بیگم ذرا جلدی کرو یونیور سٹی
جانے کے لئے تا خیر ہو رہی ہے۔آج کسی بھی حال میں جلدی پہنچنا ہے۔ کر رہی
ہوں․․ کر رہی ہوں․․(بیگم نے کہا)ارے صفیہ کھانے کا ڈبہ لاؤ․․ابھی لائی امی۔
یہ بھی نا روز صبح پانچ بجے اٹھ تو جاتے ہیں لیکن نماز کے بعد باغیچے میں
اپنے دوستوں کے ساتھ گپّیں مارنے سے باز آئیں تب نا!!خود تاخیر کر تے ہیں
اور عین وقت پر میرا جی کھاتے ہیں(بیگم نے بڑ بڑا تے ہوئے بوکہا)۔
آپ نے کچھ کہا بیگم؟ نہیں نہیں میں نے کچھ نہیں کہا․․․مجھے لگا آپ میری
برائی کر رہی ہیں(بیگم کی چُٹکی لیتے ہوئے)۔ لا حول ولا قوّۃجی! میں تو آپ
کی تعریف کر رہی تھی،کہ روز صبح جلدی اٹھ جاتے ہیں۔اپنے دوستوں کو کتنا
عزیز رکھتے ہیں۔باہر کے کھانے سے بچنے کے لئے گھر سے کھانا ساتھ لیجاتے
ہیں(بیگم نے طنزیہ انداز میں کہا)۔ اچھا․․․․اچھا․․․․۔ صفیہ بیٹا ذرا میری
چھڑی تو لانا۔ کتنی بار کہا ہے ابّومجھے بیٹا مت کہا کیجئے میں آپ کا بیٹا
نہیں بیٹی ہوں(صفیہ نے معصومیت کے ساتھ کہا)۔ارے کہا تو کیا ہوا؟میری بیٹی
کوئی بیٹے سے کم تھوڑی ہی ہے۔(با پ نے مشفقانہ انداز میں کہا)۔
ذرا جلدی کرو بیگم ورنہ کل کی طرح بس چھوٹ گئی تو پیدل جانا پڑیگا۔یہ لیجئے
آپ کا ٹفن تیار ہے۔آآ․․․شکریہ شکریہ،واقعی بیگم اگر آپ نہ ہوتیں تو میری
زندگی اس سے زیا دہ خو شحال ہوتی۔ کیا․․؟ کیا․․؟ کیا کہا آپ نے؟ ۔ ارے ارے
میں تو مزاق کر رہا تھابیگم۔میں تو یہ کہنا چاہ رہا تھاکہ آپ کے بغبر میری
زندگی ایسی ہوتی جیسے ام م م م(آسمان کی طرف دیکھتے ہو ئے)،جیسے بنا خوشبو
کے پھول،جیسے بنا روشنی کے چاندجیسے بنا نگینے کی انگو ٹھی․․بس بس․․بہت لگا
لئے مکّھن جایئے ورنہ آج بھی پید ل جانا پڑیگا۔
صفدر صاحب چھڑی ہلاتے موسم کا مزا لیتے ہوئے بس اسٹو پ پر پہنچتے ہیں۔بس
میں بیٹھنے کے بعد موسمِ شِتاء کی مستیوں سے لطف اندرز ہوتے ہوئے، ٹھنڈی
ٹھنڈی ہواؤں کو جسم میں جذب کرتے ہوئے،بس کی کھڑ کی سے سر نکال کر سورج کی
ہلکی کرنوں سے اپنے چہرے کو سینکتے ہوتے ہوئے،ساتھ ہی شہر کی گاڑیوں کے
دھوؤں سے بچ بچا تے ہوئے اور دنیا بھر کی سیٹیوں سے بیزار ہوتے ہوئے آخر کا
ر منزلِ مقصود کو پہنچ ہی جاتے ہیں۔
آج ماسٹر صاحب کا سبق پڑھا نے کا ارادہ نہیں تھا اس لئے جب گھر سے نکلتے
