عالمِ اسلام ایک لامتناہی انتشار کا شکار۰۰۰

دنیا میں شاید ہی کہیں امن و آمان کی فضاء قائم ہو۔ امریکہ ،روس، چین جیسے سوپر پاور ممالک میں بھی آئے دن کسی نہ کسی معاملہ پر یا نسلی ، مذہبی تعصب پرستی و دیگر مسائل پر مبنی جھگڑوں کی وجہ سے قتل و غارت گیری ہوتی رہتی ہے اور یہ بین الاقوامی سطح پر کوئی تعجب خیز یانئی بات نہیں کہلاتی ۔ البتہ اسلامی ممالک میں دہشت گردانہ کارروائیاں ، خودکش حملے اور فائرنگ وغیرہ کے سنگین واقعات ضرور تعجب خیز کہے جاسکتے ہیں کیونکہ جہاں اسلام جیسے مقدس اور آفاقی مذہب کے ماننے والے رہتے ہیں ان مقامات پر سلامتی ، امن و آمان کا ہونا نہایت ضروری ہے اور یہ دنیا کا ہر صاحبِ علم وصاحب ذی شعور چاہے وہ کسی بھی مذہب سے تعلق رکھتا ہو جانتا ہے۔ اس مقدس مذہب کی توہین کون کررہے ہیں اس سلسلہ میں تجزیہ نگاروں کی مختلف آرائیں ہیں کسی کا کہنا ہے کہ یہ سب ہمارے اپنے بداعمال ، مذہب سے دوری ، تکبر اور دشمنانِ اسلام کو خوش کرنے کا نتیجہ ہے تو کسی تجزیہ نگار کا ماننا ہے کہ دشمنانِ اسلام کی سازشیں ہیں جو کسی بھی طرح مسلمانوں کو چین و سکون سے رہنے نہیں دینا چاہتے ہیں۔ بعض تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ دشمنان اسلام کی سازشیں انکی اپنی معیشت کو مستحکم کرنے کے ساتھ ساتھ عالم اسلام کو حقیر و نیچ دکھانے اور مسلمانوں میں عدم اتحاد پیدا کرکے اپنی اجارہ داری قائم رکھنا چاہتے ہیں۔ آج مسلم ممالک کے حکمراں دنیا کے سوپر پاور ممالک کے حکمرانوں کے سامنے معیشت کے اعتبار سے مضبوط و مستحکم ہونے کے باوجود انکی حضوری میں پیش پیش نظر آتے دکھائی دیتے ہیں البتہ ان دنوں سعودی کے تیور امریکہ کے ساتھ کچھ بدلے بدلے نظر آتے ہیں۔ بیشک اسلام نے سلامتی اور امن و آمان کا درس دیا ہے لیکن دشمنانِ اسلام سے اپنی حفاظت کرنے اور ان کی مکاّری و خودغرضی سے چوکنا رہنے کی تعلیم بھی دی ہے۔ آج مسلم حکمرانوں اور مسلمانوں میں ایک دوسرے کے درمیان عدم اعتماد کا نتیجہ ہے کہ دشمنانِ اسلام اپنی سازشوں میں کامیاب و کامران ہوتے جارہے ہیں اور مسلم ممالک کے حکمراں اپنی دولت و حکمرانی کے نشے میں اپنے ہی مسلم بھائیوں کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے دشمنانِ اسلام کے حوالے کرکے خوشی اور طمانیت محسوس کر رہے ہیں ۔ سوپر پاور ممالک اپنے ہتھیاروں کی ترسیل کیلئے جس طرح عالم اسلام میں انتشار پیدا کرکے ان ہتھیاروں کی نکاسی کررہے ہیں اور اس سے کروڑوں ڈالرس حاصل کررہے ہیں اس کا جائزہ لیا جائے تو یہ بات عیاں ہوجاتی ہے کہ ان ہی اسلامی ممالک کی معیشت کے بل بوتے پر دشمنانِ اسلام اپنے ہتھیاروں کو فروخت کرنے کے ساتھ ساتھ اس کے استعمال اور صلاحیتوں ، خوبیوں اور خامیوں کی جانچ بھی کررہے ہیں اور اسے تلف کرنے سے جو نقصانات ہوتے ہیں اس سے بچنے کے لئے اپنے اس زخیرہ اندوز ،ناکارہ ہونے والے ہتھیاروں کو کروڑوں ڈالرز میں فروخت کرکے اپنی معیشت کو مضبوط ہی نہیں کررہے ہیں بلکہ مستقبل میں مزید خطرناک ہتھیار بنانے کی تیاریوں میں مصروف ہیں۔ مسلم ممالک اپنے دفاع و سلامتی کے لئے خود اپنے ہتھیار بنانے کی کوشش کریں کیونکہ جو ممالک اپنے ہتھیار فروخت کررہے ہیں وہی ہتھیار یا اس سے زیادہ خطرناک ہتھیار وہ آپ کے دشمن ممالک کو بیچ سکتے ہیں اور ایسی صورت میں اسلامی ممالک مجبور و لاچار ہوجائیں گے اسی لئے عالم اسلام کے حکمرانوں کو چاہیے کہ وہ اپنے ہتھیار خود بنانے کی کوشش کریں اور اپنی فوج کو اتنی مضبوط و مستحکم بنانے اور انہیں تربیت دینے کے لئے کسی پر بھروسہ کرنے کے بجائے خود نئی حکمت عملی کے ذریعہ تربیت دیں ۔گذشتہ دو تین دہائیوں سے عراق، افغانستان، پاکستان،یمن، لبنان، شام، فلسطین، لیبیا وغیرہ میں مسلمانوں کا جس طرح قتل عام کیاجارہا ہے اور انکی معیشت کو جس بًری طرح سے نقصان پہنچایا جارہا ہے یہ سلسلہ ابھی تھمتا دکھائی نہیں دے رہا ہے بلکہ مستقبل میں شدید خطرات دکھائی دینے لگے ہیں۔ ایسا محسوس ہورہا ہے کہ مسالک کی بنیاد پر عالم اسلام کئی حصوں میں بٹ جائے گا اور بے قصور معصوم مسلمان مرد و خواتین اور معصوم بچنے اس بربریت ، ظلم و ستم کے حوالے ہوجائیں گے۔ یمن میں شیعہ حوثیوں کی بغاوت کے بعد صدر عبد ربہ منصور ہادی کی درخواست پر سعودی عرب کی قیادت میں عرب اتحاد جس طرح یمن میں حوثیوں کی بغاوت کو کچلنے اور انہیں پسپا کرنے کے لئے فضائی حملے کررہا ہے اور حوثیوں کی جانب سے جو سنیوں کے خلاف کارروائیاں ہورہی ہیں اس میں کئی معصوم شہری ہلاک ہورہے ہیں ویسے اطلاعات کے مطابق شیعہ حوثیوں نے جس طرح سنی مسلمانوں پر مظالم ڈھائے ہیں ان کے ا ن ہی مظالم کو دیکھتے ہوئے عرب اتحاد نے حوثیوں کے خلاف کارروائی کی ہے یہی نہیں بلکہ حوثی باغی سعودی عرب کی سرحدات پر بھی اپنی غیر قانونی سرگرمیوں کا دائرہ وسیع کرنے کی کوشش کررہے تھے اور اسکے پیچھے ایران کے تعاون کا عمل دخل بھی دکھائی دیتا ہے۔ ایران خطے میں اپنا اثر و رسوخ جمانے کے لئے شام، لبنان، یمن اور عراق میں شیعہ جنگجوؤں کو تعاون کررہا ہے ۔ ایک طرف شیعہ برادری ، سنی مسلمانوں کو قتل و غارت گیری کے ذریعہ نشانہ بنارہی ہے تو دوسری جانب شدت پسند تنظیمیں اور حکمراں کے درمیان ہونے والی کارروائیوں میں عام سنی مسلمان ہلاک ہورہے ہیں۔ عراق کے صوبہ الانبار کے دارالحکومت رمادی میں دولت اسلامیہ (داعش) کے قابض ہونے کے بعد عراقی فوج ، عراقی وزیر اعظم اورامریکہ کے لئے ایک بڑا دھچکہ سمجھا جارہا ہے کیونکہ امریکہ اور عراقی وزیر اعظم نے عراقی فوج اور پولیس کو استعمال کرنے کی پالیسی کی حوصلہ افزائی کرتے ہوئے ایران کی حمایت یافتہ شیعہ ملیشیا کو رمادی کی کارروائی سے دور رکھا تھا لیکن اب شیعہ ملیشیا ، دولت اسلامیہ کے خلاف لڑنے کی تیاریوں میں دکھائی دے رہے ہیں یہی نہیں بلکہ امریکہ کی جانب سے بھی رمادی شہر پر داعش کے خلاف کارروائی کی تیاریاں جاری ہیں۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ یہ بھی ایک سازش کا حصہ ہے کیونکہ پہلے ہی امریکہ اور عراقی وزیر اعظم داعش کو رمادی فتح کرنے نہ دینے کے لئے سخت انتظامات کرتے تو شاید داعش رمادی شہر پر قابض نہ ہوتے۔ شیعہ ملیشیاء کے تعلق سے عراق کے سنی مسلمانوں میں خوف و ہراس پایا جارہا ہے اور وہ یہ سمجھتے ہیں کہ شیعہ ملیشیاء کے بجائے داعش کو فوقیت دی جائے کیونکہ شیعہ ملیشیاء نے اس سے قبل سنیوں پر ظلم و زیادتیاں کیں تھیں۔ایک سنی سیاست داں کا کہنا ہے کہ ’’سنیوں کو مستحکم کرنے کا عمل ابھی تک شروع بھی نہیں ہوا۔ سنی اب سمجھنے لگے ہیں کہ دولت اسلامیہ ، شیعہ ملیشیا سے کم نقصاندہ ہے‘‘۔ اگر رمادی میں شیعہ ملیشیا پیشقدمی کرتے ہوئے کامیاب ہوجاتے ہیں تو اس کامیابی کا کیا ردّعمل سامنے آئے گا اور دولت اسلامیہ کو شکست دے کر باہر کرنے کے بعد رمادی کی سکیوریٹی کی خلا کس طرح پُر ہوسکے گی اس سلسلہ میں سنی رہنما پریشان کن حالات سے دوچار ہیں۔ سنی رہنماؤں کا کہنا ہے کہ حکومت نے عراق میں شیعہ علاقوں کے تحفظ کیلئے نصف سنیوں کو قتل کردیا ۔ ایک رہنما کا کہنا ہے کہ قومی وسائل سرکاری فورسز کے بجائے شیعہ ملیشیاء کو دیئے جارہے ہیں۔ ایک اور ذرائع کے مطابق متحدہ عرب امارات کی جانب سے آرمی کو بھیجی جانے والی 67بکتر بند ہموی گاڑیاں شیعہ ملیشیا کے حوالے کردی گئی ہیں، اور وزیر دفاع کو اس کا علم بھی نہیں ہے، وہ کہتے ہیں کہ اس کے بعد سے متحدہ عرب امارات کی جانب سے امداد اچانک روک دی گئی ہے۔اگر شیعہ ملیشیاء ، داعش کے خلاف لڑتے ہوئے صوبہ انبار میں داخل ہوجاتی ہے تو یہاں پر خانہ جنگی کے خطرات پیدا ہوسکتے ہیں ۔ کیونکہ اس صوبہ میں سنیوں کی اکثریت ہے اور وہ کسی طرح شیعہ ملیشیاء کو پسند نہیں کریں گے۔ عراق کا یہ اہم شہر رمادی ان دنوں خطرناک صورتحال سے دوچار ہے ایک طرف عراقی سیکورٹی فورسز نے رمادی کے ارد گرد آرٹلری اور ٹینک تعینات کر دیے ہیں جبکہ اس شہر پر قابض اسلامک اسٹیٹ (داعش )کے جنگجوؤں نے دفاعی حکمت عملی اختیار کرتے ہوئے شہر میں بارودی سرنگیں بچھانا شروع کر دی ہیں۔دوسری جانب ایران نواز ملیشیا کے فائٹرز نے رمادی کے جنوبی علاقوں میں جمع ہونا شروع کر دیا ہے۔