دونوں وجوہ
سے موصوف بچے رہے۔
اس بات سے یہ بھی اندازہ لگایاجاسکتاہے کہ موصوف نے غالبا اپنی طاقوت ور
’’قوتِ ارادی‘‘ کی بدولت پڑھائی (کی پریشانی) کوخود پر غالب نہیں ہونے دیا۔
جس سے وہ اس قدر وسیع وعریض مملکتِ جسمانیہ فتح کرنے میں کامیاب رہے۔
موصوف صاحبِ عقل بھی ہیں، ماضی کے دریچے میں جھانکنے کی زحمت کرتے ہیں اور
نہ ھی انجان مستقبل کی سوچ کا تکلف گوارہ رکھتے ہیں، ’’آج کو دیکھو بلکہ
ابھی کا دیکھو، جو آئیگی دیکھی جائیگی‘‘ کا اصول ہمیشہ پلّو سے باندھے
رکھتے ہیں۔
موصوف صاحبِ دل بھی ہیں، مسکراھٹ ان کا شیوہ، مسکان ان کی پہچان، خندہ
پیشانی ان کا وطیرہ، جودوسخا ان کی عادت اور اخلاص ومحبت ان کا طرہ امتیاز
ہے۔
موصوف کا ’’دولت کدہ‘‘ ھم پریسیوں کے لیے خانقاہ‘ درگاہ اور مے خانہ کا
درجہ رکھتا ہے۔ باقاعدہ ھر جمعرات درگاہ حاضری کی سعادت نصیب ہوتی ہے جس سے
’’پیرجی موصوف‘‘ کا درشن بھی نصیب ہوجاتاہے۔
شب جمعہ کی ’’بیٹھک‘‘ تو گویا ’’محفلِ یاراں‘‘، ’’شامِ سخن‘‘ ، ’’بزمِ
طرب‘‘ اور وہ ’’مجلس سرو‘‘ ہوتی ہے جو ہجر کے غموں، تنھائی کے دردوں، دل کے
پپولوں، جگر کے خراشوں اور یادوں کے تراشوں کو نہ صرف غلطاں کیے دیتی ہے
بلکہ وہ ’’غمِ یار‘‘ سے چھڑا کر زندگی کو اس کے سبھی رنگوں میں رنگ دیتی
ہے۔ |