وقت صفیہ نے ناول ’’ابن الوقت‘‘ دیا توکہنے لگے رہنے دو بیٹی آج تو زبانی
ہی وقت کی اہمیت اوروقت گزارنے کے طریقے پر گفتگو کر لونگا۔
کلاس کی طرف جاتے ہوئے خادم سے: کیا بات ہے ’’مجید‘‘(اٹینڈر ہے) آج بہت
جلدی آ گئے؟ سَر میں تو ہر روز کی طرح وقت پر ہی آیا ہوں۔لیکن لگتاہے آج آپ
بھی وقت پر آئے ہیں(مجید نے کہا)۔کیا؟؟ میں وقت پرآیا ہوں ؟یقین نہیں ہو
رہا ہے( صفدر صاحب نے تعجب سے کہا)۔سچ پوچھو تو ’’مجید‘‘ ہم ہر دن وقت پر آ
جائیں لیکن وہ کم بخت کنڈیکٹر ٹکٹ دینے میں اتنا وقت صرف کر دیتاہے کہ اتنی
دیر میں توہمارے چچا ’’چھگّن،، کی بھیسیا پھسلانے وُسلانے سے دودھ دینے کو
راضی ہو جاتی ہے۔
اچھا چھو ڑیئے میں جا رہا ہوں طلباء درسگاہ میں آگئے ہونگے․․․․․،وہ توآدھے
گھنٹے سے بیٹھے ہیں(مجید نے کہا)۔ مطلب میں آدھا گھنٹہ تاخیر سے پہو نچا
ہوں؟نہیں صاحب آپ تو وقت پر آ گئے تھے لیکن آپ نے رودادِ سفرِبس سنانے میں
آدھا گھنٹہ صرَف کردیا۔کیا؟؟لا حول ولا قوۃ آج میں وقت کی اہمیت پر سبق
پڑھانے والا ہوں اور خود ہی وقت ضائع کر نے میں لگ گیا۔صفدر صاحب جلدی جلدی
کلاس روم کی طرف جاتے ہیں۔
کلاس میں داخل ہو تے ہی تمام طلباء نے’’صبا ح الخیر،، کہا۔صباح الخیر صباح
الخیر․․․(صفدر صاحب نے کہا)․تو آج آپ لوگوں کو کیا پڑھنا ہے؟سر آج آپ ’’ابن
الوقت ،، ناول پر گفتگوکر نے والے تھے۔اچھا․․․اچھا․․․ایک کام کرتے ہیں پہلے
ہم وقت کی اہمیت اور وقت گزاری پر گفتگو کر لیتے ہیں ۔ٹھیک ہے؟اسکے بعد
ناول پر بات کرینگے کیا خیال ہے آپ لوگوں کا؟طلبا نے ہاں میں سر ہلاتے ہوئے
کہاٹھیک ہے سر۔ تو میں وقت کی اہمیت بتانے کے لئے آپ کو ایک قصہ سناتا ہوں۔
غور سے سننا۔(صفدر صاحب نے کہا)۔
واقعہ یہ ہے کہ:تین دوست ملک سے باہر تفریح کی غرض سے نکلے۔افریقہ جانے کے
بعد جس ہو ٹل میں وہ مقیم ہوئے اسکی اونچائی پچہتّرمنزلہ تھی،اور اس ہوٹل
کے قاعدے وقانون عجیب و غریب تھے،یعنی ایسے قانون تھے جو عام طور پر ہوٹلوں
کے بجائے ہوسٹلوں میں رہا کرتے ہیں۔تمام شرطوں میں جو سب سے مشکل شرط تھی
وہ دس بجے سے پہلے ہوٹل واپس ہونا چونکہ اگر کوئی دس بجے کے بعد آتاہے تو
اسے اپنے روم تک کا سفر سیڑھیوں کے ذریعہ طے کرنا پڑ تا تھا۔اب تینوں
دوستوں کی بد قسمتی یہ ہوئی کہ انکو کمرہ پچہتّرویں منزل پر ملا۔ہوٹل کے