ان حالات کے پیشِ نظر عراقی عوام کی بڑی تعداد ان علاقوں سے نقل مکان کررہے ہیں۔ غرض کہ عراق پر پھر ایک مرتبہ خون کے بادل منڈلارہے ہیں اور یہ سلسلہ کئی برسوں سے جاری ہے اور نہیں معلوم کب تک جاری رہے گا کاش عراقی عوام اپنے مالک حقیقی کے سامنے سربسجود ہوکر ندامت کے ساتھ دشمنوں کو نیست و نابود کرنے کے لئے دعا گو ہوجائیں۔ داعش نے گذشتہ دنوں شام کے تاریخی شہر پیلمائر پر قبضہ کرلیا یہی نہیں بلکہ اب شام اور عراق کی آخری سرحد پر بھی دولت اسلامیہ کا قبضہ ہوچکا ہے ۔ اس طرح داعش اپنی قوت کے ذریعہ شام اور عراق کے سرحدی علاقوں اور قصبوں و شہروں میں قبضے کرتے ہوئے جس تیزی سے آگے بڑھ ہی ہے اب اسے امریکہ اور دیگر اتحادی ممالک آسانی سے پسپا کرنے کے موقف میں نہیں ہیں اور یہ ایک طویل جنگ ہوگی جس میں عام شہریوں کی ہلاکت اور انکی املاک کا نقصان ہی نہیں بلکہ انہیں کئی مصائب و مسائل سے گزرنا پڑے گا اور یہ سلسلہ لامتناہی دکھائی دیتا ہے۔

یمن میں سعودی قیادت اور حوثیوں کی کارروائیوں کا دوبارہ آغاز
سعودی عرب کی سربراہی میں یمنی باغیوں کی سرکوبی کیلئے قائم فوجی اتحاد نے حوثیوں اور سابق صدر علی عبداﷲ صالح کی حامی ملیشیاؤں کے اسلحہ ڈپوز پر بمباری کی ہے تاہم فوری طورپر کسی جانی نقصان کی اطلاع نہیں مل سکی عرب میڈیا کے مطابق ان فضائی کارروائیوں میں علی عبداﷲ صالح کے بیٹے احمد علی صالح کے محل کو بھی نشانہ بنایا گیا۔ادھر حوثی باغی یمن اور سعودی عرب کی سرحد پر واقع قصبات پر گولا باری کرتے رہے ہیں ۔ سعودی عرب اور اس کے اتحادی گزشتہ سات ہفتوں سے حوثی باغیوں اورعلی عبداﷲ صالح کی وفادار ملیشیاؤں کے خلاف کارروائیاں کررہے ہیں تاکہ جلا وطن صدر عبد ربہ منصور ہادی کو اقتدار کی مسند پر دوبارہ بٹھایا جا سکے۔اطلاعات کے مطابق سعودی عرب کے علاقے نجران میں یمنی باغی گروپ اور سعودی نیشنل گارڈز یونٹس کے درمیان پیر کے روز دن بھر فائرنگ کا تبادلہ جاری رہا۔ فائرنگ کا سلسلہ اس وقت شروع ہوا جب حوثی ملیشیا نے نجران کی سرحدی پٹی پر ایک سعودی پوسٹ کو نشانہ بنایا۔یمن کے حالات کی بہتری کے لئے ضروری ہے کہ شیعہ حوثیوں کی بغاوتی کارروائیوں کو کسی نہ کسی کچل دیا جائے اور مستقبل میں ایک مضبوط و مستحکم حکومت کی تشکیل ضروری ہے۔

مصر کی عدلیہ کا فیصلہ اور ۰۰۰
