یوم تکبیر پر عہد کریں!

اﷲ تعالٰی نے قرآن پاک میں فرمایا ہے کہ " اور ان کے لیے تیار رکھو جو قوت تمہیں بن پڑے اور جتنے گھوڑے باندھ سکو کہ ان سے ان کے دلوں میں دھاک بٹھاؤ جو اﷲ کے دشمن ہیں اور ان کے سوا کچھ اوروں کے دلوں میں جنہیں تم نہیں جانتے اﷲ انہیں جانتا ہے اور اﷲ کی راہ میں جو کچھ خرچ کرو گے تمہیں پورا دیا جائے گا اور کسی طرح گھاٹے میں نہ رہو گے" (سورۃ انفال )اﷲ تعالی کے اس فرمان کو مدنظر رکھتے ہوئے پاکستان نے ایٹمی ملک بننے کا فیصلہ کیا جب پاکستان نے ایٹمی دھماکے کیے اس وقت پاکستان بھارت جنگ کا حقیقی خطرہ پیدا ہو گیا تھا۔ بھارت نے 11مئی 1998 کو ایٹمی دھماکے کرکے پاکستان کی سلامتی اور آزادی کے لئے خطرات پیدا کردیئے تھے ۔ بھارت نے ایٹمی دھماکہ کرنے کے علاوہ کشمیر کی کنٹرول لائن پر فوج جمع کر دی تھی۔ اس کے حکمرانوں اور سیاستدانوں کا پاکستان کے بارے میں لہجہ ہی بدل گیا تھا۔ایسا کیوں نا ہوتا ؟ بھارت نے چند دن قبل ایک ساتھ 5 ایٹمی دھماکے کیے تھے ،اور ایٹمی صلاحیت رکھنے والا دنیا کاچھٹا ملک بن گیا تھا ۔اس وجہ سے اس نے ہر محاذ پر پاکستان کو دبانا شروع کر دیا ۔پاکستان کے وزیراعظم میاں نواز شریف پراس وقت بہت دباؤتھا یہ دباؤ دو طرفہ تھا ایک طرف عوام کا دباؤ تھا کہ ایٹمی دھماکہ کر دیا جائے دوسری طرف عالمی طاقتوں کا دباؤ تھا کہ ایسا بالکل نہ کیا جائے۔ یہی وجہ تھی کہ امریکی صدر کلنٹن، برطانوی وزیراعظم ٹونی بلیئر اور جاپانی وزیراعظم نے پاکستان پر دباؤڈالا کہ وہ ایٹمی دھماکہ نہ کریں ( صدر امریکہ مسٹر کلنٹن نے پانچ بار میاں نواز شریف کو ٹیلی فون کیا کہ وہ ایٹمی دھماکہ نہ کریں نیز انہیں پانچ ارب ڈالر امداد کی مشروط پیش کش کی )۔دوسری طرف پاکستان کے نامور صحافی نے 22 مئی کو اپنے کالم میں لکھا ’’پاکستان کی گومگو پالیسی کی وجہ سے بھارت اور مغربی دنیا کو اس وقت تک ہماری صلاحیت کے بارے میں یقین نہیں آسکتا جب تک تجربہ کر کے ہم بتا نہیں دیتے کہ ہماری ایٹمی صلاحیت بھارت سے کس قدر زیادہ اور ترقی یافتہ ہے ‘‘حقیت یہ ہے کہ عوام کے دباؤ کے باعث 28 مئی 1998ء جمعرات کے دن سہ پہر 3 بجکر 40 منٹ پر ڈاکٹر عبدالقدیر خان کی نگرانی اور دوسرے قومی سائنسدانوں کی معیت میں یکے بعد دیگرے 6 ایٹمی دھماکے کر کے پاکستان نے ہمسایہ کی برتری کا غرور خاک میں ملا دیا۔ اس کے ساتھ ہی پاکستان ایٹمی قوت رکھنے والا دنیا کا ساتواں اور عالم اسلام کا پہلا ملک بن گیا۔