رپورٹ : ذیشان انصاری، عمران
شریف
گذشتہ دنوں نیویارک ٹائمز نے ایک رپورٹ جاری کی، جس میں جعہلی ڈگریوں کے
حوالے سے ایک سافٹ وئیر کمپنی کے کالے کرتوٹ ، فراڈ کو دنیا کے سامنے لائے،
مگر بدقسمتی سے اس رپورٹ نے پوری دنیا میں ایک بار پھر پاکستان کیلئے
بدنامی کا عنصر پیداکردیا تھا، کیونکہ یہ کاروبا رپاکستان کی زمین پر بیٹھ
کر کچھ فراڈیے سرانجام دے رہے تھے، نیویارک ٹائمز لکھتا ہے کہ ایگزیکٹ
کمپنی میں 24گھنٹے سیلزایجنٹ کام کرتے اورصارفین کی جانب سے پوچھے جانے
والے سوالات کا جواب دیتے ،نہ صرف جعلی ڈگری کے حصول کے خواہش مندافراد کو
تسلی بخش جواب دیاجاتا بلکہ ایسے افرادجو حقیقی معنوں میں تعلیم کے لیے
داخلے کے خواہش مندہوتے انھیں کسی نہ کسی کورس میں داخل کرادیا جاتا،
جوکبھی مکمل نہیں ہوتا، ایگزیکٹ کی سیلزٹیم ہائی اسکول ڈپلوماسے ڈاکٹریٹ
ڈگری تک فروخت کرتی اوراس کے لیے صارفین کو 350ڈالر سے 4 ہزار ڈالرتک
اداکرنا پڑتے ،نیویارک ٹائمزکے مطابق یہ سیلزایجنٹ انگریزی لب ولہجے کے
ذریعے جعلی امریکی سرکاری عہدیدار بن جاتے تاکہ صارفین کومہنگے سرٹیفکیٹس
خریدنے پرراغب کیاجا سکے، انگریزی کے ساتھ ساتھ انھیں عربی پربھی دسترس
حاصل ہوتی،مزیدبرآں ایگزٹ والوں نے اس فراڈمیں مسکراتے امریکی پروفیسروں کی
سیکڑوں تصاویراور وڈیوزکا سہارالیاتھا، یہی نہیں بلکہ ان کی ویب سائٹس پر
ڈھیروں تصدیقی تحریریں، پرجوش وڈیوزاور جان کیری کے دستخط والے امریکی
محکمہ خارجہ کے سر ٹیفکیٹ کی نمائش کی گئی، ویب سائٹس پرموجود وڈیوزمیں
دکھائے گئے پروفیسرز حقیقت میں اداکارہوتے ، یونیورسٹی کیمپس صرف ویب سائٹ
پرتصاویر کی حدتک ہوتے، ایگزیکٹ کے جعلی ڈگریوں کے اس کاروبارپر پراکسی
انٹرنیٹ سروسزاور قوانین موجودنہ ہونے کے باعث پردہ پڑاہوا تھا، 370جعلی
ویب سائٹس کے ذریعے دنیابھر کے لوگوں کودھوکا دیاجا تارہا، کوئی بھی شخص
3سے 4لاکھ روپے میں امریکی یونیورسٹی کی جعلی ڈگری لے سکتا تھا، ایگزیکٹ
کمپنی کاعملہ اپنے کئی صارفین کوبلیک میل بھی کرتا ،ایگزیکٹ کے ملازمین کا
اکثر رویہ سابقہ کسٹمرز سے جارحانہ ہوتا اور ان پر زور دیا جاتا ہے کہ وہ
مزید خریداری کریں، کچھ تو خود کو امریکن آفیشل ظاہر کرتے اور کلائنٹس کو
خوانچہ فروش کی طرح کہتے کہ وہ اسٹیٹ ڈپارٹنمنٹ کے تصدیقی مکتوبات اور
لیٹرز پر ہزاروں ڈالر خرچ کریں جن کی ادائیگی آف شور فرموں کے ذریعے سے کی
جاتی ، وہ کسٹمرز کو دھمکاتے بھی ،
٭ایگزیکٹ کا ردعمل
دوسری جانب نیویارک ٹائمز کی رپورٹ پر پاکستان کی سب سے بڑی سافٹ ویئر کمنی