کار کن نے(انگریزی میں) یہ بھی کہاکہ لِفٹ کی چابی منیجر گھر لیجاتا ہے اس
لئے آپ سے مؤدبانہ گزارش ہے کہ وقت پرآجائیں ورنہ بہتر وقت کے آنے کے
انتظار میں پوری رات یہیں پر گزار لیں۔
روم کرایے پر لینے کی ساری کاروائی کرنے کے بعد اپنے روم میں داخل ہوئے
فریش ہونے تک کھانا آجاتا ہے،چونکہ دن بھر کے سفر کے بعد مزید جاگنے کی ہمت
نہیں رہ جاتی ہے اس لئے کھانا کھا کر تینوں فوراً سو جاتے ہیں۔دوسرے دن صبح
سویرے چھے بجے اٹھ جاتے ہیں۔کھڑ کی سے باہرکچھ نظر نہیں آ رہاتھا چونکہ
ٹھنڈی اپنے زورو ں پر تھی اور عمارت کے بلند ہو نے کی وجہ سے ارد گردبھی
کچھ نہیں دکھائی دے رہا تھا۔چہار سمت دھواں ہی دھواں نظر آ رہا تھا۔ناشتے
سے تو دس بجے سے پہلے فارغ ہو چکے تھے لیکن جس کاروالے کو اجارے پر لیا تھا
وہ اب تک غائب تھا۔بارہ بجے کے قریب آیا تو سوال کرنے پر بتایاکہ آج ٹھنڈی
کامیٹر ہائی ہو نے کی وجہ سے سڑکوں پر گاڑی چلانا خطرناک ثابت ہو سکتا تھا
اس لئے میں آرام آرام سے آ رہاتھا․․۔
ٹھیک ہے ․․․․ٹھیک ہے․․․․۔(روہان نے کہا)
رفیق نے کہا: میرے پیاروں جلدی کرو اگراور تاخیر ہوگی تو رات میں قبل از
رقت لوٹنا مشکل ہو جائیگا۔روہان تونے سارا سامان رکھ لیا ہے نا؟ہاں رکھ لیا
ہے۔ چلو اب نکلتے ہیں۔دن بھر سیر وتفریح کر کے پیرا ماؤنٹ میں رات کا کھانا
کھا کر وقت پر ہو ٹل پہو نچ گئے۔
دن بھر پیدل چلنے اور پہاڑیوں پر چڑھنے اترنے کی وجہ سے تینوں بہت زیادہ
تھک گئے تھے۔روم میں داخل ہوتے ہی تینوں بستر پر پڑ گئے’’روہان،، ’’رفیق،،
تو تھکان سے چور ہو نے کی وجہ سے لیٹتے ہی سو گئے لیکن’’سیف،، کو ابھی نیند
نہیں آ رہی تھی پہلے تو چھت میں لگے ہوئے مصنوعی چاند ستاروں کی طرف دیکھتے
ہوئے کافی دیر تک کھویا رہا پھر دن بھر کی روداد اس بات سے انجان ہو کر کہ
دونوں گھوڑے بیچ کر سو چکے ہیں سنانے لگا ۔ارے ’’روہان،، وہ جھیل کتنی
خوبصورت تھی نا؟ ایسا لگ رہا تھا کہ ہم سپنوں کی دنیا میں سیر کر رہے
تھے۔دو سو(۲۰۰)فِٹ اوپر سے گرتے ہوئے جھرنے کی ہلکی ہلکی سی پُھہار جب چہرے
کو مَس کر رہی تھی تو محسوس ہو رہا تھے کہ جیسے موسم کی دلکش فضائیں مجھے
اپنے آ غوش میں لئے جُھولا جُھلا رہی ہیں ،اور شام کا ڈوبتا سورج اسی جھیل
کی تِہہ میں اپنی روشنی سمیٹے چھپا جا رہا ہے۔اور اس ہوٹل کی ویئٹردوشیزہ
