ایک صدی سے زیادہ دنیاکی زبان
پریہ ضرب المثل عام تھی کہ برطانیہ کے اقتدار میں سورج غروب نہیں ہوتایعنی
دنیاکے ایک وسیع وعریض علاقے پرانگریزکی حکومت تھی لیکن آج برطانیہ کی
حکومت چندجزیروں تک سکڑگئی ہے اورکئی ماہ سورج بھی دکھائی نہیں دیتالیکن اب
برطانیہ کوجمہوریت کی ماں ضرورقرار دیاجاتاہے۔ حال ہی میں برطانیہ کے
انتخابات مکمل ہوئے ہیں اور اس مرتبہ ٹوری پارٹی اقتدارکے سنگھاسن پراکیلی
ہی براجمان ہو گئی ہے اورڈیوڈ کیمرون اگلے پانچ سال ١٠ڈاؤننگ اسٹریٹ سے
برطانیہ پرحکومت کریں گے۔ قدرتی طورپراب سوچنے سمجھنے والوں کے سامنے ایک
ہی سوال ہے کہ آئندہ کیاہوگا؟اس سوال کاایک جملے میں یہ جواب ہے کہ برطانیہ
عسکری اورسفارتی قوت سے محروم ہوتا چلا جائے گا۔برطانیہ کی انتخابی مہم کے
دوران ساری دنیاکی نظریں برطانیہ پرتھیں مگریہ نگاہیں پیداواری ریاست
اورتیزی سے بہتر ہوتی معیشت پرنہیں تھیں جس کی بابت وزیراعظم ڈیوڈ کیمرون
بڑھ چڑھ کرباتیں کرتے رہے اورنہ ہی برابری سے متعلق اس اہم بحث پرتھیں جو
لیبرپارٹی کے رہنماء ملی بینڈچھیڑناچاہتے تھے۔
روسی جارحیت صرف یوکرین تک محدودنہیں ہے،روس کے بمباراب برطانیہ کے فضائی
دفاع کاامتحان لے رہے ہیں جیساکہ انہوں نے سرد جنگ کے عروج پرکیاتھا ۔
سینکڑوں برطانوی نوجوان شام میں داعش کے شانہ بشانہ لڑنے کے لئے جاچکے ہیں
اوران کے جہادی ساتھی لیبیامیں بحیرہ روم کے ساحل پر عیسائیوں سے جنگ میں
مصروف ہیں۔امریکی سینیٹ کی آرمڈسروسزکمیٹی کے چیئرمین جان مکین کہتے ہیں کہ''
ہنری کسنجرسے لے کرمیڈیلین البرائٹ تک ہماری کمیٹی کے سامنے بیان دینے والے
ہر شخص کا کہنا تھاکہ یہ ان کی زندگی کے سب سے زیادہ پریشان کن مواقع ہیں''۔
اس کے باوجودبرطانیہ دفاعی بجٹ میں کمی کررہاہے جوجان مکین کے بقول حالات
پراثر اندازہونے کی صلاحیت کیلئے تباہ کن ہے۔
مارگریٹ تھیچرخودکودوامریکی صدورکی انتہائی قریبی ساتھی سمجھتی تھیں اورعام
تاثربھی یہی تھا۔انہیں جب لگاکہ ان کے نظریاتی رفیق رونالڈریگن روسیوں کے
ساتھ مذاکرات میں مات کھاسکتے ہیں توانہوں نے جوہری ڈراوے کی بات کی
پرزوروکالت کی ۔ٹونی بلیئرنے نیٹو اوربل کلنٹن کوکوسووومیں فوجی کاروائی کی
طرف دھکیلاگوکہ بعدازاں عراق میں فوجی مداخلت کاانجام براہوا۔وہ سمجھتے تھے
کہ برطانیہ کوان ممالک کی صفحہ اوّل میں ہوناچاہئے جوصدام حسین کے وسیع
پیمانے پرتباہی پھیلانے والے ہتھیاروں کے ممکنہ خطرے سے نمٹنے کیلئے
تیارہیں حتیٰ کہ گورڈؤن براؤن جیسے ناقدنے بھی ٢٠٠٨ء کے معاشی بحران سے
نمٹنے کیلئے بین الاقوامی ردّعمل کاساتھ دیا۔
ڈیوڈکیمرون نے ٢٠١٠ء میں اس وعدے کے ساتھ عہدہ سنبھالاکہ ان کی خارجہ
پالیسی مختلف مگرانتہائی متحرک ہوگی۔انہوں نے اس سال ایک تقریرمیں اس
