چینی قیادت کا عظیم کارنامہ - 2
(Sardar Attique Ahmed Khan, Azad Kashmir)
سردار عتیق احمد خان صدرآل جموں
و کشمیر مسلم کانفرنس و سابق وزیر اعظم آزاد حکومت ریاست جموں و کشمیر۔
مسئلہ کشمیر اور پاکستانی قیادت کے حوالے سے گزشتہ کالم میں کچھ باتوں کا
ذکر ہو چکا ہے ۔ہر کالم ہر تفصیل کا متحمل نہیں ہوتا تا ہم اس بات سے بہت
دُکھ ہوتا ہے کہ کئی بہت اچھے مواقعے ہم اپنی نا اہلی کے باعث گنوا دیتے
ہیں ۔ حکومت پاکستان کشمیری قیادت کو اعتماد میں لے کر خود منظر سے پیچھے
ہٹ کر بھی مسئلہ کشمیر پر بہت کام کر سکتی ہے بشرطیکہ نیت اور ارادہ درست
ہو۔ محترمہ بے نظیر بھٹو کی حکومت میں ہندوستانی وزیر اعظم راجیو گاندھی کے
دورہ پاکستان کے دوران مسئلہ کشمیر کے ساتھ جس بے حسی بلکہ بد سلوکی کا
مظاہرہ کیا گیا وہ آنے والی نسلوں تک کے لیے انتہائی شرمندگی کا باعث ہے ۔
مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ اُس وقت کے وزیر داخلہ چوہدری اعتزاز احسن صاحب کے
ساتھ ایک منتازعہ شخص مرحوم ارشاد احمد اور اپنے ایک مہربان دوست اسلم زار
ایڈووکیٹ (سابق جنرل سیکرٹری سپریم کورٹ بار)کے ہمراہ رات کومیں نے خامو شی
سے مل کرصرف یہ کوشش کی کہ وزارت داخلہ کے اطمینان کے بعد اور ہماری ذمہ
داری پر کچھ کارکنان کو راجیو گاندھی کی آمد کے موقع پر کشمیر کی حمایت میں
ہاتھوں میں کتبے لے کر پرامن احتجاج کی اجازت دی جائے لیکن یہ بھی کسی صورت
ممکن نہ ہوا ۔ عجیب اتفاق ہے کہ یہ واقعہ بھی اُسی دور کا ہے جب یہ خبر غلط
تھی یا صحیح لیکن ہر خاص و عام کے علم میں تھی کہ پاکستان کی وزارت داخلہ
نے خالصتان تحریک کے کچھ نوجوانوں کی فہرستیں ہندوستان کے سپرد کیں جس کے
نتیجے میں اُن سب کو اپنی جوان جانوں سے ہاتھ دھونے پڑے۔
ان باتوں کا ذکر کرنے کا مطلب یہ ہے کہ پاکستان کی سیاست اور قیادت پر بعض
اوقات کتنا دباؤ ہوتا ہے کہ پاکستان کے اندر بیٹھ کر بھی ہندوستان کے خلاف
بات کرنے کی جرأت نہیں ہو پاتی ۔ جنرل ضیاء الحق نے کرکٹ ڈپلومیسی اور دورہ
اجمیر شریف کے دوران راجیو گاندھی سے جو کہا وہ ہندوستان کے ایک سابق مشیر
دفاع کی زبان سے ہندوستانی میڈیا پر ریکارڈ پر آچکا ہے ۔ جنرل ضیاء الحق نے
راجیو سے کہا کہ ’’میرا مشورہ ہے کہ آپ پاکستان پر حملہ نہ کریں اور
راجستان سیکٹر سے اپنی فوجیں واپس بلوا لیں ۔ آپ ایک بڑا ملک اور بڑی فوج
ضرور ہیں اور ہو سکتا ہے کہ خدانخواستہ آپ پاکستان کو راستے سے ہٹانے میں
کامیاب بھی ہو جائیں تا ہم یہ مت بھولیں کہ پاکستان کے علاوہ بھی دنیا میں
چھپن مسلمان ریاست موجود ہیں ۔ جب کہ ہندوستان ساری دنیا میں واحد ہندو
ریاست ہے جسے پاکستان پر حملے کی صورت میں دنیا سے مٹائے جانے کا پورا
امکان موجود ہے ‘‘۔
ماضی قریب میں اﷲ تعالیٰ نے جنرل پرویز مشرف کو اس بات کی توفیق دی کہ وہ
آگرہ ہندوستان میں کھڑے ہو کر کشمیر کا پرچم بلند کریں اور مقبوضہ جموں و
کشمیر سے حریت کانفرنس کی قیادت کو کئی مرتبہ پاکستان کے دورے پر دعوت دے
کر بلوائیں ۔ پاکستان کی جمہوری حکومتوں نے بالعموم اور میثاق جمہوریت کے
گزشتہ کئی سالوں میں بالخصوص آصف علی زرداری اور میاں محمد نواز شریف اس
توفیق سے مکمل طور پر محروم رہے ہیں کہ کشمیری قیادت کو اپنے ہاں بلوا سکیں۔