کتنی خوبصورت تھی نا رفیق؟رفیق․․․رفیق․․․روہان․․․ابے سو گئے کیا؟۔جواب نہ
پاکر انگڑائی لیتے ہوئے(سیف نے کہا)’’ چلو یار اب میں بھی سو جاتا
ہوں،،اسکے بعد تینوں کے خرّاٹوں نے پُر سکون فضاء میں کھلبلی مچا دی ۔سر نے
خرّاٹوں کی نقل کر کے بتا یا ۔(طلباء مسکرا نے لگے)۔
اگلے دن صبح سویرے سات بجے ہی ناشتہ کر نے کے لئے جا دھمکے۔رفیق نے کہا
’’روہان،، کل کی طرح اتنا مت کھا لینا کہ چلا بھی نہ جا سکے سمجھا؟ ناشتہ
مفت ہے اسکا مطلب یہ نہیں کہ تم کھانے کے آداب بھی بھول جاؤ،کھاتے وقت پیٹ
کے تین حصے کئے جاتے ہیں کھانا،پانی،ہوا، کے لئے معلوم ہے نا؟ معلوم تو ہے
لیکن کاجو،بادام،انجیر، پستہ، آملیٹ، قیمہ پوری، بریڈ کٹلیٹ،جوس، یہ تمام
چیزیں ایک حصے میں نہیں آرہی تھی اس لئے میں نے پانی والا حصہ بھی کھانے
والے حصے سے ضم کردیاتھا(روہان نے کہا)۔سیف نے فوراً کہا:چھوڑو یار چلوچلدی
ناشتہ کر کے نکلتے ہیں۔ اسکے بعد تینوں نے دو دو پلیٹ بھرے اور ایک دوسرے
کو دیکھ کر ہنسنے لگے۔
آج کے شِڈول کے مطابق پہلے عجائب گھر پھر دارالحیوانات اور آخر میں ایک
فلمی فنگشن میں جانا تھا۔عجائب گھر چڑیا گھر وقت پر گئے اور ٹائم پر وہاں
سے نکل گئے لیکن جس پروگرام میں گئے تھے اسکے ختم ہوتے ہو تے دس بج گئے اور
جب ہوٹل پہونچے تو ساڑھے دس بج چکے تھے،لفٹ کا دروازہ معمول کے مطابق دس
بجے بند ہو چکا تھا،تینوں دروازہ کے پاس حیران و پریشان اور غیر شادمان
کھڑے سر کھُجا نے لگے،اور ایک دوسرے کو’’ہوَنّک ،،کی طرح دیکھنے لگے۔ایسا
لگ رہاتھا کہ پچہتّر منزلوں کی سیڑھیاں چڑھنے کا تصور کر کے گویا انکا دماغ
ہی ماؤف ہو گیا ہو۔
روہان نے کہا کہ اس طرح کھڑے ایک دوسرے کا چہر ہ پڑھنے سے بہتر ہے کہ سر
جوڑ کر اس مسئلہ کا حل نکا لا جائے۔رفیق نے کہا چلو منیجر سے با ت کرتے ہیں
ضرور کوئی راستہ نکل آئیگا۔تینوں استقبا لیہ پر پہو نچے۔کار کُن نے روبٹ کی
طرح مسکرا تے ہوئے جواب دیا سر لفٹ کا دروازہ بند ہو چکا ہے۔آپ کا کیس تین
سو بیسواں کیس ہے اور میرے تجربے کے مطابق اب تک کوئی بھی کیس کامیاب نہیں
رہا ہے۔ بہتر ہو گا کہ آپ لوگ سیڑھیوں سے تشریف لے جائیں شکریہ سرَ(Have a
nice Day sir)۔رفیق نے منہ بگاڑ کر کہا مشورہ دینے کے لئے
شکریہ۔اور’’سیف،،غصے میں لال پیلا ہو کر کارکُن کو گُھورا اور بڑ بڑا یا