اس عظیم کارنامے کا سہرا سب سے بڑھ کر پاکستانی عوام ،ذولفقار علی بھٹو ، ڈاکٹر عبدالقدیر خان ، ڈاکٹر ثمرمبارک مند اور ان کے سینکڑوں دیگر ساتھیوں کو جاتا ہے ۔جب پاکستان نے ایٹمی دھماکے کر دیئے تو پاکستان پر امریکہ نے پابندی لگا دی کیونکہ پاکستان نے مسلم ملک ہو کر اتنی ہمت کیسے کی کہ وہ ایٹمی طاقت حاصل کر لی ۔پاکستان کے دشمنوں کے ہاں اس دن صف ماتم بچھی ہوئی تھی دوسری طرف مسلم ممالک خوشیوں سے نہال تھے ۔ سعودی عرب کو اس کی خبر ہوئی تو انہوں نے کسی کی پروا کئے بغیر پاکستان کو فوری طور پر 50ہزار بیرل تیل مفت اور مسلسل دینے کا اعلان کر دیا۔ یہ ہی حال دیگر مسلم ممالک کا تھا ۔

ایٹم بم بنانے میں بھی ان مسلم ممالک نے پاکستان کا بھر پور ساتھ دیا جناب ذولفقار علی بھٹو نے 1966ء میں تجدید اسلحہ کے حوالے سے بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ اگر بھارت نے ایٹم بم بنا لیا تو چاہے ہمیں گھاس کھانا پڑے ، ہم بھی ایٹم بم بنائیں گے ایٹم بم بنانے کے لیے ایٹمی توانائی کمیشن کے سربراہ کا چارج انہوں نے 31 دسمبر 1971ء کو خود سنبھالا ۔ فرانس سے ری پراسیسنگ پلانٹ کی خرید کے معاہدے کی تمام شرائط کو تسلیم کرنے کے بعد سب سے بڑا مسئلہ 300 ملین ڈالر کے اس منصوبے کے لئے سرمائے کا حصول تھا۔ لیبیا‘ سعودی عرب‘ متحدہ عرب امارات‘ کویت اور عراق وغیرہ نے بھرپور مالی تعاون کیا ۔جس کی بدولت پاکستان ایٹمی طاقت حاصل کرنے کے قابل ہوا ۔

پاکستان ایٹمی ملک تو بن گیالیکن اس ملک کو ایٹمی ملک بنانے کے لیے جنہوں نے کوشش کی تھی قوم نے ان کی قدر نہ کی ۔ سب سے پہلے آپ بھٹو صاحب کو دیکھیں کہ اسے سابق صدر ضیاء الحق کے دور میں پھانسی دے دی گئی ۔بھٹو جو کہ عوامی قائد تھا ۔ اور ڈاکٹر عبد القدیر خان صاحب جو کہ محسن پاکستان ہیں کو کہوٹہ ریسرچ لیبارٹری چھوڑ نا پڑی اور پھر سابقہ صدر پرویز مشرف کے دور میں ملک و قوم کی عزت بچانے کیلئے ناکردہ کام اپنے ذمہ لے لیا اور گھر میں نظربند ہو گئے اب بھی نظر بند والی ہی کیفیت ہے ۔ ہم اس یوم تکبیر پر پر زور اپیل کرتے ہیں کہ حکومت بجلی بحران سے نکلنے کے لیے تمام ذمہ داری ڈاکٹر عبدلقدیر خان کو دیں۔آج پاکستان کواٹیمی قوت بنے 17 سال کاعرصہ ہوگیاہے ۔ لیکن وہ معاشی میدان میں کوئی کارنامہ سر انجام نہ دے سکا ہے۔ بے روزگاری ،غربت،نا انصافی،کرپشن اس طرح کے سینکڑوں مسائل میں گھرا ہوا ہے ۔ہمارے لیڈر ایسے ہیں جوکہ صرف اپنے فائدے کی بات کی کرتے ہیں ۔