تاثرکو محض ایک مفروضہ قراردیاکہ برطانیہ اب دنیامیں بڑاکردارادانہیں کر
سکے گا۔اس وقت برطانیہ کادفاعی بجٹ دنیا میں چوتھابڑابجٹ تھا،اس کی امریکا
کے ساتھ گہری اورقریبی شراکت داری تھی اوروہ یورپین یونین کافعال رکن تھا ۔
اس کے پاس بہترین تجارتی قوت تھی جسے وہ ایک نئے ہتھیارکے طورپراپناقدوقامت
بڑھانے کیلئے استعمال کرسکتاتھا۔کیمرون نے زعم بھرے لہجے میں کہاکہ زمین
پرچندممالک کے پاس اثاثوں کایہ امتزاج ہے اوران میں سے بھی کچھ کے پاس یہ
صلاحیت ہے کہ ان کابہترین استعمال کرسکیں۔وہ اثاثے اب رائیگاں اورضائع ہو
چکے ہیں،برطانیہ نے افوج کی تعدادمیں کمی کردی ہے ۔اس کابجٹ دنیاکے چوتھے
بڑے بجٹ سے چھٹے نمبر آگیاہے۔
گزشتہ سال کے اواخرمیں افغانستان میں نیٹوکی جنگی مہم کے خاتمے نے دور
درازعلاقوں میں انسدادبغاوت کی مشکل مہمات کے حوالے سے ایک لکیرکھینچ دی
ہے۔بیرون ملک مہم جوئی کی رہی سہی بھوک کو ٢٠١١ء میں لیبیامیں مداخلت سے
مٹادیاجس نے خستگی کاشکار عسکری وسائل اورمکمل منصوبہ بندی کے بغیرٹانگ
اڑانے کے خطرات کونمایاں کردیا۔اس کے بعدبرطانیہ اپنے دستیاب سفارتی وعسکری
وسائل کے استعمال کے حوالے سے مزیدبیزار ہوگیا ۔ یہ ایک ایسے ملک کاواضح
زوال ہے جواپنے سفارت کاروں کی قابلیت ،مسلح افواج کی چابکدستی اورپیشہ
وارانہ صلاحیت ،سیاسی رہنماؤں کی عالمی ساکھ اوراپنے قدسے اونچاہوکربات
کرنے کی اہلیت کے حوالے سے معززتھا۔
گزشتہ ستمبرمیں ویلزمیں نیٹوسمٹ کی میزبانی کرتے ہوئے کیمرون نے دیگر ممالک
کواس وعدے پر رضا مندکرنے کی کوشش کی کہ وہ برطانوی نقشِ قدم پرچلتے ہوئے
اپنی مجموعی ملکی پیداوارکامحض دوفیصد دفاع پرخرچ کریں، جیساکہ ان سے توقع
کی جاتی ہے۔پھر دسمبر میں ان کے وزیرخزانہ جارج اوسبورن نے اگلی پارلیمان
کے اخراجات بتاتے ہوئے اعلان کیاکہ برطانیہ نہ صرف آئندہ مالی سال میں
نیٹوہدف سے کچھ نیچے ہی رہے گا (٩٥.١فیصد، حالانکہ پہلی دفاعی بجٹ میں جنگی
پنشن بھی شامل کی گئی)بلکہ وہ اس میں مزیدکمی بھی کرتا رہے گا۔
لندن میں قائم آریوایس آئی نامی تھنک ٹینک نے منسلک میلکم شامرزی کاتخمینہ
ہے کہ اگربرطانوی حکومت اپنے مالی منصوبوں پرقائم رہتی ہے تواگلے پانچ سال
میں وزارتِ دفاع کے خرچوں میں ١٠ فیصد کمی ہوگی،وہ بھی ایسے وقت میں جب
اہلکاروں اورسامانِ حرب کے اخراجات افراطِ زرسے بھی زیادہ رفتار سے بڑھیں
گے۔ دائرے کوجوچیزمزید تنگ کرتی ہے وہ یہ ہے کہ اس مرحلے کے اختتام تک
دونئے طیارہ برداربحری جہازبیڑے میں شامل ہوں گے جن سے انتہائی مہنگے ایف
٣٥ طیارے اڑان بھریں گے اورچارنئی ٹرائڈنٹ بیلسٹک میزائل آبدوزوں کی تیاری
بھی جاری رہے گی۔اگرحکومت باقی بجٹ کوجوں کا توں رکھ کرحربی سامان کے خرچے
اگلے سال سے ایک فیصد بڑھانے کے اپنے وعدے پرقائم رہی تب بھی برطانیہ ٢٠١٩ء