ہونے کا دعوی کرنے والی ایگزیکٹ نے اپنی ویب سائٹ پر جاری کیے گئے ردعمل
میں جعلی اسناد کے کاروبارسے لاکھوں ڈالرز ماہانہ کمانے کے الزام کو ’بے
بنیاد ‘ قرار دے،ایگزیکٹ نے الزامات پر براہ راست ردعمل ظاہر کرنے کے بجائے
مقامی حریف میڈیا گروپ پر نیویارک ٹائمز کے ساتھ مل کر اس کے بزنس کو متاثر
کرنے کا الزام لگایا،کمپنی نے اپنے ردعمل میں ڈیکلن والش پرالزام لگایا کہ
انھوں نے’ یک طرفہ کہانی‘ گھڑتے ہوئے کمپنی کا نقطہ نظر شامل نہیں
کیا،ایگزیکٹ نے نیویارک ٹائمز اور رپورٹ کے خلاف سخت قانونی چارہ جوئی کا
بھی اعلان کیا جبکہ نیویارک ٹائمز کو بھیجے جانے والے ایک قانونی نوٹس کو
بھی اپ لوڈ کیا ،اس کے ساتھ ساتھ کمپنی نے ایک مقامی بلاگنگ ویب سائٹ 'پاک
ٹی ہاؤس' کو بھی نوٹس بھیجا، جس نے سوشل میڈیا پر سنسنی پھیلا دی۔
٭فرضی امتحانی بورڈ
سوفٹ ویئر ڈیولپمنٹ کی آ ْڑمیں جعلی اسناد کا آن لائن کاروبارکرنے والی
پاکستانی کمپنی ایگزیکٹ کی جانب سے یونیورسٹی کے علاوہ اپنے فرضی امتحانی
بورڈقائم کرنے کابھی انکشاف ہوا، ان امتحانی بورڈکے تحت ہائی اسکول کے
مختلف سرٹیفکیٹ جاری کیے جاتے جبکہ کمپنی کے تحت ’’ٹائرپنکچر‘‘سمیت بے
شماردیگر ضابطوں، غیرمعروف موضوعات پر ڈپلوما، سرٹیفکیٹ اوراسناد جاری کی
جاتی، ذرائع سے معلوم ہوا ہے کہ کمپنی کی جانب سے اس سلسلے میں اندرونی
طورپر ایک سوفٹ ویئرتیار کیا گیاتھا جوکسی بھی موضوع یا عنوان پر سند
یاڈپلوما کی آنے والی ڈیمانڈ کواس کے متعلقہ کورسزبمعہ کریڈٹ آورز پوری
کرنے کی صلاحیت رکھتا ، یہ بے شمارٹائٹل ہائی اسکول سرٹیفکیٹ سے لیکرپی ایچ
ڈی ریسرچ کے موضوعات تک کااحاطہ کرتے ،کسی بھی اچھوتے یاغیر معروف موضوع کے
کورس ٹائٹل فوری طورپر تیارکیے جاتے، اس کی ’’کورس آؤٹ لائن‘‘ ڈیزائن کی
جاتی ، جس کی بنیاد پر سند یا ڈپلوما تیار کردیا جاتا،ذرائع کاکہنا ہے کہ
کسی بھی سندیا ڈپلوماکی کم سے کم قیمت 1ہزار ڈالر مختص ہوتی، ایک ہزار ڈالر
کی جاری کی جانے والی سند 2 سے 3 جی پی اے کے مساوی مارکس کی حامل ہوتی،
تاہم اگر کوئی امیدوار 3 جی پی اے سے زائدمارکس کا تقاضہ کردے توکمپنی
سندکی قیمت امیدوارکے تقاضے کے تناظر میں بڑھادیتی ، یوں جی پی اے میں
اضافے کے ساتھ ساتھ سندکی قیمت بھی بڑھتی جاتی ، ذرائع کاکہنا ہے کہ بیرون
ملک سے ایک امیدوار کی جانب سے آنے والی ڈیمانڈپر ایگزیکٹ کراچی کے دفترسے
ٹائرپنکچر کی صنعت کے ٹائٹل کی سند ،ڈپلوما تک جاری کیا تھا، ایگزیکٹ کمپنی
کے پاس سب سے زیادہ ڈیمانڈز یورپ، امریکااور کینیڈاسے آتی ہیں۔
٭ایگزیکٹ کمپنی کے شعبے
ایگزیکٹ کمپنی کے چار شعبے تھے جن میں ایک ڈیپارٹمنٹ ریسرچ کا تھا جو