۱۶ مئی مصر کی ایک عدلیہ نے اپنے ایک فیصلہ میں مصر کے منتخبہ پہلے جمہوری صدر ڈاکٹر محمد مرسی، علامہ یوسف القرضاوی عالمی شہرت یافتہ ممتاز عالم دین اور اخوان المسلمین کے رہنما عام شیخ بدیع و دیگر سو افراد کے خلاف پھانسی کا فیصلہ سنایا اس فیصلہ کو تجزیہ نگار عدل و انصاف کے تقاضوں اور جمہوری اقدار کا خون قرار دے رہے ہیں ۔ ڈاکٹر محمد مرسی کی حکومت مصر میں جمہوریت کی بحالی کا آغاز سمجھاجارہا تھا، وہ جدید مصر کے پہلے جمہوری صدر منتخب کئے گئے تھے ، انکی پارٹی نے55% فیصد سے زائد ووٹ حاصل کئے تھے۔ ڈاکٹر محمد مرسی مصر کی ہمہ جہت ترقی کا خاکہ رکھتے تھے‘ انہوں نے اپنے دور حکومت میں جمہوری اقدار کا پورا لحاظ رکھا‘ مذہبی اقلیتوں کو انکے حقوق فراہم کیے اور خطے میں امن و سلامتی کی بحالی کی کوشش کی ۔ انکی انہیں پالیسیوں کی وجہ سے بہت جلد انکا شمار عالم اسلام کے با اثر حکمرانوں میں ہونے لگا تھا ۔ مگر فوجی انقلاب کے ذریعہ مصر میں جمہوریت کا خون کیا گیا اور پورے ملک کو ظلم و استبداد کا شکار بنایا گیا ۔ مصر کی عدالت کے اس فیصلہ کو جس میں ایک سو سے زائد اخوان المسلمون سے وابستہ افراد اور عالم اسلام کے ممتاز فقیہ اورمذہبی قائد علامہ یوسف القرضاوی شامل ہیں اس کو تمام اہل علم کے ساتھ تمسخر سمجھا جارہا ہے، اور قانون کی دھجیاں اڑانے کے مترادف سمجھا جارہا ہے ‘ قرضاوی صاحب پور ی دنیا میں پر امن بقائے باہم کے علم بردار سمجھے جاتے ہیں اور انکی 100 سے زائد کتابوں میں اعتدال و امن سلامتی کا پیغام ملتا ہے۔ ایسے معتبر اہل علم کے خلاف پھانسی کی سزا بذات خود سرکاری دہشت گردی ہے ۔ مصر کے موجودہ صدر و سابق فوجی سربراہ عبدالفتاح السیسی جس نے صدرمحمد مرسی کی حکومت کو فوجی بغاوت کے ذریعہ معزول کرکے اپنی حکمرانی کی راہیں ہموار کرلی اور آج مصر کے اقتدار پر فائز ہوکر اخوان المسلمین کے قائدین، اراکین اور انکی تائید کرنے والوں کے خلاف ظالمانہ کارروائیاں انجام دینے کیلئے انکے خلاف سخت دفعات لگاکر عدلیہ کا استعمال کررہے ہیں۔ ان دنوں مصر کی جیلوں میں قیدیوں پر جنسی تشدد کا انکشاف بھی ہوا ہے ۔ مصر میں ہنگامی حالات کا اعلان کردیا گیا کیونکہ محمد مرسی ، علامہ یوسف القرضاوی اور محمد بدیع کو پھانسی کی سزا سنائے جانے کے بعد ملک بھر میں حالات خطرناک موڑ اختیار کرسکتے ہیں۔ترکی کے صدر رجب طیب اردغان نے محمد مرسی کو سزائے موت سنائے جانے پر عالمی ممالک کی خاموشی پر سوالیہ نشان اٹھایا ہے۔

شام میں بشارالاسد کی فوج اور داعش کے درمیان گھمسان لڑائی
داعش کے جنگجوؤں نے شام کے تاریخی شہر تدمر کے رہائشی علاقے پر راکٹوں سے حملہ کیا جس کے نتیجے میں دو بچوں سمیت پانچ افراد ہلاک ہونے کی اطلاعات ہیں۔برطانیہ میں قائم شامی آبزرویٹری برائے انسانی حقوق نے تدمر کے نواح میں واقع ایک دو ہزار سالہ قدیم تاریخی جگہ کے نزدیک داعش کے جنگجوؤں اور سرکاری فوج کے درمیان شدید لڑائی کی اطلاع دی اس جگہ کو یونیسکو نے عالمی ثقافتی ورثہ قرار دے رکھا ہے۔آبزرویٹری کے ڈائریکٹر رامی عبدالرحمان نے صحافیوں کو بتایا ہے کہ داعش کے جنگجوؤں نے پہلی مرتبہ تدمر شہر پر بڑی تعداد میں راکٹ فائر کیے ہیں۔