تک جی ڈی پی کامحض ۱،۷۵فیصدہی دفاع پرخرچ کرے گاجوکہ ٢٠١٠ء میں ٦.٢ فیصد
تھا۔
ہوورانسٹی ٹیوشن میں کام کرنے والی ری پبلکن انتظامیہ کی سابق سیکرٹری
آفیسر کوری شاکے دوفیصدکی شرح کوقابل تقلیدعلامت قراردیتی ہیں ،وہ کہتی ہیں
کہ ہم برطانیہ کواتحادیوں کے طرزِعمل کا معیارطے کرنے والے سمجھتے
ہیں۔زیادہ حقیقت پسندی کی طرف جائیں تو امریکی آرمی چیف رے اوڈی ایمو سوچتے
ہیں کہ کیامستقبل میں برطانیہ کے پاس اتنے فوجی ہوں گے کہ وہ ایک امریکی
ڈویژن کے ساتھ کام کر سکیں۔شامرزکاسب سے مایوس کن تجزیہ کہتا ہے کہ برطانوی
فوج جوپہلے ہی ایک لاکھ دوہزارسے ٨٢٠٠٠تک آچکی ہے، ۵۰ہزار تک محدودہوسکتی
ہے۔
عسکری اورسفارتی ،دونوں لحاظ سے برطانیہ بیرون ملک بہت کم مصروف ہے۔کیمرون
نے ولادی میرپوٹن سے معاملہ کرنے کی مشکل اور ناگوارذمہ داری دیگریورپی
رہنماؤں خصوصاً اینگلامرکل کے لیے چھوڑ دی ہے۔عراق میں داعش کے خلاف
کاروائی میں برطانیہ کاحصہ مشکل سے یومیہ ایک فضائی حملہ ہے۔ وزیرخارجہ
داعش کے خلاف شام میں کاروائی کے خلاف رائے دے چکی ہے ۔ یہ اگست۲۰۱۳ء کی اس
بے نتیجہ بحث کی طرف اشارہ تھاجب کیمرون نے صدربشارالاسدکوکیمیائی ہتھیاروں
کے استعمال پرسزا دینے کی اجازت مانگی اورناکام رہے تھے۔
آریوایس آئی کے ڈائریکٹرمائیکل کلارک کہتے ہیں کہ میں نے اس سلسلے میں بہت
سفرکیااوراندازہ کیاکہ جہاں ضروری ہووہاں ہمارے اتحادی ہمیں موجود پانے کی
بہت زیادہ توقع رکھتے ہیں ، جب وہ ہمیں نہیں پاتے تومایوس ہوتے ہیں
اورہمارے عزم میں کمی کومحسوس کرتے ہیں۔ان کے نزدیک یہ چیز مدد گارنہیں ہے
کہ صدربارک اوبامانے خارجہ پالیسی کاایک تسلسل کاحامل اور مضبوط طریقہ وضع
کر دیا ہے جس کی تقلید برطانیہ بھی کرسکتاہے ۔ بہرحال ماضی میں جب کبھی
امریکی قیادت لڑکھڑاتی ہے، برطانوی وزرائے اعظم نے ناخن تیز کرنے میں ان کی
مددکی ہے۔
طاقتوردفترخارجہ ودولت مشترکہ میں مورال گرچکاہے۔بلیئرنے خارجہ پالیسی ١٠ڈاؤننگ
اسٹریٹ منتقل کرکے اسے نظراندازکیا۔ملک کے انتہائی سنیئرسفارت کاروں میں سے
ایک کاکہناہے کہ ''آپ دیکھ سکتے ہیں کہ کس طرح دفترخارجہ کی روسی امورمیں
مہارت ضائع کی گئی۔جب یوکرین کابحران آیاتوسردجنگ کے زمانے کے لوگ وہاں تھے
ہی نہیں۔'' وہ البورن کومعاشی مفادات کی تابع خارجہ پالیسی تھوپنے کا الزام
دیتے ہوئے چین کے سامنے گھٹنے ٹیک دینے کوقابل افسوس کی اعلیٰ سطح پربین
الاقوامی امورمیں دلچسپی کوتیزی سے زوال پذیرقراردیتے ہیں،یہ دیکھناحیران
کن تھاکہ سیاسی جماعتوں نے بھی اس انداز میں اپنے ہاتھ باندھ لیے ہیں ۔بین
الاقوامی ترقی کا محکمہ خارجہ پالیسی نہیں چلاتا۔برطانوی دفتر خارجہ کے
ناکارہ ہونے کے تاثرکی ایک اوروجہ یہ بھی ہوسکتی ہے کہ یورپی یونین کے
