جنوبی ایشیا کے سمندروں میں
ہزاروں نیم برہنہ،بھوکے پیاسے ،بے یارو مدد گار روہنگیا مسلمانوں کی کشتی
ساحل کی تلاش میں بھٹک رہی ہے ۔کبھی ملیشیا ،کبھی انڈو نیشیا،اور کبھی
تھائی لینڈ کے ساحل پر لنگر انداز ہونے کی کوشش کرتی ہے مگر اتنی بڑی تعداد
میں کوئی ملک ان بھوکے ننگے انسان نما ڈھانچو ں کو پناہ دینے کے لئے تیار
نہیں ہے ۔ہزاروں خواتین اور بچے بھوکے پیاسے تڑپ رہے ہیں۔لیکن انہیں ساحل
نصیب نہیں ہو رہا ہے ۔2012سے لگا تار برما میں بدھسٹوں کے ذریعہ مسلمانوں
پر عرصہ حیات تنگ کئے جا رہے ہیں، باقاعدہ نسل کشی کے ارادے سے برسوں سے
آباد مسلمانوں کو ختم کرنے کے لئے قیامت صغریٰ ڈھائی جا رہی ہے ۔مگر عالمی
برادری کے ساتھ عالم اسلام بھی کوئی موثر قدم اٹھانے سے قاصر ہے ۔ سعودی
عرب،ترکی اور کچھ دیگر ممالک کے ذریعہ امداد ضرور کئے گئے مگر وہ بھی اونٹ
کے منہ میں زیرا کے مماثل ہی تھے۔عالمی برادری نے برما حکومت سے مسلمانوں
پر مظالم بند کرنے اور انہیں اپنا شہری تسلیم کرنے کی تلقین ضرور کی تھی
لیکن اہنسا اور عدم تشدد کے پجاری ان بدھشٹوں پر کوئی اثر نہیں ہوا ۔ برما
حکومت نے نہایت ہی غیر انسانی رویہ کا مظاہرہ کرتے ہوئے روہنگیا مسلمانوں
سے اپنی لا تعلقی کا اظہار کر دیا۔گزشتہ دو تین برسوں سے مسلسل کشت و خون
سے تنگ آ کر مجبورا روہنگیا مسلمانوں نے نقل مکانی کا راستہ اختیار کیا ہے
۔کشتیوں پر سوا ر ہو کر زندگی کی تلاش میں سمندر میں آج بھٹک رہے ہیں مگر
کوئی پوچھنے والا نہیں ہے ۔ انڈو نیشیا ، ملیشیا، تھائی لینڈ اور بنگلہ دیش
سمیت تمام ساحل سمندر آباد ممالک نے انہیں پناہ دینے سے انکار کر دیا ہے ۔بھوکے
،پیاسے اور ادھ ننگے انسانوں سے بھری کشتی ساحل سے ٹکراتی ہے اور حکومتیں
کچھ کھانے پینے کی اشیا کشتی پر پھینک کر سمندر کی طرف دھکیل دیتے
ہیں۔گزشتہ دنو ں ہنگامہ آرائی اور بعض چینلوں کے ذریعہ حالت زار سامنے
آنے کے بعد ترکی کی مداخلت پر انڈو نیشیا اور ملیشیا جیسے بڑے مسلم ممالک
نے انہیں مشروط پناہ دینے پر رضا مندی ظاہر کر دی ہے ۔ان کا کہنا ہیکہ ہم
تارکین وطن کو عارضی پناہ دینے کے لئے تیار ہیں اس شرط پر کہ اقوام متحدہ
سال بھر کے اندران کے لئے سکونت کا انتظام کرے۔تا ہم اقوام متحدہ کی جانب
سے بھی ایک اچھی خبر ہے ،سکریٹری جنرل بانکی مون کاکہنا ہے کہ سمندر میں
پھنسے ہزاروں کی تعداد میں تارکین وطن کو بچانا پہلی ترجیح ہونا چاہیے تاہم
ان کا کہنا تھا کہ علاقائی حکومتوں کو اس انسانی بحران کی جانب توجہ دینے
کی ضرورت ہے جس کے باعث یہ افراد اپنا گھر بار چھوڑنے پر مجبور ہوئے
ہیں۔مگر میانمار اب بھی ہٹ دھرمی پر قائم ہے۔ تھائی لینڈ میں 29 مئی کو 15
ممالک کی کانفرنس منعقد ہونے جا رہی ہے، میانمار کے صدارتی دفتر کے
ڈائریکٹر ڑو ہتائے کا کہنا ہیکہ ان کا ملک اس کانفرنس میں شرکت نہیں کرے گا
کیونکہ دعوت نامے میں ’روہنگیا‘ کا استعمال کیا گیا کیونکہ ان کا ملک
روہنگیا کو تسلیم نہیں کرتاہے۔
تعجب اور حیرت کی بات یہ ہے کہ معمولی قدرتی آفات اور زلزلوں کی تباہی پر
تباہ حال انسانوں کی مدد کیلئے اپنے خزانے کا منہ کھول دینے والے یورپ ،عالمی
برادری اور عالم اسلام انسانی ظلم و تشدد کے شکار ان مسلمانوں کی حالت زار
