چینی قیادت کا عظیم کارنامہ
(Sardar Attique Ahmed Khan, Azad Kashmir)
ہر خاص و عام کے علم میں ہے کہ
براعظم ایشیاء کی تقدیر کو جنوب ایشائی معاملات سے باآسانی الگ نہیں کیا جا
سکتا۔ جنوبی ایشاء میں ایک کروڑ ساٹھ لاکھ انسانوں کے حق خودارادیت کا حل
طلب مسئلہ جب تک موجود ہے اس خطے میں امن کی خواہش دیوانے کے خواب سے بڑھ
کر کچھ نہیں ۔
ہندوستان نے سوویت یونین کی موجودگی تک مغربی دنیا کو اس تعلق کے ذریعے
بلیک میل کیا اور اب ساری دنیا کو چین کا خوف دلا کر اپنے مفادات کے حصول
کی دوڑ شروع کر دی ہے ۔ خطے کے ایک بڑے ملک کی حیثیت سے ہندوستان کے حق کو
کوئی بھی نظر انداز نہیں کرنا چاہیے گا لیکن ہندوستان کی یہ خواہش کہ اپنے
ارد گرد کے تمام ممالک کی قیمت پر اپنی طاقت حجم اور پھیلاؤ میں اضافہ کر
کے اپنے آپ کو چین پر حاوی کر لے اور ایشیائی قیادت کے منصب پر اکیلا قابض
ہو جائے ،دور دور تک پوری ہوتی دکھائی نہیں دیتی ۔
ہندوستان نے سارک کے فورم کو بھی اپنے مخصوص مقاصد کے لیے استعمال کیا ۔
غیر وابستہ ممالک کی تنظیم (NAM) کو بھی اپنے ایجنڈے کی تکمیل کا ذریعہ
بنانا چاہا ۔ ہندوستان کے مسلمانوں کو گاجر مولی کی طرح کاٹ کاٹ کر بابری
مسجد کو شہید کر کے سیاسی ، سماجی فورم پر ہندوستانی مسلمانوں کو نمائندگی
سے محروم کرنے کے باوجود OICاور ICمیں مبصر بننے کی خواہش لے کر اس پلیٹ
فارم کو بھی اپنے مقاصد کے لیے استعمال کی کوشش بھی سب کے سامنے ہے ۔
80کی دہائی میں صدر آزاد کشمیر کی حیثیت سے سردار محمد عبدالقیوم خان نے اس
کا بار ہا اظہا کیا کہ چین کی موجودگی کے بغیر سارک فورم نا مکمل ہے ۔
غالباًاس طرح کی کوئی باقاعدہ تجویز پہلی بار سامنے آئی تھی ۔ اس عرصے میں
مسلم کانفرنس یوتھ ونگ کے چیئرمین کی حیثیت سے اس موضوع پر میرے چند آرٹیکل
بھی ریکارڈ پرہیں ۔ فیلڈ مارشل کے زمانے میں چواِن لائی کے دورہ پاکستان کے
دوران سردار محمد عبدالقیوم خان نے ایک وفد کے ہمراہ چینی راہنما سے ملاقات
کر کے انہیں مسلم کانفرنس کے موقف سے باضابطہ آگاہ کیا تھا۔
پاکستانی حکومتوں کی کمزور خارجہ پالیسی کے باعث کشمیری قیادت کو چین سے
ہمیشہ دور رکھا گیا ۔ مجھے یوتھ کے نوجوانوں کے ایک وفدکے ساتھ 1986میں چین
کا چند روزہ دورہ کرنے کا موقع ملا۔ غالباً اپنی نوعیت کی منفردبات تھی ۔
فیلڈ مارشل ایوب خان کے زمانے میں دورہ پاکستان کے بعد شیخ محمد عبداﷲ کو
چینی سفیر سے خفیہ ملاقات کے الزام میں گرفتار کیا گیا تھا۔
راقم کا دوبارہ چین جانے کا پروگرام بنا لیکن اتفاق سے وہ دورہ نب نہ سکا۔
جنرل ضیاء الحق صاحب اپنے آخری دنوں میں چین کے سفر پر تیار تھے اُس وفد
میں مجاہد اول سردار محمد عبدالقیوم خان اور میں خود بھی اُس وفد میں شامل
تھے ۔ یہ اُس روز کی بات ہے جب جونیجو صاحب غیر ملکی دورے سے واپس آ رہے
تھے رات کو انھوں نے پہنچا تھا۔ اگلی صبح سات بجے بیجنگ کے لیے جنرل ضیاء
الحق صاحب کی فلائٹ تھی ۔ اُس دورے پر بھی میں شامل تھا لیکن ہوا یوں کہ
محمد خان جونیجو کے پاکستان پہنچنے کے چند گھنٹے بعد حکومت ٹوٹ گئی
