جا گتی آ نکھوں سے خواب دیکھنااور سو تے ہو ئے خواب
دیکھنے میں تفریق کچھ یو ں ہے کہ خواب ہم تب دیکھتے ہیں کہ جب ہماری آ
نکھیں بند ہو تی ہیں اور دنیا فا نی سے غا فل ہو کر زندگی کے تمام رابطے
منقطع ہو جا تے ہیں مگر جا گتی ہو ئی آ نکھوں سے خواب تب دیکھے جا تے ہیں
جب زہن کسی خا ص سمت انتہا ئی لگن سے مصروف ہو کہ اسے دوسری طرف دیکھنے کی
تو فیق ہی نہ ملے یا یوں کہیں کہ وہ دوسری جا نب دیکھ کر اپنا خوابی سلسلہ
منقطع نہ کر نا چا ہتا ہو جو اسکے زہن میں خلل پیدا کر سکتا ہے خو اب
دیکھنا امید کو جنم دیتا ہے اور امید زندگی کی روانی میں بنیاد ی حیثیت
رکھتی ہے کہتے ہیں خواب کا میا بی کاپہلا قدم ہو تا ہے مگر جا گتی ہو ئی آ
نکھوں سے خواب دیکھنااس مصروف زند گی میں کچھ اچھا امر سمجھا نہیں جا تا
کیو نکہ خواب جب ٹو ٹتے ہیں تو دل میں بسی امیدوں کا شیرازہ بکھر جا تا ہے
ایسے ہی کچھ خواب ہم نے قیا م پا کستان سے لے کر اب تک اپنے سیاست دانوں سے
وا بستہ کر رکھے ہیں جنکی تکمیل الجھے ہو ئے دھا گوں کی ما نند ہے جن کا
آزادہونامشکل ہے اس لیے ہم پچھلے سڑ سٹھ برس سے انہی بھول بھُلیوں میں گم
ہیں۔
بروز اتوار اسلام آ باد میں دھرنا کنونشن سے خطا ب کر تے ہو ئے تحریک انصاف
کے سر براہ عمران خان نے کہا کہ ملک میں دہشت گر دی کے خلاف اتحاد وقت کی
ضرورت ہے اس لیے ہم نے سا نحہ پشاور کے بعد حکومت کے لیے کو ئی رکا وٹ نہ
کھڑی کر نے کا فیصلہ کیا تھا اب ہم اپنی تما م تر توجہ خیبر پختون خواہ میں
تر قی پر لگا ئیں گے اور اسے ایک ایسا مثا لی صو بہ بنا ئیں گے جو دوسرے صو
بوں کے لیے مثا ل ہو گا یہ الفا ظ سن کر جو محا ورہ میرے اور آ پکے زہن میں
سب سے پہلے اپنی جگہ بنا ئے گا وہ یہی ہو سکتا ہے کہ لوٹ کے بدو گھر کو آ
ئے کیو نکے یہی با ت پچھلے دو سا ل سے ہربا شعور انسان کہہ رہا تھا کہ اگر
نیا کے پی کے نہ بنا تو نئے پا کستان کی با ت بے معنی ہو جا تی ہے لیکن یہ
با ت خا ن صا حب کو دو سا ل گز رنے کے بعد کیو ں یا د آ ئی ویسے تو وہ الزا
ما تی سیا ست کے ما ہر ہیں اور کسی کو بھی ان الزا ما ت کی زد سے بری الزما
ں نہیں ما نتے جب با ت تحر یک انصاف کی حکو متی کا ر کر دگی پر آ تی تھی تو
اسے گھما پھیرا کر دھا ندلی پر لے آ تے تھے 2013 کے الیکشن میں جب پا کستان
پیپلز پا رٹی کی گزشتہ کا ر کر دگی نے اپنے سپورٹرز کو اس قا بل نہ چھوڑا
کہ وہ پھر پیپلز پا رٹی کی حما یت کر نے کی جر ات کر سکیں تواس پیدا ہو نے
والے سیا سی خلا ء کو پر کر نے وا لی تحر یک انصا ف تھی اور یو ں پیپلز پا
رٹی کے نا راض کا رکنوں کی اکثریت نے اپنا رخ تحریک انصا ف کی طر ف مو ڑ
لیا عمران خا ن صا حب اس بات کو بخوبی جا نتے تھے اس لیے الیکشن کمپین کے
دوران پیپلز پا رٹی کو تنقید کا نشا نہ بنا نے کے بجا ئے میا ں برا دران پر
ہی بر ستے رہے مختصراًیہ کہ پی ٹی آ ئی د وسری بڑی پا ٹی بن کر ابھر ی
پنجاب میں تو خا طر خواہ نتا ئج حا صل نہ کر سکی مگر کے پی کے میں اتنی
نشستیں حا صل کر نے میں کا میا ب رہی کہ مخلو ط حکو مت بنا سکی پا کستان
مسلم لیگ ن کا خیبر پختون خواہ میں پی ٹی آ ئی کی حکو مت کی تشکیل کے لیے
راہ ہموار کر نے کے دو عزا ئم تھے ایک تو جمہو ریت کومضبو ط کر نا تھا اور
