ایٹمی دھماکے ‘کیا کھویا؟ کیا پایا؟

1998کاسال نہایت گرماگرم گزررہاتھا۔ایشوتھاکہ پاکستان کو ایٹمی دھماکے کرنے چاہیئے یا نہیں ؟میاں صاحب مشوروں کی پٹاری باربارکھول رہے تھے اور محترمہ بے نظیر بھٹو(مرحوم)پُرجوش تقاریر کررہی تھیں ‘ہم سکول میں تھے بس داداجی !سے اتناسناکہ آج بی بی نے جلسہ میں اپنی چوڑیاں اچھال دیں اورکہامیاں صاحب یہ لیجئے‘پہن لیجئے ۔اسے ایک طرف حب الوطنی کا جوش بھی قراردے سکتے ہیں تو دوسری جانب عوام کی حمایت لینے کا انداز بھی‘جوجیسے سمجھے مگر اس سارے تماشے میں جو اہم فون لگاوہ محترم مجید نظامی مرحوم کاتھاجس کے کم وبیش الفاظ ایسے ہی تھے ’’میاں صاحب! دھماکے کردیجئے ورنہ قوم آپ کا دھماکہ کردے گی‘‘۔اس فون کے بعد دھماکے توہوگئے لیکن کچھ ذرائع کہتے ہیں کہ اسی جرم میں پھر میاں صاحب کا دھماکہ عوام نے نہیں تو کسی اورنے کردیا۔۔۔؟لیکن یہاں ایک سوال باقی ہے کہ اگر قوم کہ ہرفرد کی خواہش وضرورت ایٹمی دھماکے ہی تھے تو پھر جب جنرل مشرف نے اقتدارسنبھالاتو سوا پارٹی ورکرز کے کسی ذی روح نے احتجاج کیوں نہیں کیا؟حق تو یہ تھا کہ عوام جنرل کے خلاف اُٹھ کھڑی ہوتی کہ جناب والاآپ ہمارے ہیرو سے زیادتی کر رہے ہیں ؟ایساکیوں نہ ہوا ؟ آئیے اس سوال کاجواب تلاش کرتے ہیں۔

دفاع ہرریاست کیلئے ایسے ضروری ہوتاہے جیسے کسی بشرکیلئے اپنی جان‘پھر اس جان کو قائم رکھنے کیلئے ہتھیار وہی کام دیتے ہیں جوانسان کیلئے خوراک مہیاکرتی ہے۔عوام ہمیشہ اپنی زمینی سرحدوں کی حفاظت کو اپنادینی فریضہ سمجھ کرپرجوش ہوجاتے ہیں اوراس کیلئے قربانیاں بھی ازل سے دیتے آئے ہیں۔اس سب کے باوجودکسی بھی ملک کے شہری کیلئے اپنی جان کا تحفظ ‘اپنے کنبے کا تحفظ بھی ضروری ہوتاہے۔ایٹمی دھماکے ہوگئے ‘بھارت ٹھٹھک گیالیکن عوام اس لیئے میاں صاحب کے حق میں نہ کھڑی ہوئی کہ اسکی اپنی جان کومحفوظ کرنے کیلئے اس کے پاس خوراک نامی اسلحہ ناپیدتھایاپھرپہنچ سے دورہوگیاتھا۔مہنگائی‘امراء ریاست کی اقرباء پروری‘رشوت اوربہت کچھ نے جنرل کاساتھ دیااوروہ صدرپاکستان کے عہدے پربھی قبضہ جماگئے۔

جن وجوہات کو پیش کرکے جنرل نے اقتدارحاصل کیا ‘ان کے دوربابرکت میں بھی وہ نہ مٹ سکیں ۔عوام ذلیل وخوارہوتی رہی۔ہاں کچھ تعمیری کام ہوئے کچھ ایسے کام بھی ہوئے جو یاد رکھے جائیں گے لیکن عوام کے دلوں میں محبت کے محل تعمیرکرنے کا کام مشرف صاحب بھی بھول گئے ۔پرویزالہی صاحب کی 1122سروس ایسی ہے کہ یادرکھی جائے گی باقی دودھ کی نہریں وہ بھی نہ چلاسکے‘رہی نشانی تولال مسجد ان کے دورکی ایک اندوہناک کہانی ہے ‘ہمیں خود کش بمبارکاتحفہ اسی دورمیں ملا۔اسکے بعد2008میں ہمیں پھرجمہوریت کا لالی پاپ دیاگیا‘عوام خوش ہوئے کہ ابراہیم لنکن والی جمہوریت آئی ہے ’۔ابراہیم لنکن نے انیس نومبر 1863کو جمعرات کی سہ پہر گٹز برگ میں تاریخ ساز الفاظ کہے ‘انکی یہ تقریر امریکن تاریخ کی چند مشہور تقاریرمیں سے ایک ہے ۔ یہ امریکن سول وار کے دوران گٹزبرگ کے فاتح اور شہدا کے اعزازمیں کی گئی تقریب ’’soldiers national cemetry’’میں وقوع پذیر ہوئی ۔ لنکن نے کہا اورمورخ نے الفاظ کو ایسے سمیٹاجیسے کوئی خزانہ محفوظ کرتاہے’government of the people , by the people ,for the people‘‘۔مگرافسوس امریکہ سمیت تیسری دنیاکہ ممالک میں ان الفاظ کی حقیقت کو چند ہی رہنماء اپناپائے اورہمارے ہاں تو سرے سے جمہوریت ہے ہی نہیں ‘بس نام استعمال ہوتاہے اور موجیں کرتے ہیں سیاست دان ۔ پی پی پی کا یہ دور 2008سے 2013 ایسا اعصاب شکن تھا کہ عام آدمی جس نے 1999میں مشرف کے military coup میں میاں صاحب کاساتھ نہیں دیاتھا بالاآخر روایتی سیاست کی پٹری پرچلتے ہوئے میاں صاحب کو اپنارہنماء چن بیٹھا۔

