نیو یارک ٹائمز کی صداقت یا پراپگنڈا

صدام حسین نے تیل کے عوض سونا مانگ کر امریکی معیشت کو آنکھیں دکھانے کی کوشش کی تو نیو یارک ٹآیْمز نے عراق کے خلاف جوہری ہتھیار بنانے کی ایک سٹوری لکھ دی۔ جس پر کسی نے بھی نیو یارک ٹآیْمزسے وضاحت مانگنے کی بجاےْ عراق کو ملزم کی بجاےْ مجرم سمجھنا شروع کردیا۔ امریکہ نے عراق پر چڑھائ کر دی۔ عراق کو تباہ کر کے جب کوئ ثبوت نا ملا تو دنیا کو احساس ہوا کہ نیو یارک ٹآیْمز کی ایک جھوٹی سٹوری کے پیچھے عراق کو برباد کر دیا گیا پے۔ نیو یارک ٹآیْمزنے اس سٹوری پہ محض ایک پیراگراف لکھ کے معافی مانگ لی اور دنیا نے لاکھوں لوگوں کے قتل کا باعث بننے والے نیو یارک ٹآیْمزکو معاف کر دیا۔

BCCI بینک کے تیزی سے بڑھتے ہوے زر مبادلہ کو دیکھ کر امریکی منڈیوں میں تشویش کی لہر دوڈ گئ۔ اپنے کمپیٹیٹر کو راستے سے ہٹانے کا ٹاسک ایک بار پھر نیو یارک ٹآیْمز کو دیا گیا۔ BCCI کے ایک ملازم کو چند پیسے دے کے منگھڑت بیان لیا گیا اور نیو یارک ٹآیْمز نے ایک بار پھر جھوٹی سٹوری شایعُ کر دی۔ اس بار بھی کسی نے نیو یارک ٹآیْمزکو اپنے الزامات ثابت کرنے کا نہیں کہا۔ سب نے مل کر تفتیش کے نام پر معاشی پابندیاں اور اس گروپ میں بینکنگ شعبہ کی ساکھ کو ایسا متاثر کیا کہ دوبارہ خطے میں کوئ بھی اس شعبہ میں امریکی منڈیوں کہ مدِمقابل نہ کھڑا ہو سکے۔ بعد میں یہ سٹوری بھی جھوٹی ثابت ہو گئ اور نیو یارک ٹآیْمز نے معافی بھی مانگ لی مگر اس جھوٹے سکینڈل کے زخم سے ابھی تک اس خطے کے بینک عالمی منڈیوں کے سرمایہ کاروں کا اعتماد حاصل کر کے پہلے جیسیے حالات پیدہ نہیں کر سکے۔
پھر یوں ہوا کہ پاکستان میں ایک کمپنی نے انفارمیشن ٹیکنالوجی کے شعبہ میں سر اٹھانا شروع کیا۔ چند سالوں میں اس کمپنی نے دنیا بھر کی منڈیوں میں اپنا لوہا منوایا اوربےتحاشہ زرِمبادلہ کماتے ہوے دنیا بھرکی انفارمیشن ٹیکنالوجی کی مارکیٹ میں نہ صرف اپنا نام منوایا بلکہ کمپیٹیٹرز کے لیے خطرہ کی گھنٹی بجا دی۔ ساتھ ہی ساتھ اس کمپنی نے اپنا میڈیا گروپ بھی کھول لیا جس کا مقصد ملک میں موجود اندرونی غداروں کو بینقاب کرنا اور ملک کا واحد پرو نیشنل چینل بنانا بھی تھا۔ اس ادارے نے خطے کے ہزاروں نوجوانوں کو روزگار بھی مہیا کیا ہوا تھا۔ ہمیشہ کی طرح یہ سر اٹھاتی کمپنی وقت کے خداوْں کو ناگوار گزر رہی تھی اور شک تھا کہ کہیں کویُ مدِمقابل نہ کھڑا ہو جاےُ۔ اس کمپنی کے خلاف ایک مقدمہ کیا گیا جس میں کمپنی نے اپنی سچایُ ثابت کر دی اور سب کام معمول کے مطابق چلتے رہے۔ پھر اس کمپنی کا پتہ کاٹنے کی زمہ داری نیو یارک ٹآیْمز کو دی گیُ۔ پرانے مقدمے کو بنیاد بنا کر نیو یارک ٹآیْمز نے ایک سٹوری لکھ دی۔ اس بار پھر کسی نے نیو یارک ٹآیْمز کو اپنی رپورٹ ثابت کرنے کا نہیں کہا بلکہ مقمامی میڈیا کے ذریعہ (جو پیلے ہی اس کمپنی کو اپنا کمپیٹیٹر سمجھ کے بوکھلاہٹ کا شکار ہے) اس کمپنی کے خلاف محاظ کھڑا کر دیا۔ کمپنی کی ساکھ تو تفتیش مکلمل ہونے سے پہلے ہی اتنی متاثر ہو چکی ہے کہ اب اگر یہ بے گناہ ثابت ہو بھی جاےُ تو پھر بھی اس شعبے میں ساکھ بحال کرتے کرتے اتنا وقت لگ جاےُ گا کہ مقابلے کی تمام کمپنیز کوسوں دور ہو جایِں گی۔