پاکستان ابھی تک ترقی پذیر کیوں ہے؟ بجلی بحران اور دہشت گردی کا خاتمہ کیوں نہیں ہو رہا ؟ عوام بھی اس جرم میں برابر کی شریک ہے ۔پاکستانی عوام غفلت کی گہری نیندسوئی ہوئی ہے کہا جاتا ہے کہ ایک منظم سازش کے ساتھ ان کے مخالفین ان کو ایسی گولیاں دیتے رہتے ہیں جس سے یہ سوئی رہتی ہے ۔یہ بھی کہا جاتا ہے کہ عوام کوجب تک لیڈراچھانہیں ملتا ہم ایک قوم نہیں بن سکتے لیکن حقیقت یہ ہے کہ ہمارے ہاں عوام ابھی بے شعور ہے اسے اچھے لیڈر کی پہچان نہیں ہے ۔اور دوسری بات یہ کہ دشمن کا کام سازش کرنا ہی ہوتا ہے اس پر سازش کا الزام لگانے کی بجائے اس سازش پر عمل کیوں کرتے ہیں۔ یوم تکبیر پر دل بہت اداس ہے اب کچھ لکھنے اور اس پر کچھ پڑھنے کا دل نہیں چاہتا۔ اس کی وجہ یہ ہی ہے کہ جس مقصد کو سامنے رکھ کر عوام نے قربانیاں دیں تھیں ان میں سے کوئی مقصد پورا نہیں ہوا ۔ ہم اﷲ سے ڈرنے کے بجائے ، امریکہ اور برطانیہ سے ڈرتے ہیں ، ان پابندیوں سے ڈرتے ہیں جو امریکہ لگا سکتا ہے ۔ہماری شہ رگ کشمیر دشمن کے قبضے میں ہے بھیک پر گزارہ ہے ،انصاف بکتا ہے اپنی زبان تک ذہنی غلامی کی وجہ سے رائج نہ کر سکے ۔بجلی ایٹمی پاور سے پیدا نہ کر سکے ۔ یوم تکبیر صرف خوشی منانے تک رہ گیا ہے اس ایٹمی پاور سے پاکستان بجلی کے مسائل کو حل کر سکتا ہے پھر بھی ایک عام آدمی تمام بنیادی ضروریات سے آج بھی محروم ہے اور جو نہیں ہے اسکو محروم کیا جا رہا ہے ۔ کوئی بھی دن منانے کا ایک بڑا مقصد ہوتا ہے اور یہ مقصد ہمارے عہد کو دوبارہ سے زندہ کرتاہوتا ہے ۔ اس یوم تکبیر پر ہمیں یہ عہد کرناچاہیے کہ ہمیں ملک سے جھوٹ کاخاتمہ کرناہے ۔ سچ کوعام کرناہے رشوت سے بے اعتنائی برتنی ہے ۔ دیانتداری کواپنامقصدبناناہے ۔سب نے مل کر اﷲ کی رسی کو مضبوطی سے تھامنا ہے ۔مخلص لیڈروں کو چننا ہے ۔اپنی شہ رگ کو دشمن کے قبضے سے آزاد کروانا ہے ۔اور سب سے بڑھ کر جس مقصد کے لیے پاکستان کا قیام عمل میں لایا گیا ہمارے آباؤ اجداد نے قربانیں دیں یعنی اسلامی نظام حکومت کے نفاذ کے لیے دن رات ایک کرنا ہے ۔
Akhtar Sardar Chaudhry Columnist Kassowal
About the Author: Akhtar Sardar Chaudhry Columnist Kassowal Read More Articles by Akhtar Sardar Chaudhry Columnist Kassowal: 496 Articles with 578547 views Akhtar Sardar Chaudhry Columnist Kassowal
Press Reporter at Columnist at Kassowal
Attended Government High School Kassowal
Lives in Kassowal, Punja
.. View More