میاں نواز شریف صاحب نے اس سال 5/فروری کو دورہ مظفرآباد کے دوران کھل کر
مسئلہ کشمیر پر حوصلہ افزاء بات کر کے ایک امید دلوائی تھی لیکن صد افسوس
کہ وہ تقریر بھی آ بلہ بر آب ثابت ہوئی ۔ ستم بالائے ستم کہ چینی قیادت کا
مسئلہ کشمیر پر دو ٹوک اور واضح موقف جاننے کے باوجود حکومت پاکستان نے
چینی قیادت کے حالیہ دورہ کے دوران پھر ایک بار مسئلہ کشمیر کو نظر انداز
کر دیا ۔ چینی قیادت کے کامیاب دورہ پاکستان کے اثرات وقت کے ساتھ ساتھ
سامنے آئیں گے تا ہم ہندوستانی ردِ عمل نے اس دورے کی اہمیت اور افادیت کو
ہر خاص و عام پر بہت واضح کر دیا ہے ۔ بلوچستان پر منڈلاتے ہوئے خطرات اور
گوادر پورٹ کے غیر یقینی مستقبل کوچینی قیادت کے دورہ پاکستان نے بہت محفوظ
اور مستحکم کر دیا ہے ۔ چین کی جانب سے ملنے والے اربوں ڈالر میں سے سڑکوں
اور پُلوں کے نام پر کتنے ارب میثاق جمہوریت کی نظر ہو گئے یہ تو آنے والا
وقت بتائے گا تا ہم چینی قیادت نے اپنے طرزِ عمل سے بالواسطہ پاکستانی
قائدین پر واضح کر دیا ہے کہ عوامی جمہوریہ چین نہ صرف اپنی ذمہ داریوں سے
غفلت نہیں برتے گا بلکہ پاکستانی قیادت کی نالائقیوں اور نا اہلیوں کی کمی
بھی ساتھ ساتھ پوری کرے گا ۔ مجھے براہ راست اس کا کوئی علم نہیں لیکن غالب
گمان ہے کہ چین کے اس رویے کے تعین اور اظہار میں پاکستانی فوجی قیادت کا
ماضی قریب کا رویہ اور اقدامات بنیادی حیثیت کے حامل ہیں۔
جنرل راحیل شریف کا پورے اعتماد کے ساتھ کشمیر کو پاکستان کی شہ رگ کہنے کے
بعد چینی وزیر خارجہ کا پاکستانی جی ایچ کیو کا دورہ کشمیر کے ساتھ ساتھ
خطے میں دیگر مشترکہ مفادات کی دفاعی پالیسیز اور اُن پر مشترکہ کردار کی
جانب ایک واضح اشارہ بلکہ پیغام ہے۔ حکومت پاکستان چینی قیادت کے دورہ کے
دوران مسئلہ کشمیر پر کم از کم یہ کر سکتی تھی کہ کشمیری سیاست کاروں اور
حریت کانفرنس کے نمائندگان پر مشتمل ایک وفد کی ملاقات کروا دیتی اور خود
وزارت خارجہ بے شک مسئلہ کشمیر پر مکمل خاموشی اختیار کیے رکھتی لیکن چونکہ
کشمیر میثاق جمہوریت کی ترجیحات میں شامل نہیں ہے اس لیے اس کا دور دور تک
کوئی ذکر بھی دکھائی نہیں دیا۔ نریندرمودی کی حکومت سرحد پر بلا اشتعال
فائرنگ ، غلطی سے سرحد پار کرنے والے فوجیوں کا قتل عام اور پاکستان کے گلی
کوچوں میں راء کے ذریعے تخریب کاری اور دہشت گردی سے اطمینان نہ پا کر پاک
چین تعلقات میں اضافے کے اثرات سے خوفزدہ ہو کر خود چین کے دورہ پر جا
پہنچے ۔
بلا شبہ نریندر مودی نے قائدانہ صلاحیت کا مظاہرہ کرتے ہوئے یہ پہل قدمی کی
کہ اگر عملاً ممکن نہ بھی ہو تب بھی نفسیاتی اعتبار سے اُن کے دورہ چین کے
ذریعے ہند چین تعلقات میں کشیدگی کے تاثر کو زائل کیا جائے ۔یہ بات پہلے سے
معلوم ہے کہ ماہرین اس صدی کو چائنہ انڈیا صدی (Chinda)کے نام سے موصوم
کرتے ہیں۔ ہندوستان مغربی دنیا میں چین مخالف قوتوں کے ساتھ مل کر دفاعی
اور اقتصادی میدان میں جلد از جلد چین کی ہم پلہ ہونے کا خواہشمند ہے بلکہ
چین کے گرد گھیراؤ کی پالیسیوں میں اولین مدد گار کی حیثیت اختیار کرنا
چاہتا ہے ۔
اس ضمن میں ہندوستان کا کوئی ایک خواب بھی دور دور تک پورا ہوتا دکھائی