متعلق حکومتی سوچ کے ساتھ ہم آہنگ نہیں رہی۔
اس تاثرکے بارے میں زیادہ بحث نہیں کی جاسکتی کہ برطانیہ اب یونین کا
ادھورارکن رہ گیاہے اوراگر ڈیوڈکیمرون کی جانب سے ٢٠١٧ء میں رکن رہنے یانہ
رہنے کے متعلق ریفرنڈم کے نتائج غلط آ گئے تو شایدبرطانیہ یونین کا رکن ہی
نہ رہے گوکہ برطانیہ نے ہمیشہ یورپی یونین کے ساتھ مل کرچلنے کی سوچ اپنائی
لیکن کیمرون نے معاملات ان رشتوں کو استوارکیے بغیرچلانے کی کوشش کی ہے ۔
اب جب کیمرون دوبارہ مسنداقتدارپرفائزہوگئے ہیں تو ماضی کی لغزشوں
پرنظرڈالیں توآپ دیکھیں گے کہ ٢٠١١ء میں مالی معاہدے کے غیرمؤثرویٹوسے
لیکرگزشتہ سال یورپین کمیشن کی صدارت کے لیے ژاں کلاڈ جنکر کی مہم کوروکنے
کی ناکام کوشش تک کیمرون سب کچھ غلط کہتے رہے اورنتیجتاًاپنی رہی سہی ہٹ
دھرمی دکھانے کیلئے اکیلے رہ گئے۔ان کی اس ناکامی کایک سبب یہ ہے کہ جب ایک
دہائی قبل وہ ٹوری پارٹی کی سربراہی کی جنگ لڑرہے تھے توانہوں نے یونین سے
متعلق خدشات کے شکارعناصرکواس وعدے پر ساتھ ملایاکہ وہ یورپی پارلیمان میں
دائیں بازوکی یورپی یورپین پیپلزپارٹی کاگروپ چھوڑدیں گے،یہ اقدام انہیں
فیصلہ کن سیاسی فراست سے محروم کر گیا۔
ان کی حکومت ممکنہ اتحادیوں کے ساتھ تعلقات بڑھانے اوریورپی یونین کی طرح
کام کرتی ہے'' یہ سمجھنے میں ناکامی کامطلب یہ ہوسکتا ہے کہ کیمرون برطانوی
رکنیت کی شرائط میں تبدیلیوں کی جو امید رکھتے ہیں،وہ شایدپوری نہ
ہوسکے۔ماضی قریب کے جھروکے میں جھانکیں تونظرآجائے گاکہ برطانوی وزاراء
کمزوراراکین سمیت کم ازکم اسپین اورفرانس جیسے دوبڑے ارکان کوبھی حقارت کے
ساتھ نظر اندازکرنے کی شہرت رکھتے ہیں۔اس لیے برطانیہ کے یورپی یونین
چھوڑتادیکھ کریہ ممالک ناخوش ہرگز نہیں ہوں گے ‘‘۔ہیزبرگ کہتے ہیں کہ
فرانسیسی اشرافیہ کے لیے برطانیہ کے ساتھ گزر اوقات بڑی دردناک ہے۔اخراج
برطانیہ کامطلب اگرسرمایہ کاروں کابرطانیہ چھوڑناہو تو ان میں سے کچھ کیلئے
ناخوشگوار نہیں۔
لندن میں قائم تھنک ٹینک شیتم ہاؤس میں امریکی امورکی نگران زینیاویکٹ
برطانیہ کے اہم ترین اتحادی کانقطہ نظرواضح کرتے ہوئے کہتی ہیں کہ جہاں تک
واشنگٹن کاتعلق ہے ، تعلقات کاا نحصار تین پایوں والی کرسی پرہے۔اوّل
برطانوی فوج اورخفیہ ایجنسیوں کی صلاحیت پر اعتباردوسرے برطانیہ کی یورپی
یونین کی رکنیت،سوم برطانیہ کی واشنگٹن میں''نرم طاقت''۔عالمی امور
پرروایتاًدونوں بااعتمادساتھی رہے ہیں جن کانقطہ نظرکبھی کبھی مختلف ہوتا
ہے اوران میں سے ایک بین الاقوامی سطح پریہ پیغام بھیجتاہے کہ امریکا
انفرادی اقدامات نہیں کر رہا۔وہ مزیدکہتی ہیں کہ دفاع پرمحدوداخراجات (کرسی
کے)پہلے پائے کو کمزورکردے گی۔تیسراشایدبچ جائے مگرکرسی ایک ٹانگ پرکھڑی
نہیں رہ سکتی۔ |