اسمبلیاں Dissolveہو گئی۔ جس کی وجہ سے جنرل ضیاء الحق صاحب کا دورہ منسوخ
ہو گیا۔ اُس دورے کے دوران اگر جانے کا موقع ملتا اور مجاہد اول کو پاکستان
میں ہونے والی چوان لائی کے ساتھ ملاقات کے بعد پہلی بار چین جا کر چینی
قیادت سے ملنے اور بات کرنے کا موقع ملتا لیکن پاکستان میں سیاسی تبدیلیوں
کی وجہ سے وہ دورہ پایہ تکمیل تک نہ پہنچ سکا۔ اس موقع کی مناسبت سے مجھے
یہ بات خیال میں رہتی ہے کہ چین کا سیکیورٹی کونسل کا ممبر کی حیثیت سے ،
چین کا اقوام متحدہ کی قراردادوں کے حوالے سے چین کا اس خطے میں اہم کردار
ہے اورچینی قوم جو عدم پھیلاؤ کی پالیسی پر گامزن ہیں self-contendedہیں جس
کی وجہ سے چین کی مستقبل کے لیے طویل منصوبہ بندی میں جھانکنا ممکن نہیں ۔اُس
کے مقابلے میں ہندوستان کوئی ایسا موقع ضائع نہیں کرتا جس کے نتیجے میں وہ
اُس کے پھیلاؤ کی پالیسی اوراُس کے توسیع پسندانہ عزائم چھپ سکیں۔ ظاہر ہے
اس سارے عمل میں کشمیر راستے کا ایک بھاری پتھر ہے ۔اورپاکستان کو اپنے
راستے کی رکاوٹ سمجھتا ہے ۔یہی وجہ ہے کہ ہندوستان نے آج تک دل سے پاکستان
کو قبول ہی نہیں کیا۔
ہندوستان کی قیادت نے تاوقت ماضی میں جب اٹل بہاری واجپائی جب پاکستان کے
دورے پر آئے اور وہ مینار پاکستان پر گئے جہاں تقسیم ہند کی قرارداد منظور
ہوئی تھی اور وہ غالباً پہلا موقع تھاکہ ہندوستان کی قیادت کی طرف سے آزدی
ہنداور قیام پاکستان پر کوئی مثبت اشارہ دیا۔ اُس کے بعد اُن کے اقدامات
کیاتھے ،عمل کیا تھا، وہ دوسری بات ہے لیکن نواز شریف صاحب کی دعوت پر اٹل
بہاری واجپائی کا لاہور آنا وہ قیام پاکستان کے بعد پہلاموقع تھا کہ انتہا
پسند ہندو قیادت نے اپنے رویے میں تھوڑی سی لچک پیدا کی۔
وہ قائداعظم کے مزار پر بھی جا سکتے تھے، علامہ اقبال کے مزار پر بھی جا
سکتے تھے لیکن انھوں نے خود اس خواہش کا اظہار کر کے مینار پاکستان پر آئے
اور اس بات کا ثبوت مہیا کیا کہ وہ ہندوستان کی تقسیم کو پاکستان کی آزادی
کے ساتھ Reconcileکرنا چاہتے ہیں ۔اگرچہ اُن کے انتہا پسند پالیسی سازوں کا
پاکستان کے خلاف رویے میں کوئی مثبت تبدیلی سامنے نہیں آئی ۔ اور اس طرح
آنے والے وقت میں نریندر مودی صاحب کا رویہ تو لوگ دیکھ ہی رہے ہیں ۔ اس
ساری تفصیل کا مقصد یہ بتا نا ہے کہ ہندوستان کی خواہشات ڈھکی چھپی نہیں
ہیں ۔بلکہ خود پاکستانی سیاست پر ہندوستانی چھاپ بہت نمایاں ہے ۔
شہید محترمہ بینظیر بھٹو کے دور میں راجیو گاندھی جب پاکستان آئے تو کشمیر
ہاؤس کے بورڈز اسلام آباد سے اُتار دیئے گئے ، شاہراہ کشمیر کے بورڈز اُتار
دئیے گئے تا کہ ہندوستانی وزیر اعظم اور اُن کے وفد کے کسی رُکن کی کہیں
لفظ کشمیر پر نظر نہ پڑے اور اُن کے مزاج کو کوئی بات ناگوار نہ گزرے ۔اتنی
باریک باتوں کا بھی خود پاکستان کی سر زمین پر اہتمام کیا گیا کہ خاص طور
پر کشمیر کے حوالے سیہندوستان کے مزاج کے خلاف کوئی بات نہ کی جائے ۔اُس کے
بعد کے واقعات نے ثابت کیا کہ جنرل پرویز مشرف نے آگرہ میں کھڑے ہو کر پاک
ہند تعلقات کے لیے جموں و کشمیر کو اہم ترین قرار دیا۔
باقی ان شاء اﷲ آئندہ جمعہ |
|