نیو یارک ٹآیْمز تو اس بر بھی معافی مانگ لے گی مکر اس سٹوری سے متاثر ہونے والا ملک انفارمیشن ٹیکنالوجی کے شعبہ میں سالوں پیچھے رہ جاےَ گا۔ اس کمپنی کی ساکھ ہی متاثر نہیں ہوگی بلکہ پورے خطہ میں انفارمیشن ٹیکنالوجی کے شعبہ میں اس ملک کی ہر کمپنی سے اعتبار اٹھ جاے گا۔ جو ملک اس وقت سب سے زیادہ زرمبادلہ انفارمیشن ٹیکنالوجی کے شعبہ سے کما رہا ہے وہ ملک ایک جھوٹے پروپیگنڈہ کی نظر ہو کے اس منڈی سے ہی باہر ہو جاےُ گا۔

عرض صرف اتنی ہے کہ بہلے تو ہمیں یہ دیکھنا چاہیے کہ الزام کون لگا رہا ہے اور اس کا اپنا کردار کیسا ہے۔ پھر اگر مان بھی لیا جاےُ کہ جو بندہ ہمیشہ سے ہماری معیشت کہ مخالف لکھتا آیا ہے وہ اس بار سچا ہے تو پھر بھی ملزم کو فورآ مجرم سمجھ کر اپنے ہی ملک کی اتنی بڑی کمپنی کے سٹرکچر اور وطن کی ساکھ کو تباہ نہیں کرنا چاہیے۔ یہ کمپنی جھوٹی بھی ہوگی اور ٹیکس چور بھی پر میاں دوسروں کے لگاےُ الزام پر اپنے پاوُں پر کلحاڑی مارنے سے پہلے اپنوں کا موُقف تو پوچھ لو۔ بحیثیت قوم ہمیں میڈیا ٹرایُل کی عادت کوترک کر کہ اصلیت کو دونوں اطراف کا موقف جان کر انصاف کے پلیٹ فارم پر فیصلہ کرنے والے اداروں پہ یقین رکھنا چاہیے۔

آخر کب تک کسی کے بھی ہمارے گھر میں چنگاری پھینکنے سے بنا سوچے سمجھے ہم خد ہی ھوا دے کے سارا آنگن جلاتے رہیں گے۔

تحقیقات مکمل ہو لینے دیں اگر اس بار نیو یارک ٹآیْمزسچا ہوا تو پھر فیصلہ کر لیں گے کہ اسے بنیاد بنا ک سزا کمپنی کو دینی ہے یا میڈیا کے ذریعے قوم کی ساکھ کو؟

محمّد نواز بشیر
About the Author: محمّد نواز بشیر Read More Articles by محمّد نواز بشیر: 9 Articles with 6321 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.