(Have a nice Day)کے بچے۔
رفیق نے کہا یار کوئی ایسی تر کیب سوچو کہ کام بھی ہو جائے اور جان بھی
سلامت رہے۔کافی دیر سوچنے کے بعدسیف نے کہا ایک طریقہ ہے۔ یہاں سے ہم اوپر
تک ایک دوسرے کو قصے سناتے ہوئے چلتے ہیں اس طرح سے ہم کو تھکان کا احساس
نہیں ہوگا اور آسانی سے پہو نچ بھی جائینگے۔پچیسویں منزل تک میں قصے
سناؤنگا باقی پچیس تک روہان اور آخر میں رفیق کی باری آ ئیگی۔
درسگاہ میں اس قدرسناٹا چھایا ہوا تھا(کطیو رعلیٰ رؤسہم) گویا تمام کے سروں
پر پرندے بیٹھے ہوں۔ہر کوئی اپنی ٹھوڑی ہتھیلی پر رکھے ایک ایک لفظ غور سے
سنتا جا رہا تھا۔استادنے کہا :تو اب تینوں نے اپنا سفر شروع کیا۔سیف نے
کہامیں لطیفے سناتا ہوں۔ہاں تو ذرا غور فرمائیں آپ لوگ۔ استاد نے ایک طالب
علم سے پوچھا بیٹا بجلی کہاں سے آتی ہے ؟طالب علم بڑی معصومیت سے جواب
دیتاہے سر میرے ماموں کے گھر سے آتی ہے۔وہ کیسے؟جب بھی بجلی جاتی ہے تو
میرے ابّو کہتے ہیں:سالوں نے پھر بجلی بند کردی۔سُن سان سیڑھیوں پر ہنسی کی
آواز گونج جاتی ہے۔اور طالب علم بھی ہنسنے لگتے ہیں۔اچھا دوسرا سنوں۔ایک
شخص نے اپنے دوست سے پوچھا یا ر ایسی بیوی کو کیا کہینگے؟ جوخوبصورت
ہو،سمجھدار ہو،بات ماننے والی ہو،کبھی ناراض نہ ہو، کسی چیز کی فرمائش نہ
کرے،دوست تھوڑی دیر خاموش رہنے کے بعد’’افواہ،،اس بار روہان و رفیق قہقہ
لگانے لگے اور طالب علم بھی دل کھول کر ہنسے۔
چند لطیفوں کے ختم ہونے پر وہ پچیسویں منزل پر پہنچ چکے تھے۔روہان نے کہااب
میری باری ہے اور میں سنجیدہ قصے سناؤنگا۔واقعہ یوں ہواکہ ایک دن میں آفس
جا رہا تھا۔میں نے ایک’’پانچ،،سالہ خوبصورت معصوم چھوٹے سے بچے کو سڑک پر
گھوم گھوم کر ’’قلم،،بیچتے ہوئے دیکھا،اسکی خوبصورتی کو سورج کی تپش اور
اڑتے ہوئے گرد وغبار نے چھُپا رکھا تھا، اسکی معصومیت پر غریبی محتاجگی و
ناداری کی سیاہ چادرپڑی ہوئی تھی۔مجھے ایسا لگاکہ اس پیوند کردہ، پھٹے
پرانے ،میلے کچیلے، بوسیدہ کپڑے میں کوئی ننہی سی جان اپنی بے بسی فقیری و
قَلّاشی پر ماتم نہ کرکے اپنی خُدّاری کا بر سرِ عام اعلان کر رہی ہے۔میرے
قدم اپنی جگہ جم گئے میں نے بہت کو شش کی کہ آگے بڑھوں لیکن اسکے بھولے
چہرے نے گویا مجھے زنجیر میں جکڑ لیا تھا۔
دن کے دو بج رہے تھے تاخیر ہو نے کی وجہ سے میں صبح بغیر ناشتے کے نکلا