پر کوئی موثر قدمکیوں نہیں اٹھا رہے ہیں ۔ قدرتی تباہی پر پگھلنے والا دل
انسانی مظالم پر اتنا پتھر کیوں ہو گیا ہے ۔ان بھوکے پیاسے اور زندگی بچانے
کے لئیغذائی اشیا پرآپس میں لڑ کر سیکڑوں مرنے والوں پر نرمکیوں نہیں ہوتا
۔ افسوس کا مقام یہ ہے کہ روہنگیا کے یہ مسلمان صرف اپنے مسلمان ہونے کی
وجہ سے بودھ بھکشوئوں کے ظلم و ستم کا شکار ہو رہے ہیں اور ایسی صورت میں
عالم اسلام کی خاموشی شرمناک ہے ۔ ان کی امیدیں ضرور مسلم ممالک سے وابستہ
تھیں لیکن انڈو نیشیا اور ملیشیا جیسے مسلم ممالک کی بے رخی کے بعد وہ کس
سے شکایت کریں۔صحیح کہا ہے زین شمسی سر نے عالم اسلام کی بے رخیکے شکار
روہنگیا مسلمان اپنی زندگی ہی جینے کیلئے بدھسٹ کیوں نہیں ہو جاتے؟
دوسری جانب مصر میں انصاف کے نام پر نام نہاد عدالتوں کے ذریعہ ایسی عدالت
جن کے عدل پر لفظ ’عدالت‘ بھی شرمندہ ہے ۔انصاف کا خون کیا جا رہا ہے ۔تھوک
کے بھائومیں معمولی غلطیوں اور جرم کا بہانہ بنا کر سیکڑوں افراد کو پھانسی
کی سزا سنائی جا رہی ہے اور عالم اسلام کے سر براہان اس عدال و انصاف کے
خون کے تماشائی بنے ہوئے ہیں۔گزشتہ دنوں مصرکے سابق جمہوری صدر محمد مرسی
سمیت سو اخوانیوں کو ایک مقامی عدالت نے صرف اس جرم میں سزائے موت سنا دی
کہ حسنی مبارک کے دور میں انہوں نے جیل کا گیٹ توڑنے کی کوشش کی تھی۔ایک
جمہوری حکومت کا طاقت کے زور پر تختہ پلٹ کر ایک ڈکٹیٹر فوجی جنر ل کے ہاتھ
میں مصر کی باگ ڈور دے دی گئی اور اب ظلم کی انتہا کرتے ہوئے اسی جمہوری
طور پر منتخب صدر کو سولی پر چڑھانے کی بات کی جا رہی ہے اور جمہوریت کی
بقا کے لئے اپنے توپوں کا منہ کھول دینے والے امریکہ اور یورپین ممالک نے
نوٹس لینا گوارا نہیں کیاصرف بیان بازیوں پر ہی اکتفا کر رہے ہیں۔تعجب اور
حیرت کی بات یہ ہے کہ الفتاح السیسی کے اقتدار میں آنے کے بعد مسلسل مصر
میں عدالتوں کے ذریعہ عدل و انصاف کا خون کیا جا رہا ہے اور عالم عرب اور
عالم اسلام کے تحفظ کیعلمبردار عرب ممالک ان نا انصافیپر خاموش ہیں۔یمن کے
اندر حوثی باغیوں کے خلاف یمن کی عوامی حکومت کو بچانے کیلئے جنگ جائز ہے
تو مصر میں تھوک کے بھائو میں عوام کے ذریعہ منتخب حکمراں کو پھانسی کی سزا
کہاں کا انصاف ہے ؟گزشتہ دنوں الیمامہ محل میں حقوق انسانی سے متعلق
کانفرنس میں شاہ سلمان کا یہ بیان بجا طورپر قابل شتائش اور قابل تقلید ہے
،شاہ سلمان نے سعودی عرب کی جانب سے انسانی حقوق کے تحفظ کے عزم کا اعادہ
کیا۔انھوں نے یہ بات زور دے کر کہی کہ مملکت کے قوانین میں سعودی شہریوں
اور دوسروں کے درمیان کوئی تمیز روا نہیں رکھی جائے گی۔ان کا کہنا تھا کہ
سعودی مملکت کی بنیادیں اسلامی شریعت کی تعلیمات کی پاسداری کے اصول پر
استوار ہیں اور اس میں انسانی حقوق کے تحفظ پر زوردیا گیا ہے۔عالم عرب کو
سمجھنا چاہئے کہ لاکھ سیاسی اختلافہی سہی لیکن اسلامی قوانین اور شریعت
اسلامی کے پاسبان ہونے کے ناطے اگر روئے زمین پر کہیں بھی نا انصافی ہو رہی
ہے تو اس کے خلاف آواز اٹھانا اور حق و انصاف کی سر بلندی کے لئے کھڑا
ہونا ان کا دینی اور اسلامی فرض ہے ۔چاہے وہ مصر میں جنرل الفتاح السسی کے
ذریعہ انصاف کا خون ہو یا روہنگیا مسلمانوں کے ساتھ برما میں بدھشٹ
بھکشوئوں کے ذریعہ نسل کشی ہو۔ |