بول‘‘ اب کیا ہوگا؟

پچھلے کئی ماہ سے میڈیا کی دنیا میں بول کا بہت بول بالا ہورہا ہے۔ جس کو دیکھو بول کے گن گارہا ہے۔ بڑے بڑے چینلز سے بڑے بڑے نام بول میں شامل ہورہے ہیں۔ کامران خان،نصرت جاوید، افتخاراحمد اور عاصمہ شیرازی جیسی ہستیوں نے سب سے پہلے بول کی بہتی گنگا میں ہاتھ دھوئے۔ روز ایک ایک صفحے کے اخبار میں اشتہار آرہے تھا کہ بول آرہاہے۔ سوشل میڈیا پر بھی اس کی بڑی دھوم مچی ہوئی تھی۔ ہر دوسراشخص بول جوائن کرنے کے لیے تیار تھا۔ مجھے بھی ایک دوست نے کہا کہ خان صاحب آپ بھی بول جوائن کرلو بہت اچھا میڈیا نیٹ ورک آرہا ہے ۔سب چینل کو مات دے گا۔ میں تو ابھی اس کو جوائن کرنے کا سوچ بھی نہ سکا کہ اچانک ایک دھماکا ہوا اور بس پھر کیا ؟ایسا لگا جیسے بول کی بولتی بند ہو رہی ہے۔

پچھلے چند دن سے ہر چینل پر ایک ہی موضوع زیر بحث تھااور وہ موضوع تھا ایگزیکٹ کا۔ پہلے تو میں نے ایگزیکٹ کمپنی پر اتنی توجہ نہ دی کیونکہ میں سمجھا یہ بھی دونمبر دھندا کرنے والا کوئی ادارہ ہے جو میڈیا نے پکڑلیا اور اب اس پر واویلا ہورہا ہوگا۔پاکستان میں دو نمبر کام کرنے والوں کی کمی نہیں کیونکہ قائداعظم کی تصویر(رشوت کے نوٹ) کا احترام ملک عزیز کے طول و عرض میں بہت زیادہ ہے۔ میرے سمیت آپ سب سنتے ہیں کہ فلاں محکمہ میں فلاں جاب اتنے لاکھ دے کرحاصل کی ہے۔ میرے خیال میں محکمہ تعلیم سب سے معتبر ادارہ ہے کیونکہ اس میں بھرتی ہونے والے اساتذہ نے ملک کے مستقبل کے نونہال تیار کرنے ہوتے ہیں مگر جب یہ لوگ اپنی ایک سیٹ حاصل کرنے کے لیے ہزاروں روپے دیں گے اور میرٹ پر کام نہیں ہوگا تو پھر ہمارا معاشرہ کیسے ترقی کرسکتا ہے؟ اب تو یہاں تک نوبت آگئی کہ حکومت پنجاب نے اس محکمے میں سختی کی ہے اور میرٹ کو اولین ترجیح دی ہے تو راشی لوگ اب بھی پیسے لینے سے باز نہیں آرہے وہ لوگوں سے پیسے لے لیتے اگر ان کا میر ٹ پر نمبر آجائے تو وہ ان کو پیسوں کو رزق حلال سمجھ کر رکھ لیتے ہیں اور اگر نہ آئے تو پھر کہتے ہیں کہ’’ سوری سر سختی بڑی ہے آپ کا کام نہیں ہوسکا‘‘۔

بات ہورہی تھی ایگزیکٹ کی۔ قصہ کچھ یوں ہے کہ امریکی اخبار ’’نیویارک ٹائمز‘‘ کی رپورٹ کے مطابق ایگزیکٹ نے دنیا بھر میں جعلی ڈگریاں فروخت کر کے لاکھوں ڈالر کمائے ہیں۔ اس کمپنی نے ایسی ڈگریاں بھی جاری کیں، جن پر امریکی محکمہ خارجہ کے امتیازی نشانات اور وزیر خارجہ جان کیری تک کے دستخط موجود ہیں۔ مزید یہ کہ ایگزیکٹ ’کولمبیانا‘ اور ’بارکلے‘ جیسے ناموں سے مختلف جامعات کی ایسی 370 ویب سائٹس بھی چلا رہی ہے، جو جعلی تعلیمی اسناد جاری کرنے میں اس کمپنی کی مدد کرتی ہیں۔

امریکی اخبار کے اس اداریے کے بعد تو جیسے پاکستان میں بھونچال آگیا ہو۔ ہر کوئی اس کے خلاف آواز اٹھا نے لگا۔بات جعلی ڈگریوں تک کی ہوتی تو شاید میڈیا بھی اتنا شور نہ مچاتا ۔شورمچانے کی اصل وجہ کوئی اور تھی کیونکہ ایگزیکٹ بہت جلد ہی ’’بول‘‘ کے نام سے پاکستان کا سب سے بڑا ٹی وی چینل بھی شروع کرنے والی ہے۔ اس سلسلے میں جیسا کہ میں پہلے بھی لکھ چکا ہوں کہ’ ’بول‘‘ نے پڑے پیمانے پر بھرتیاں بھی کر رکھی ہیں اور ان میں پاکستانی صحافتی شعبے کے بڑے بڑے نام شامل ہیں۔

