خدمت کا یہ قابل قد رجذبہ اور وہ شیطانی حرکت

کنگ ایڈورڈ میموریل (کے ای ایم) اسپتال ممبئی کے انتظامیہ اوروہاں کی نرسوں نے انسانیت نوازی کا ایک نایاب باب رقم کیا ہے۔ یہ باب اچانک ابھر آنے والے کسی وقتی ابال کا نتیجہ نہیں بلکہ 42سال کی مستقل مزاجی اور بے لوث خدمت کے جذبہ کاعنوان ہے۔ اس کے لئے بجاطور پر’کے ای ایم‘ انتظامیہ اور اسٹاف اعتراف، اعزاز و انعام کا مستحق ہے۔ سپریم کورٹ نے اس کا اعتراف کیا بھی ہے۔ہم ان کے اس جذبہ کو اپنا سلام پیش کرتے ہیں۔

واقعہ 42سال پرانا ہے۔ 27نومبر1973کو 27سالہ معاون نرس ارونا شانباگ کو ایک عارضی صفائی ملازم سوہن لال بالمیکی پر اس لئے غصہ آگیا کہ اس کی کسی غلط حرکت سے اس کے وارڈ میں ایک مریض نے دم توڑدیا اورارونا ہزار کوشش کے باجود اس کے ٹوٹتے ہوئے سانسوں کو جوڑ نہیں سکی۔ اس صدمہ اورغصہ میں ارونا نے بالمیکی پر ہاتھ اٹھادیا۔ مزاج سے نرم اور مہربان ارونا شانباگ کا یہ شدید ردعمل سب کو حیران کردینے والا تھا۔ غالباً اس کی وجہ بالمیکی کی کوئی دوسری نازیبا حرکت بھی رہی ہوگی۔ اس سے قبل ارونا بالمیکی کو کھانا چرانے پر بھی ڈانٹ چکی تھی۔

بات یہیں ختم نہیں ہوگئی۔ بالمیکی نے اس کو بدلہ لینے کی دھمکی دی اوراس دھمکی کو عملی جامہ پہنانے کے لئے اس نے شانباگ کو اس وقت نشانہ بنایا جب رات کو ڈیوٹی کے بعد وہ ڈریسنگ روم میں لباس تبدیل کرنے گئی۔ بالمیکی نے اس کو دبوچ لیا۔ کتے کی زنجیر اس کے گلے میں ڈال کراسے گھسیٹا۔جب وہ بے بس ہوگئی تو اس کے ساتھ بدفعلی کی۔شانباگ کو گیارہ گھنٹے بعد صبح ڈیوٹی پر آنے والی نرس نے اس کو دیکھا۔ وہ بیہوش تھی۔زنجیر سے گردن کی کوئی نس ایسی مجروح ہوگئی تھی کہ دماغ تک آکسیجن نہیں پہنچ سکی۔چنانچہ اس کا جسم مفلوج ہوگیا اوروہ ایک زندہ لاش بن کر رہ گئی۔

یہ سانحہ ایسے وقت پیش آیا جب اس کی شادی ایک ڈاکٹرسے طے ہوچکی تھی۔ ارونا شانباگ کے ایک دو نہیں 9بہن بھائی تھے، مگراس کے منگیتر اوراہل خاندان نے تھوڑے ہی عرصہ اس کی خبرگیری کی۔سرکار نے حسب روایت بے حسی کا مظاہرہ کیا البتہ اسپتال کے اسٹاف اورنرسوں نے اس زندہ لاش کی اس طرح دیکھ بھال کی جس کی مثال ملنی مشکل ہے۔ ایک مرحلہ وہ آیا جب ایک مصنفہ پنکی ایرانی نے سپریم کورٹ میں عرضی داخل کی کہ ارونا شانباگ کو پائپ سے غذادینی بند کی جائے اوراس کومرنے دیا جائے کیونکہ اس کی صحت بحالی کی کوئی امید نہیں۔ اس پر لمبی بحث چلی مگراسپتال انتظامیہ اورنرسنگ اسٹاف نے اس کی مخالفت کی ۔ یقینا یہ ان کا خدمت انسانیت کا ہی جذبہ تھا کہ بے لوث شانباگ کی خدمت کرتی رہیں۔ اس 42سال میں پرانی نرسیں جاتی رہیں اورنئی آتی رہیں۔ ڈاکٹر بھی آتے جاتے رہے مگرارونا شانباگ کو جوکمرہ الاٹ تھا، اسی میں وہ رہی اورمجال نہیں تھی کہ اس کے کمرے میں زرا گندگی نظرآجائے۔ یہ نرسیں اس بے بس خاتون کے جسم کی صفائی کا بھی پوراپورا خیال رکھتی تھیں۔ چندرو ز قبل شانباگ کو نمونیہ ہوا اورپھر 18مئی کی صبح ایک جھٹکے کے ساتھ اس کی حرکت قلب بند ہوگئی۔ اسپتال کا وہ اسٹاف جو ریٹائر ہو گیا تھا اوروہ جو اس وقت خدمات انجام دے رہا، سب اس کی میت کے گرداس طرح سوگوار تھے جیسے کوئی خاندان کا فرد نہ رہا ہو۔ انہوں اس کے جنازہ کو پھولوں سے ڈھک دیاتھا۔سوہن لال کو سات سال کی سزا ہوئی۔ اس کے بعد وہ آزادہے۔