تھا۔مجھے بھوک لگی تھی قریب ہی میں ایک سمو سا برگر بیچنے والے کی دوکان
میں گیا اور اس بچے کوبھی ساتھ لے لیا۔اس نے تین برگر لیا اور میرے ساتھ
کھانے لگا،لیکن اس نے صرف ایک ہی برگر کھایا۔ میں نے کہا یہ بھی کھالو ۔ اس
نے جواب دیا ۔ساب یہ ایک چھُٹکی کے لئے لے جاؤنگا کل کسی نے ’’کلم،،نہیں
لیا تھاتو اسی دوکان کے باہرسے آدھا ٹکڑا لے گیا تھاآج پورا لے جاؤنگا تو
بہت خوش ہوگی اوریہ ایک دوسرااماکے لئے۔میں نے کہا کہ اسکول کیوں نہیں جاتے
ہو ۔جواب دیاساب:اسکول جاؤنگا تو کھاؤنگا کیا؟قلم نہیں بیچونگا تو امی کو
دوائی کون دلا ئیگا۔میں نے اسکے سارے قلم خرید لئے۔اس وقت اسکے چہرے کی
رونق و خوشی کا جو عالم تھا میں بیان نہیں کر سکتا۔بس اسکو خوش دیکھ کرمیری
آنکھیں بے اختیار ڈبڈبا گئیں ۔پچاسویں منزل آچکی تھی تینوں کی آنکھیں نم ہو
گئی تھیں اور صفدر صاحب کی باتیں سُن کر طلبا کی آنکھیں بھی چھلک پڑی تھیں۔
رفیق نے کہا اب میرے درد سے مملوء محبت والے قصے سنو! سیف نے کہا: دیکھ
دوست زیادہ دردبھرے نہیں سنانا ورنا میں بر داشت نہیں کر پاؤنگا۔روہان نے
اسکی ٹانگ کھینچتے ہوئے کہا ہاں یار ’’رفیق،، زیادہ درد بھرے نہ ہو کیونکہ
ابھی وہ ٹرین والے حادثہ سے ابھرا نہیں ہے۔ٹھیک ہے خیال رکھونگا کہ جناب کے
دل کے سو سے ہزار ٹکڑے نہ ہو جائیں۔
تو کہانی یہ ہیکہ ایک غریب لڑکا جس کے پاس نہ رہنے کو گھر نہ پہننے کو ڈھنگ
کا کپڑا تھا لیکن اسکی آواز کمال کی تھی اسکو گانے کا شوق تھا اور ہمیشہ
گاتا ہی رہتا تھا ایک رئیس لڑکی’’سنیتا‘‘ کو اسکی آواز بہت پسندآئی اس نے
لڑ کے کو بڑا گلو کار بنانے کے لئے رات دن ایک کردیا اورایک دن اسکی محنت
رنگ لائی اور وہ ایک بڑا گلو کار بن کر ابھرا اسی اثناء میں دونوں میں محبت
ہو گئی،پھرچند دنوں کے لئے وہ لڑکا کلکتہ گیا ،واپس آنے پر اسکے مزاج میں
تبدیلی آ چکی تھی ،وہ ’’سُنیتا،، سے نظریں چُرانے لگا اس سے ملنے سے کترانے
لگا،یہاں تک کہ اس نے شادی سے بھی انکار کردیا۔
کچھ دنوں کے بعد سنیتا کی شادی اس ڈاکٹر ’’آکاش ‘‘سے طے پائی جس نے کلکتہ
میں ’’روی،، کے مرض کی تشخیص کر تے ہوئے یہ بتایا تھا کہ اسکو
’’سرطان،،(کینسر) ہے اور وہ اب صرف چند دنوں کا مہمان رہ گیا ہے۔سنیتا روی