دوسرا مو قع فراہم کر نا تھا کہ ان کے پا س کو ئی جواز با قی نہ رہے کہ
انہیں مو قع دیا جا تا تو نئے پا کستان کا قیام و جو د پذ یر ہو تامجھے آ ج
بھی یا د ہے جب خیبر پختون خواہ میں پی ٹی آ ئی نے حکومت تشکیل دی تھی تو
سو شل میڈیا پر ہما رے بہت سے سا تھیو ں نے نیو یا رک کی تصو یر کے نیچے
پشا ور ان 2015لکھ کر پو سٹ کیا جسکو بڑی مقبو لیت بھی نصیب ہو ئی یہ ان لو
گوں کی امیدیں تھی جن پر بعد میں پا نی پھیر دیا گیا پچھلے دو سال سے صرف
انتشا ر کی سازش چھیڑنے کے سوا کچھ خا طر خواہ تبدیلی نہ آ سکی دھرنوں اور
الزامات کی سیا ست سے با ہر نکل کر اگر شروع سے ہی کے پی کے کی تر قی پر تو
جہ دی جا تی تو شا ید پی ٹی آ ئی کی مقبولیت کا گرا ف اتنی تیزی سے زوال
پذیر نہ ہوتااس کے سا تھ مسلم لیگ ن کو تحر یک انصاف کا شکر گزار بھی ہو نا
چا ہیے کیو نکہ مسلم لیگ ن کے سپو ٹرز خا مو ش طبع تھے جو صرف الیکشن کے
نزدیک متحرک ہو تے اور بہت بڑی تعداد ایسے سپوٹرز کی ہے جو محفلیں گر ما نے
کے بجا ئے صرف ووٹ کا سٹ کر نے پر اکتفا کر تے ہیں میں نے پہلی با ر میاں
صا حب کے چا ہنے والوں کو اتنا سر گرم دیکھا جسکی وجہ صرف تحریک انصاف کی
بے وجہ سیا ست ہے۔
خان صا حب کا یہ اعلان نہا یت خو ش آ ئند ہے کیو نکہ سب یہ امید کر رہے تھے
کہ ایک نیا پلان سا منے آنے والا ہے جسمیں دو با رہ ہنگا مہ آ را ئی کر نے
کا منصو بہ پو شیدہ ہو گا جیسا کہ میں نے اپنے پچھلے کا لم میں عرض کیا تھا
کہ عوام کے رنگ فق ہیں مگر اس با ر خان صا حب نے سب کو حیران کر دیا محاذ آ
را ئی کے بجا ئے اپنی کا رکر دگی پر تو جہ دے کر اپنے مخا لفین کو زیر کر
نے کا منصو بہ بنا ڈا لا ایسے منصوبے تو کئی با ر بنتے آ ئے ہیں در حقیقت
ہر سیا سی جما عت کچھ ایسا ہی منشور قوم کے سا منے پیش کر کے انتخا با ت کے
میدان میں کو دتی ہے ان منصوبوں کو عملی جا مہ پہنا نا ہی کا میا بی ہو گا
چلیں دیر آ ید درست آید پر خان صا حب کو اتنی سمجھ تو آ گئی کہ تبدیلی خون
ریزی سے نہیں بلکے عوام کی خدمت کرنے سے آ ئے گی جس کا وعدہ کر کے انہو ں
نے کے پی کے کی عوام کے دل جیتے تھے اور یہی عوام ان خوابوں کی تعبیر کی
منتظر ہے جو الیکشن کے دوران دکھا ئے گئے تھے ہاں خان صا حب کی اس بات سے
اختلاف ضرور ہے کہ تحر یک انصاف جب چا ہے ملک بند کرنے کی صلا حیت رکھتی ہے
کیو نکہ اس کا عملی مظا ہرہ وہ لا ہور اور فیصل آ با د میں پہلے ہی کر چکے
ہیں کیا ملک کو بند کر نے کا مطلب یہ ہے کہ زبر دستی دکانوں کو بند کر ایا
جا ئے یا چند ڈ نڈا بر دار لوگ سڑکوں پرآ کر انھیں جا م کر دیں اگر خان صا
حب کا مطلب کچھ ایسا ہے تو پھر چھو ٹی سے چھو ٹی جما عت ایسا کر سکتی ہے
حقیقی طور پر تو کسی کو مجبور کیے بنا یہ سب کر نا اصل طا قت کا مظا ہرہ ہے
جس یہ ظا ہر ہوسکے کہ عوام کی اکثریت آ پ کے مو قف کی حما یت کر تی ہے
تحریک انصا ف نے کے پی کے بنیادی مسا ئل کو پس پشت ڈال کے لو گوں کے دلوں
میں احساس محرومی کو جنم دیا جسکا اظہار عمران خان صا حب خود کر چکے ہیں
اور جسکا عملی مظا ہرہ کے پی کے کی عوام نے پشا ور پبلک سکول میں عمران خان
صا حب کی آ مد پر گو عمران گو کے نعرے لگا کر کیا ۔ |