انہوں نے تدمر کے نواحی علاقے پر قبضہ کر لیا ہے اور وہ شہر میں واقع جیل اور تیل اور گیس کی تنصیبات پر حملے کررہے ہیں۔شام کے محکمہ نوادرات اور تاریخی آثار کے ڈائریکٹر مامون عبدالکریم کا کہنا ہے کہ دو راکٹ تدمر کے عجائب گھر کے باغ میں گرے تھے۔اس جگہ بہت سے مجسمے مقابر اور دوسرے نوادرات ہیں جنھیں بڑی حفاظت سے رکھا گیا ہے۔تاہم حملے میں ان کو کوئی نقصان نہیں پہنچا تھا۔داعش کے بڑھتے قدم سے بشارالاسداور انکی فوج کی پسپائی ایران اور شیعہ ملیشیاء و حزب اﷲ کے لئے پریشان کن حالات پیدا کرسکتے ہیں اور جوابی کارروائی کیلئے ایران، یمن اور عراق میں شیعہ ملیشیاء کے ذریعہ سنی علاقوں کو نشانہ بناسکتا ہے۔ عراق، یمن، شام، فلسطین، مصر وغیرہ میں حالات انتہائی سنگین ہوتے جارہے ہیں ۔ عالم اسلام کے رہنماؤں کو مسلمانوں کی حفاظت کے لئے مؤثر اور نئی حکمتِ عملی کے ذریعہ فیصلے کرنے ہونگے ورنہ مستقبل قریب میں مسالک کی بنیاد پر حالات مزید بگڑ سکتے ہیں ۰۰۰

تنظیم او آئی سی کا اجلاس اور ۰۰
عالم اسلام کے حالات انتہائی سنگین ہوتے جارہے ہیں ان حالات میں مسلم حکمرانوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ اہم فیصلے کرنے کے لئے اتحاد کو ترجیح دیں ۔کویت میں مسلم ممالک کی تنظیم او آئی سی کے رکن ممالک کے وزرائے خارجہ کا اجلاس 27؍ مئی کو ہونے والا ہے۔ جس میں یمن، شام ‘ فلسطین اور لیبیا کی صورتحال پر بات چیت کی جائے گی۔ دو روزہ 42 ویں اجلاس میں میانمار میں روہینگیا کے مسلمانوں کو درپیش مسائل کا بھی جائزہ لیا جائے گا ۔اس موقع پر تنظیم کے خصوصی رابطہ گروپوں کے اجلاس کا انعقاد بھی ہوگا جس میں عالمی اور صومالیہ سمیت دیگر افریقی ممالک کے حوالے سے امن و امان سمیت دیگر اہم امور پر بھی بات چیت کی جائے گی۔ اجلاس میں دہشت گردی اور انتہا پسندی کے موضوع بھی زیر غور لائے جائیں گے۔ خصوصاً موجودہ حالات میں 57اسلامی اکثریتی ممالک کی اس تنظیم کو اہم فیصلے کرنے ہونگے کیونکہ یہ تنظیم 1.2ارب مسلمانوں کے مفادات کے تحفظ کیلئے کام کرتی ہے ۔ تنظیم تعاون اسلامی کاصدر مقام جدہ ، سعودی عرب ہے اور ایران اس کا رکن ملک ہے ۔ تنظیم کے موجودہ سکریٹری ایاد بن امین مدنی ہیں جو سعودی عرب سے تعلق رکھتے ہیں۔ اب دیکھنا ہے کہ تنظیم تعاون اسلامی کے اس اجلاس میں کتنے ممالک شرکت کرکے خطے کے سنگین مسائل کے حل کیلئے پہلے کرتے ہیں۰۰۰
Dr M A Rasheed Junaid
About the Author: Dr M A Rasheed Junaid Read More Articles by Dr M A Rasheed Junaid: 14 Articles with 10833 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.