ارونا شانباگ کے ساتھ اورمجرم بالمیکی کے ساتھ جو ہوا، سوہوا، اہم بات وہ جذبہ انسانیت ہے جو فرض شناسی کے جذبہ سے بھی بڑھ گیا۔سب کومعلوم ہے کہ یہ مریض اپنے قدموں پرکھڑا ہونے والا نہیں، اس خدمت کے عوض کچھ ملنے والا بھی نہیں، مگر پھربھی خدمت کا لامتناہی سلسلہ ہے جوچاردہائیوں تک جاری رہا۔ اوراس کی گرمائی نہ جانے کب تک محسوس کی جاتی رہیگی۔

انسانیت کا یہ جذبہ کیا ہے؟ کہاں سے پیداہوتا اورانسان کو کہاں سے کہاں لے جاتا ہے؟ ہمیں بحیثیت مسلمان جائزہ لینا چاہئے ہمیں اس کا کتنا حصہ ملا ہے؟ یہ سوال رات کی تنہائی میں، صبح کی نیم تاریکی میں ، مسجدوں میں جب آپ نماز کی تیاری کررہے ہوں یا دعا کے لئے ہاتھ اٹھارہے ہوں، جب روزہ افطار کا سامان آپ کے سامنے رکھا ہو اور آپ غروب آفتا ب کی اطلاع کے منتظر ہوں، تب سوچئے ہم انسانوں پر کتنے مہربان ہیں کہ اﷲ ہم پر بہت مہربان ہو؟

کراچی میں شیطانیت
اب زرا ارونا شانباگ کی موت سے چھ روز قبل کراچی کے اس واقعہ کو یاد کیجئے جس میں شیطان صفت اسلحہ برداروں نے ایک بس میں گھس کر 16خواتین سمیت کم ازکم 50افراد کو گولیاں مارکر موت کی نیند سلادیا۔انا ﷲ وانا الیہ راجعون۔

ہمارے لئے یہ بات اہم نہیں کہ مرنے والے کس مذہب کے پیروکارتھے اور مارنے والوں کے سرپر کس مسلک کا بھوت سوار تھا۔ جو شخص اس واقعہ کی مذمت صرف اس لئے کرتا ہے مظلومین کا تعلق شیعہ فرقہ سے تھا، اورقاتل نام نہاد سنی تھے تووہ انصاف نہیں کرتا۔ ہم کہتے ہیں جو مارے گئے وہ شیعہ سنی ہونے سے پہلے انسان تھے اورقرآن نے دوٹوک الفاط میں انسان کی جان لینے کو حرام قراردیا ہے۔اس لئے جنہوں نے مسلکی تعصب میں اندھے ہوکر ظلماً بے قصورافراد کا قتل کیا، وہ دعواکسی بھی مسلک کی پیروکاری کا کرتے رہیں ، بنیادی بات یہ ہے کہ انہوں نے قرآن کے حکم کی پامالی کی۔ قرآن کی اس سے بڑھ کر بے حرمتی اورکیا ہوگی کہ وہ جس حرکت کو حرام قراردیتا ہے اس کو مسلکی اختلاف میں اندھے ہوکر اپنے اوپرحلال کرلیں؟حالانکہ قرآن ایمان والوں کو یہ تلقین کرتا ہے کہ کسی فرقہ یا گروہ کی دشمنی تم کو ناانصافی پر نہ اکسائے۔(المائدہ:۸) چنانچہ جب حق اور انصاف کی بات آئے تویہ یادرہے کہ ہمارا شیعہ، سنی، دیوبندی، بریلوی ، مقلد، غیرمقلد، وہابی ، غیروہابی وغیرہ ہونا ہمیں اس بات پر نہ اکسائے کہ ہم مظلوم کے بجائے ظالم کی تائیدکرنے لگیں۔ مسلکی اختلافا ت فروعی معاملات میں تو ہوسکتے ہیں، محکمات میں نہیں۔ انسان کی جان کی حرمت کا حکم محکمات میں ہے ۔ اس لئے اس معاملے میں مسلک آڑے نہیں آتا۔ جو احکام قرآن سے واضح ہیں ان کی خلاف ورزی وہی کرسکتا ہے جو دعوابھلے ہی ایمان کا کرتا ہو اورمگرپیروی شیطان کی کرتا ہے۔ اس لئے ہم مقتولین کے اہل خاندان کی خدمت میں تعزیت پیش کرتے ہیں اورصاحبان اقتدار کو یہ یاددلانا چاہتے ہیں کہ قرآن کا واضح حکم ہے ، قصاص میں تمہارے لئے زندگی ہے(البقرہ : 179) اورحکم دیا گیا ہے، ’اور اے ایمان والوں! تم پر مقتولوں کا بدلہ لینا فرض کیا گیا ہے۔(البقرہ: 178) قاتلوں کو تلاش کرکے کم سے کم وقت میں کیفرکردار کو پہچائیں ۔ایسا نہ ہو آپ کی سیاسی مصلحتیں آڑے آجائیں اورمظلومین مایوسی میں خود کوئی جرم کربیٹھیں۔
Syed Mansoor Agha
About the Author: Syed Mansoor Agha Read More Articles by Syed Mansoor Agha: 226 Articles with 180406 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.