یونیورسٹی کے طالب علموں کو پراجیکٹس ، اسائنمنٹس اور تیار تھیسز فراہم
کرتا ، دوسرا شعبہ آئی ٹی سافٹ ویئر کا تھا جو مبینہ طور پر چھوٹے گروپوں
کے آئیڈیاز چوری کر کے اپنے نام سے سافٹ ویئر بناتا ،تیسرا شعبہ ڈیزائن
اینڈ لوگو کا تھا جو بین الاقوامی اداروں کے لوگو اور مونوگرام ڈیزائن کرتا
، چوتھا اور سب سے منافع بخش شعبہ ایجوکیشن کا تھا،
ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ میں دنیا کی نامور یونیورسٹیوں سے ملتے جلتے ناموں کی
آن لائن ڈگریاں فراہم کی جاتی ، اس شعبے کی سالانہ آمدنی 300 ملین کے لگ
بھگ تھی ،آن لائن ڈگریوں کیلئے کنٹریکٹ میں ایسی شرائط شامل تھی جن کے باعث
ڈگری ہولڈرز ایگزیکٹ کے خلاف قانونی چارہ جوئی نہیں کرسکتے تھے اور نہ طالب
علم کنٹریکٹ میں درج کریڈٹ کارڈ ختم کرانے کے مجاز ہوتے۔
٭ایگزیکٹ کے دفاتر پر چھاپے
نیویارک ٹائمز کی رپورٹ پر ایکشن لیتے ہوئے وزیر داخلہ چوہدری نثار کے
احکامات پر ایف آئی اے کی ٹیم نے جعلی ڈگری فراڈ میں ملوث’’ایگزیکٹ‘‘ کے
کراچی اور اسلام آباد کے دفاتر پر چھاپے مار کر ایگزیکٹو باڈی کے ارکان
سمیت 45 سے زائد ملازمین کو حراست میں لیاجبکہ روات میں دونوں دفاتر سیل کر
دیے اور لیپ ٹاپ، کمپیوٹرز، فائلیں، دفتری ریکارڈ، اہم دستاویزات، ڈیٹا
اسٹوریج ڈیوائسز قبضے میں لے لی تھی،کراچی میں ایف آئی اے کی کارپوریٹ
کرائم سیل اور سائبر کرائم سیل کی2 ٹیموں نے الگ الگ ایگزیکٹ کے ہیڈکوارٹرز
پر چھاپے مارے، 2 سرور اور ریکارڈ قبضے میں لیے، ایف آئی اے حکام ایگزیکٹ
کے ملازمین کو انھی کی گاڑیوں میں بٹھا کر ساتھ لے گئے، گرفتار ملازمین میں
خواتین بھی شامل ہیں، ایگزیکٹ کے ذریعے پاکستان میں ہونیوالی ویب ہوسٹنگ کا
10 سالہ ڈیٹا اور ایگزیکٹ کی ویب سائٹ ڈیزائن کرنیوالی کمپنیوں کا بھی ڈیٹا
طلب کر لیا گیا تھا۔
٭ ثبوت کا خاتمہ شروع
رپورٹ جاری ہونے کے بعد ایگزیکٹ کمپنی نے کسی مشکل صورت حال سے بچنے کیلیے
متعلقہ ویب سائٹس سے ثبوت مٹانے شروع کر دیئے تھے ،جان کیری کے جعلی
دستخطوں کی وجہ سے امریکی اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ میں بھی کھلبلی مچنے کا امکان
تھا، امریکا کے ایک اور موقر جریدے فوک میگزین نے بھی اس خبر کو نمایاں جگہ
دیتے ہوئے اسے ایک بم شیل قرار دیا اور لکھاتھا کہ دنیا کا سب سے بڑا جعلی
ڈگری کا نیٹ ورک آخر بے نقاب ہو گیاہے،
٭ AFPکا موقف
ایگزیکٹ نامی آئی ٹی کمپنی نے پاکستان کو عالمی سطح پر بدنام کرنے میں کوئی
کسرنہیں چھوڑی کیوں کہ جعلی ڈگریوں کے معاملے پر عالمی میڈیا اور سوشل