لوگوں کا خیال ہے کہ یہ جو اتنا بھونچال اٹھ رہا ہے یہ سب ’’بول‘‘ کے مخالف اٹھا رہے ہیں کیونکہ میڈیا کے ٹھیکیدار نہیں چاہتے کہ ان کا کوئی مقابلہ کرے۔ میرا سوال یہ نہیں کہ میڈیا کا ٹھیکیدار کون ہے یا کون نہیں۔ بات ہے جعلی ڈگریوں کی اور اس سے اربوں کھربوں روپے کمانے والوں کی اورپاکستان کو بدنام کرانے والوں کی۔ پاکستان میں کافی عرصہ سے مختلف شہروں میں ایگزیکٹ کے دفاتر قائم ہیں اور جوبڑی دیدہ دلیری سے یہ کام کررہے تھے۔ کیا ہماری حکومت یا دوسرے ادارے سوئے ہوئے تھے جن کو یہ بھی نہیں معلوم کہ ان کی پلکوں کے نیچے کیا ہورہا ہے۔ یہاں عام پبلک کے لیے تو حکم صادر کردیے جاتے ہیں کہ اگر کوئی اپنا مکان یا دکان کرائے پر دے تو پہلے اس کی چھان بین کرے اور یہاں تک حکم دیا گیا کہ تھانے میں اس کی معلومات درج کرائے اور ہمارے تمام سکیورٹی اداروں سمیت حکمران خود انٹرنیشنل سطح پر کام کرنے والوں سے بے خبر تھے یا پھر اس کے پس پردہ بھی کوئی ایان علی جیسی غیر مرئی طاقت تھی؟

افسوس تو اس بات کا ہے کہ ہماری عدلیہ نے کئی سیاستدانوں کو جعلی ڈگریاں ثابت ہونے پر نااہل قرار دیا مگر کبھی یہ نہیں پوچھا کہ یہ جعلی ڈگریا ں کہاں سے حاصل کیں؟اگر جس ادارے سے جعلی ڈگری حاصل کی اسکے ادارے کے خلاف ایکشن لیا جاتا تواس طرح دو نمبر دھندا کرنے والوں کی نہ صرف حوصلہ شکنی ہوتی بلکہ ان سیاستدانوں کا مکروہ چہرہ بھی سامنے آجاتا جو ایسے اداروں سے تعلق رکھتے ہیں۔ عدلیہ کے علاوہ ہمارے حکمرانوں نے بھی ان جعلی ڈگری بنانے والے اداروں کے خلاف کیوں کاروائی نہ کی؟ کیا سب قانون غریبوں کے لیے ہیں؟ قانون کی مثال دیکھنی ہے تو ایان علی کی لے لیں۔غریب جیل ہوتو اس کو ایک سے دوسرا سوٹ پہننا نصیب نہیں ہوتا اور یہاں کرائم گرل ماڈل جیل سے ایسے آرہی ہوتی ہیں جیسے کسی کیٹ واک میں ۔ڈریس، میک اپ ، شوزاور بالوں کے سٹائل تک ،کسی میں کوئی کمی نہیں ہوتی۔

میڈیا چینل کے آنے یا نہ آنے سے عوام کو کوئی غرض نہیں اگر غرض ہے تو دونمبر کام کرنے والوں کو کیفر کردار تک پہچانے سے ہے۔ بول کی بولتی تو شاید اب بندہوتی نظرآرہی ہے کیونکہ دوسرے چینلز سے پرواز کرکے بول کی چھتری پربیٹھنے والوں نے اب اُدھر سے بھی اُڑائی (پرواز) ماردی ہے اور ابھی تک فضا میں ہی پرواز کررہے ہیں اور دیکھنا ہے کہ یہ پرندے اب کس چھتری پر اترتے ہیں۔

اب دیکھنا یہ ہے کہ ایگزیکٹ کے خلاف پاکستانی تاریخ کے مطابق ایسے ہی آہنی ہاتھوں سے نپٹا جائے گا جس طرح پہلے ــ’’منڈا منڈا ‘‘ڈال دیا جاتا رہا ہے؟ کیا بول لانچ ہوسکے گا یانہیں؟کیا بول کے معاملے میں دوسرے میڈیا چینلز کی بات درست ثابت ہوتی ہے کہ شعیب شیخ کی وضاحت کام آتی ہیں؟ گرد جلد چھٹنے والی اور دودھ کا دودھ اور پانی کاپانی سب کے سامنے ہوگا۔
Aqeel Khan
About the Author: Aqeel Khan Read More Articles by Aqeel Khan: 283 Articles with 234596 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.