مبارک باد قبول ہو

افلاس کے باعث اپنے بھوک سے بلکتے کم سن بچوں کو تسلیاں دے کر سلادینے والی ماں، دوا اور علاج کے پیسے نہ ہونے کی وجہ سے تکلیف میں ہر لمحہ تڑپتے مزدور فیس دینے کی سکت نہ رکھنے پر اپنے بچوں کو اسکول سے اٹھا کر میکینک کا ـ چھوٹا بنادینے والے باپ بحران کے شکار اداروں کے مہنیوں تن خواہ سے محروم ملازمین اور غربت اور محرومی کے شکار ہر پاکستانی کی طرف سے اپنے معزز، محترم اور مستحق منتخب نمائندوں کو مبارک باد قبول ہو کہ ان کی تن خواہ میں اضافہ کی نوید مل گئی ہے اور اضافہ بھی کوئی چھوٹا موٹا نہیں، ارکان قومی اسمبلی کی تنخواہیں 68 ہزار فی کس سے بڑھا کر ایک لاکھ تیس ہزار روپے کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ اس حوالے سے شایع ہونے والی خبر کے مطابق پانچ جون کو پیش کیے جانے والے بجٹ، جس میں غریب آدمی کی بچی کچھی کھال اُتارنے اور اسے مزید زیربار کرنے کا اہتمام کیا جائے گا، قومی اسمبلی کے ارکان کی تن خواہیں بڑھانے کا اعلان بھی اسی بجٹ تقریر کا حصہ ہوگا۔

ہمیں یقین ہے کہ اس اقدام پر قومی اسمبلی میں موجود کسی جماعت کو ئی اعتراض نہیں ہوگا، سب متفقہ طور پر اس تجویز کو منظور کرلیں گے۔ ابھی اس تذکرے کو رہنے دیجیے کہ ہمارے یہاں اہل سیاست خاص طور پر منتخب نمائندوں کی اکثریت لاکھوں کروڑوں روپے خرچ کرکے اسمبلیوں میں پہنچنے کا بعد کس کس طرح اپنا لگایا ہوا سرمایہ وصول کرتی ہے، ان ایوانوں میں عوام کے ایشوز پر کتنی بات ہوتی ہے اسے بھی چھوڑیے، ارکان کی ایوان سے غیرحاضری کا ذکر بھی ایک طرف رکھ دیتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ معاشی بحران، بجلی، گیس اور پانی کی قلت کی شکار اور افلاس زدہ قوم کے نمائندوں کی تن خواہوں اور مراعات میں اتنے اضافے کا کیا جواز ہے؟

حقیقت یہ ہے کہ بیرونی قرضوں کا بوجھ ہو، دفاعی بجٹ ہو یا معاشی بحران کا بار اسے اٹھانا صرف عام پاکستانی کا مقدر ہے، حکم راں اور منتخب نمائندے ایسی ہر فکر سے آزاد ہیں۔ یوں بھی یہ خواتین وحضرات اس طبقے سے تعلق رکھتے ہیں دولت جس کے گھر کی لونڈی ہے۔ اس کے باوجود انھیں قومی خزانے سے اپنے حصے سے زیادہ رقم چاہیے، استحقاق کے نام پر انھیں ہر سہولت چاہیے۔ یہ نخرے کیوں نہ دکھائیں، یہ غریب قوم ہے نا ان کے ناز اٹھا نے کے لیے، ہر کسی کی ہر خواہش اور آرزو پوری کرنے کے لیے۔ چناں چہ سندھ کے منتخب ارکان اسمبلی کے لیے چار ارب پچاس کروڑ روپے کی خطیر رقم سے صوبائی اسمبلی کی شان دار عمارت تعمیر کی گئی۔ یاد رہے کہ یہ وہی سندھ ہے جس کے ایک بدنصیب علاقے تھر میں معصوم بچے بھوک سے مر رہے ہیں، جہاں لاکھوں لوگ جھگیوں میں رہتے ہیں، جہاں ہاریوں کی اکثریت کو غربت ہر روز نوچ کر کھارہی ہے۔ شکر ہے کہ اس صوبے کے حکم راں اور منتخب نمائندے ایک خوب صورت اور پُرآسائش عمارت میں بیٹھ کر مصائب کی دھوپ سے بچتے ہوئے صوبے کے غریبوں کے لیے زوردار تقریریں کرتے ہیں۔