میڈیا پر پاکستان کی جگ ہنسائی ہورہی ہے۔غیر ملکی خبر رساں ادارے اے ایف پی
کے مطابق ایگزیکٹ کمپنی جعل سازی کے زریعے صارفین کو پھنساتی تھی اور ان کو
آپریٹرز کے ذریعے جعلی ڈگریاں پہنچاتی تھی، جن پر وزیر خارجہ جان کیری کے
جعلی دستخط بھی ہوتے تھے 370 جعلی ویب سائٹس کو قبرص اور لٹویا میں سرورز
کے ذریعے آپریٹ کیا جاتا تھا۔ خبر ایجنسی کا کہنا ہے کہ اتنے بڑے پیمانے پر
دھاندلی کرنے والی کمپنی ڈپلومہ سے لے کر ڈاکٹریٹ کی ڈگریاں فروخت کرتی تھی
جب کہ نیویارک ٹائمز کی خبر کے بعد آئی ٹی کمپنی ایگزیکٹ پر تنقید اور
الزامات کی بوچھاڑ بھی شروع ہوگئی ہے۔
٭ پنجاب اسمبلی میں قرارداد جمع
پنجاب اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر اور تحریک انصاف کے رہنما میاں محمود الرشید
نے جعلی ڈگریوں کی فروخت اور دنیا بھر میں پاکستان کی بدنامی کا باعث بننے
والی آئی ٹی کمپنی ایگزیکٹ کے خلاف قرارداد جمع کرائی، قرارداد کے متن میں
کہا گیاتھا کہ ایوان ایگزیکٹ کمپنی کا اسکینڈل منظرعام پرآنے پر تشویش کا
اظہار کرتا ہے جب کہ ایگزیکٹ کے غیرقانونی اقدامات پاکستان کے لئے شرمندگی
کا باعث بنے جس سے دنیا بھر میں ملک کی بدنامی ہوئی، قرارداد میں وفاقی
حکومت سے درخواست کی گئی ہے کہ ایگزیکٹ کمپنی کے ذمہ داروں کے خلاف قانونی
اقدامات کئے جائیں۔
٭متحدہ قومی موومنٹ کے قائد الطاف حسین کا موقف
لندن سے جاری بیان میں متحدہ قومی موومنٹ کے قائد الطاف حسین نے کہا کہ
امریکی اخبار نے دماغ کے پرخچے اڑا دینے والا انکشاف کیاہے جب کہ پاکستان
کے انتہائی حساس ترین اداروں کی اتنے بڑے اور گھناؤنے فراڈ سے لا علمی نہ
صرف افسوسناک ہے بلکہ تمام محب وطن پاکستانیوں کے لیے لمحہ فکریہ ہے، انہوں
نے کہا کہ ایگزیکٹ سے متعلق امریکی اخبار کی رپورٹ اگر حقائق پر مبنی ہے تو
یہ کہنا درست ہوگا کہ اس کمپنی نے یہ گھناؤنا عمل کرکے پاکستان میں رہ کر
اسے ہی نقصان پہنچانے اور ملک سے غداری کا عمل کیا ہے۔
٭ ٹیکس
ایف بی آر کے ریکارڈ کے مطابق ایگزیکٹ کمپنی کے چیف ایگزیکٹو شعیب شیخ نے
13-2012 میں صرف 22 روپے اور 14-2013 میں صرف 26 روپے ٹیکس دیا،ایگزیکٹ
کمپنی نے 2014 میں 18 لاکھ، 90 ہزار روپے انکم ٹیکس دیا جب کہ اپریل 2013
میں 2کمپنیاں بول نیوز اور بول انٹرپرائزز کے نام سے رجسڑ کرائی گئیں، ان
دونوں کمپنیوں کے بورڈ آف ڈائریکٹرز میں 5،5 ڈائریکٹر ہیں، ذرائع کا کہنا
ہے کہ ایگزیکٹ نے رجسٹریشن کے وقت ایس ای سی پی کو 3 بزنس آئی ٹی ڈیولپمنٹ،
کال سینٹرز اور آئی ٹی امپورٹ ایکسپورٹ بتائے۔ |