مئی 2013سے اب تک دوبرس بیت چکے ‘عوام کے لیئے جتنے کام ہوئے‘ اتنی ہی حمایت باقی ہے۔آج مئی 1998کے دھماکوں کو پندرہ برس ہونے کوہیں ‘ہمارے ملک سے مہنگائی ‘اقرباء پروری ‘رشوت خوری‘لوڈشیڈنگ‘کرمنل کیسز اوردہشت گردی سب میں اضافہ ہی ہوا ہے۔خدانہ کرے آج بھی کوئی اوراقتدارسنبھالے تومیرانہیں خیال کہ عوام کا ریلااسکے سامنے سینہ سپر ہوجائے گاکہ ٹھہرو!ہماری منتخب حکومت کو مت لتاڑو۔وجہ صاف ہے کہ جب تک کوئی حکمران اوراسکی پوری ٹیم عوامی امنگوں کاخیال نہیں رکھتی توپھر ان پرمشکل آنے پر عوام بھی انکا ساتھ نہیں دیتی ‘محض دفاع کیلئے اُٹھائے گئے اقدامات ناکافی ہوتے ہیں بلکہ ایسا بھی ہوتاہے کہ وہ بے معنی سے ہوکررہ جاتے ہیں ۔مجھے یاد ہے کہ پاکستان کے ایٹمی دھماکوں پر s.e کالج بہاول پورکے پروفیسرمحترم اجمل صاحب نے کہاتھا کہ کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔طالب علموں نے پوچھا وہ کیوں ؟انہوں نے کہا کہ ایک بندہ ایک بندوق برادرکو ماررہاتھا اوربندوق والا کہہ رہاتھا کہ اب اگرمارا توپھر میں گولی چلادوں گا ۔اوریہ عمل برابرجاری تھا‘وہ تھپڑکھاتااورکہتارہاکہ اب اگرماراتوگولی چلادوں گا۔۔۔۔۔جناب والاطاقت ہونے کیساتھ ساتھ آپ کے اندراخلاقی جراء ت ‘عوامی حمایت اورمعیشت کا مضبوط ہونالازمی امرہے ورنہ سب بے کار۔

اس سب کی ذمہ داری سیاست دانوں سمیت ہم سب پر عائد ہوتی ہے ۔ہم مختلف فرقوں سمیت لسانی ‘علاقائی اورطرح طرح کے تعصب میں مبتلاہوچکے ہیں ۔ہم الیکشن سے لے کر ہر قومی سطح کے کام کو تعصب کی نگاہ سے دیکھتے اورذاتی مفاد کے ترازومیں تولتے ہیں۔کالاباغ ڈیم ہو یا پاک چین راہداری سب کام ہماری نااہلی اورحکمرانوں کی نالائقی کی بھینٹ چڑھ جاتے ہیں۔اپریل میں ہماری آبائی تحصیل کابازاربندتھا‘وجہ پوچھی توبتایاگیاکہ پاک چین راہداری والاپل ہماری جانب بنناتھا اوراب وہ دوسری تحصیل میں بنے گا۔لوگوں کاکہناتھاکہ ہمیں اس بات کی سزادی جارہی ہے کہ ہم نے پی ٹی آئی کو ووٹ دیئے ہیں ۔ان تمام لوگوں کے پاس اس کے سواکوئی دلیل نہیں تھی ‘میں نے سوچاکہ اگر اسی طرح پورے پاکستان میں اس راہداری کے روٹ اور پلوں پرجھگڑاچلتارہاتو پھر ہم کبھی بھی ترقی نہیں کر پائیں گے ۔یہی وجہ ہے کہ دنیاکی ساتویں اورمسلم دنیاکی واحد ایٹمی قوت ہونے کے باوجود ہم نہ آج تک بھارت کی دراندازی روک پائے ہیں اورنہ ہی مسلم دنیا اوراقوام عالم میں اپناکوئی خاص مقام بناپائے ہیں ‘اگرترقی کرناہے توذاتی مفادات سے بالاترہوکرسوچناہوگااوراس سرزمین پررہنے والے ہرپرامن انسان کوپاکستانی سمجھناہوگا۔یہ کام نہ اکیلے میاں صاحب نے کرنا ہے نہ زرداری صاحب اورکپتان نے۔کیایہ سوچنے کامقام نہیں کہ صدیوں ادھررہنے والے ہندوپاکستانی کسی پردیسی ملک میں پناہ لے رہے ہیں ؟اگرمجھے pessimistکاخطاب نہ دیجئے تواتناکہہ دوں کہ ہم اپنے شہری بھی کھورہے ہیں ‘آئیے مل کر چلیں اورپاکستان کو ترقی یافتہ بنادیں ۔ہاں اتناضرورہواہے کہ کرکٹ میں اب امپائرانگلی کھڑی نہیں کرتا بلکہ بلے باز کواپنی مرضی کے مطابق بلے بازی کرواتاہے۔۔۔۔

sami ullah khan
About the Author: sami ullah khan Read More Articles by sami ullah khan: 155 Articles with 174303 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.