کو دغاباز سمجھ کر اس سے نفرت کرنے لگی تھی۔تب ہی ایک دن آکاش روی کو لیکر
سنیتا کے گھر جاتا ہے اور اس بات سے انجان ہوکر کہ یہ دونوں ایک دوسرے
کوپہلے جانتے ہیں روی کا تعارف کرتے ہوئے یہ بھی بتا دیتا ہے اسکو
’’کینسر،، ہے اور کچھ دنوں پہلے یہ میرے پاس کلکتہ علاج کے لئے آیا تھا۔یہ
سنتے ہی سنیتا کے پیروں تلے زمین کھسک جاتی ہے اور اسکوروی کے اس بدلے ہوئے
برتاؤ کا سارا ماجرہ سمجھ میں آ جاتا ہے ۔روی کی بیماری اتنی بڑ ھ گئی تھی
کہ اب اسکے پاس صرف دو دن بچتے ہیں اور اسمیں اتنی سکت نہیں رہ جاتی ہے کہ
بستر سے اٹھ سکے۔اچانک ایک فون آتاہے سامنے سے سنیتا بھّرائی ہوئی اور درد
بھری آوازمیں کہتی ہے کہ اس نے ’’زہر،، کھا لیا ہے۔
نہ جانے کہا ں سے روی کے جسم میں اتنی قوت پیدا ہو جاتی ہے کہ وہ فوراًکار
لیکر سنیتا کے گھر پہنچ جاتا ہے۔ دروازہ کھلتے ہی سنیتا اسکی باہوں میں
گرتی ہے اسی وقت روی کو ایک زور کاٹھسکا لگتا ہے اور دونوں کی لاش باہوں
میں باہیں ڈالے فرش پرپڑی ہوئی ہیں۔
قصے کے ختم ہونے پر سیف نے کہا یہ تو بہت ہی درد بھرا قصہ ہے۔تینوں چوہتّر
ویں منزل کے آخری زینے پر قدم رکھ رہے تھے کہ ’’رفیق،، نے اپنی جیب ٹٹولتے
ہوئے کہا ایک حادثہ تو اس سے بھی زیادہ درد بھرا ہے۔دونوں حیرت سے اچھا!!
وہ کیاہے؟ رفیق کے جواب دیتے ہی ’’سیف اور روہان،،دونوں غش کھا کر گر گئے
اور روم کی جابی استقبا لیہ پر چھوڑ آنے کے صدمے میں رفیق بھی بے ہوش
ہوگیا۔
اب ’’صفدرصاحب،، طلباء کی طرف متوجہ ہوکر کہنے لگے دیکھا جائے تو ہم بھی
اپنی زندگی کے پچیس سال ہنسی مذاق کھیل کود اورموج مستی میں گزار دیتے ہیں
اور باقی پچیس شادی بیاہ ،بال بچے کنبے خاندان کی فکر اور رزق کی تلاش میں
صرف کردیتے ہیں اور جب اپنی زندگی کے پچاس سال مکمل کر چکے ہو تے ہیں تو
آخری پچیس سال بڑھاپے کی مشکلات،بیماریوں،اسپتالوں کے چکر کا ٹنے اور جوان
بیٹے بہو کی بے توجہی پر غمگین ہو تے ہوئے گزار دیتے ہیں۔یہاں تک کہ جب موت
کے دروازے پہو نچتے ہیں تو پتا چلتاہے کہ ’’چابی،،تو ہم نیچے ہی بھول آئے
ہیں۔اس سے پہلے کہ موت کے دروازے پرپہونچو اپنی اپنی چابی حاصل کرلو!!۔
میرے عزیزوں جانتے ہو اس چابی کانام کیا ہے؟اس چابی کا نام ’’رب کی رضامندی
،،ہے جسکے بغیر یہ زندگی کا پورا سفر بیکار و بے معنیٰ ہے۔ |