نہیں دیتا ۔ گزشتہ سال لداخ میں چینی فوج کی چند میل کی پیش قدمی پر
ہندوستان سراپا احتجاج بن بیٹھا تھا جس پر کان دھرنے کے بجائے عوامی
جمہوریہ چین کی بہادر افواج نے مزید کئی میل پیش قدمی کی ، چینی پرچم
لہرایااور پکے مورچے تعیر کر دئیے اور وہ صورتحال آج تک قائم ہے ۔ مسئلہ
کشمیر کے حوالے سے ماضی میں چین کا موقف یہ رہا ہے کہ وہ اقوام متحدہ کی
قراردادون پر پاکستان کے موقف کا بھر پور حامی ہے لیکن حالیہ دور میں
پاکستانی قیادت کو روبہ زوال اور مسلسل پسپا ہوتے دیکھ کر چین نے مسئلہ
کشمیر پر زیادہ واضح پوزیشن لینا شروع کی ہے ۔ کچھ عرصہ پہلے چین نے مقبوضہ
کشمیر کے طلبہ کو ہندوستانی پاسپورٹ کے بجائے سفید کاغذ پر چینی ویزہ دے کر
اپنے موقف کا اظہار کیا۔ ہندوستانی وزیر اعظم کے حالیہ دورہ کے دوران چینی
قیادت نے وہ کارنامہ سر انجام دیا جو پاکستان میں آج تک کسی بھی سیاسی
قیادت کے حصے میں نہیں آیا۔ نریندر مودی کے دورہ چین کے دوران چین کے
سرکاری ٹیلی ویژن نے بار بار ہندوستان کا جو نقشہ دکھایا اُس میں ریاست
جموں وکشمیر کا کوئی حصہ شامل نہیں تھا۔ گویا کہ کچھ کہے بغیر چینی قیادت
نے کشمیر پر ہندوستانی قبضے اور کشمیر کے اٹوٹ انگ ہونے کے ہندوستانی دعوے
کو یکسر مسترد کر دیا ۔ چین ہند تعلقات میں 22ارب ڈالر کا معاہدہ اونٹ کے
منہ میں زیرے کی حیثیت بھی نہیں رکھتا لیکن اپنے ٹیلی ویژن کے ذریعے چین نے
ہندوستان کو کشمیر سے پیچھے ہٹنے کا مشورہ بھی دے دیا ، ہندوستانی قبضے کو
نا قابل قبول عمل میں قرار دے دیا اور یہ ابہام بھی دور کر دیا کہ جموں و
کشمیر پر فوجی قبضے کی موجودگی میں ہندوستان کا سیکیورٹی کونسل کا مستقل
ممبر بننے کا خواب کبھی بھی چین کے سر کے اوپر سے گزر کر پورا نہیں ہو سکتا۔
نہ صرف ریاست جموں و کشمیر بلکہ چین کے سرکاری ٹیلی ویژن نے ارونا چل پردیش
کو بھی ہندوستان کے نقشے سے باہر کر دکھایا ۔ اس عمل سے چین نے خطے میں
اپنی موجودگی اور اپنے سیاسی عزائم کا جو اظہار کیا ہے اُس پر جموں وکشمیر
کے ایک کروڑ ساٹھ لاکھ کشمیر مرد و زن چینی قیادت کے دل کی گہرائیوں سے
ممنون ہیں۔ چین کے اس طرزِ عمل نے ہندوستانی مظالم میں گھرے اور پسے ہوئے
کشمیریوں کو ایک نئی زندگی دے دی ہے ۔ چین کے اس طرز عمل نے ایک خاموش مگر
واضح پیغام یہ بھی موجود ہے کہ چینی قیادت اور پاکستان کی عسکری قیادت میں
اہم علاقائی اور بین الاقوامی امور میں بہت ہم آہنگی موجود ہے ۔ سیاسی
قیادت کو بھی چاہیے ان واضح اشاروں کو سمجھیں ۔ قوموں کی زندگی میں اقتصادی
بہتری بھی یقینا اہم ہے لیکن عراق ، لیبیااور معاشی طور پر خوشحال دیگر کئی
ممالک کو اپنے وجود کو برقرار رکھنے کے لیے صرف معیشت ہی کام نہیں آ سکی
بلکہ مضبوط اور طاقتور دفاعی نظام کے بغیر موجودہ دور میں کسی بھی صورت
داخلی اور خارجی خطرات کا راستہ نہیں روکا جا سکتا۔ مضبوط سے مضبوط تر
دفاعی صلاحیت کا حصول ہماری اولین ترجیح ہونی چاہیے ۔ چینی قیادت کے اس
مثالی کردار اور عظیم تاریخی کارنامے کا ذکر کرتے ہوئے بے ساختہ کہنا پڑتا
ہے کہ ’’پاک چین کشمیر دوستی زندہ باد‘‘۔ اﷲ کو منظور ہوا تو اگلے کالم میں
Axactکے CEOشعیب شیخ کے خلاف ہونے والی سازش اور انتظامیہ کی پھرتیوں پر
گزارشات کی جائیں گی۔ |
|