حکمرانوں، سیاست دانوں اور عوام کے منتخب نمائندوں کی یہ روش کسی ایک صوبے تک محدود نہیں، پورے ملک میں یہی صورت حال ہے، جس کا عکاس قومی اسمبلی کے ارکان کی تن خواہوں میں اضافے کا فیصلہ ہے۔

یہ ہمارے کیسے نمائندے ہیں جو ہر معاملے میں ہم سے الگ ہیں۔ ان کا طرز زندگی کسی طرح بھی عام پاکستانی کے روزوشب سے مماثلت نہیں رکھتا۔ اور نہ ہی وہ ایسا چاہتے ہیں۔ کوئی اپنی کمائی سے کیا کیا سہولتیں حاصل کرتا ہے، کون کون سی آسائشیں خریدتا ہے، تعیشات کا کیا کیا سامان کرتا ہے، یہ ایک الگ مسئلہ ہے، لیکن جب قوم کے پیسے اور قومی خزانے کی بات آئے تو اپنے دعوؤں اور وعدوں کا کچھ تو خیال رکھا جائے۔ لیکن خود کو غریبوں کا ہم درد کہنے اور ان کے لیے لمبی چوڑی تقریریں کرنے والے ہمارے حکم راں اور منتخب نمائندے یہ سامنے کی حقیقت بھول جاتے ہیں کہ قومی خزانے سے حاصل کی جانے والی ان کی تمام مراعات، چاہے وہ بیش قیمت گاڑیوں کی صورت میں ہوں، عالی شان عمارتوں کی صورت میں یا تنخواہ اور دیگر مالی سہولتوں کی شکل میں، ان سب سے غریب پاکستانی اور عام آدمی ہی متاثر ہوتا ہے۔ حکمرانوں اور منتخب نمائندوں قومی خزانے سے دی جانے والی ہر رعایت ہر سہولت کتنے ہی اسکول ہڑپ کرجاتی ہے جہاں غریب کا بچہ پڑھ سکتا تھا، کتنے ہی اسپتال ان سہولتوں اور رعایتوں کا شکار ہوجاتے ہیں جہاں افلاس زدہ مریضوں کا مفت علاج ہوسکتا تھا، یہ سرکاری ملازمین کی تن خواہوں کے وہ معمولی اضافے کھاجاتی ہیں جو ان کے چھوٹے چھوٹے کتنے ہی مسائل حل کر سکتے تھے۔

شاید یہ طے کر لیا گیا ہے کہ اہل سیاست، حکم رانوں، فوج کے حکام، بیوروکریٹس اور منتخب نمائندوں ہی کو اس ملک میں جینے کا حق ہے، اس ملک کے وسائل اور قومی خزانے پر صرف انھیں کا حق ہے، اس دیس کے ہر راستے پر ان کا حق ہے، سو سرکاری سیکیوریٹی اور بلٹ پروف گاڑیاں ان کی قیمتی جانوں کو محفوظ بنانے کے لیے مختص کردی جاتی ہیں اور عام آدمی کی زندگی ہر تحفظ سے محروم رہتی ہے، یہ خواتین و حضرات کروڑوں اربوں روپے کی سرکاری مراعات ہضم کرجاتے ہیں اور عام لوگ چھوٹے چھوٹے شہری مسائل کے حل کے لیے احتجاج کرتے نظر آتے ہیں، ان کی سواری گزرے تو ہر راستہ ان کے لیے خاص ہوجاتا ہے اور عام شہری سے سڑک سے گزرنے کا حق بھی چھین لیا جاتا ہے۔

جو ملک ایک عرصے سے معاشی زبوں حالی کا شکار ہو، جہاں بجلی، گیس اور پانی جیسی بنیادی ضروری کی قلت عذاب بن چکی ہو، جہاں ہر طرف غربت اور بے روزگاری نے ڈیرے ڈال رکھے ہوں اس کے حکم رانوں اور منتخب قیادت کو قومی خزانے سے غیرضروری طور پر ایک روپیہ بھی لینا زیب دیتا ہے؟ ہرگز نہیں، لیکن مسئلہ یہ ہے کہ یہ طبقہ وسائل کا حق دار خود کو سمجھتا ہے اور مسائل کا سارا بوجھ عوام پر ڈال دیتا ہے۔ اور ہمارے عوام، اپنے اس استحصال پر آواز تک نہیں اٹھاتے، چناں چہ دوسروں کا بوجھ اٹھائے جی رہے ہیں۔
Sana Ghori
About the Author: Sana Ghori Read More Articles by Sana Ghori: 317 Articles with 311664 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.