وزیر اعظم نریندر مودی کی حلف
برداری کو ایک سال ہوا چاہتا ہے۔ اس موقعہ پر مختلف زاویوں سے ان کارکردگی
کے بجائے شخصیت کا جائزہ لیا جارہا ہے۔ لوگ اس بات پر گفتگو نہیں کررہے کہ
اس دوران مودی جی نے قومی یا عالمی سطح کے کن کن مسائل کو حل کیا بلکہ ان
کے ذریعہ پیدا کردہ مسائل زیر بحث آرہے ہیں ۔ ایسے میں ایک موضوع یہ بھی
ہوسکتا ہے کہ آخر مودی جی کا اصل مسئلہ کیا ہے؟ ۲۶ مئی ۲۰۱۴سے قبل توان
کا ہدفِ واحدحلف برداری تھا لیکن اب وہ کیا چاہتے ہیں؟ اگر اس سوال کا جواب
یہ ہے کہ اب وہ تا حیات اقتدار میں رہنا چاہتے ہیں اور تو اٹل جی کی مثال
سامنے ہے ۔ انہیں اگر آج پھر سے وزیرا عظم بنا بھی دیا جائے تو وہ نہیں
جان سکیں گے کہ یہ کیا ہو رہا ہے؟ اور کیوں ہو رہا ہے؟ممکن ہے مودی جی کو
ابھی تک خود اس سوال پر غور کرنے کا موقع ہی نہ ملا ہو کہ وہ کیا اور
کیسےکرناچاہتے ہیں ؟ان کی بھلائی اسی میں ہے کہ وہ جلد از جلد اس کیلئے
فرصت نکالیں اور غوروخوض کرکے کسی نتیجے پر پہنچیں اس لئے کہ صرف باتوں سے
پیٹ تو نہیں بھرتا مگر طبیعت اوب جاتی ہے۔
خیر مودی جی کے مسائل جو بھی ہوںلیکن عوام ملک کا بنیادی مسئلہ یہ ہے کہ ان
کے اچھے دن تو نہیں آئے مگر سیاست کے اوچھے دن ضرور آگئے ورنہ یہ کیوں کر
ممکن تھا کہ ملک کا وزیر اعظم بیرون ملک اپنے ہی باشندوں سے خطاب کرتے ہوئے
فرماتا’’ پہلے لوگ سوچا کرتے تھے کہ انہوں نے پچھلے جنم میں کیا پاپ کئے
ہیں جو ہندوستان میں پیدا ہوگئے‘‘۔ اس ایک جملے سے وزیراعظم کی نفسیات کا
پتہ چلتا ہے۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اس جملے میں ’ پہلے‘ سے کیا مراد ہے؟
ظاہر ہے مودی جی کے وزیر اعظم بن جانے سے پہلے۔ دوسرا سوال کون لوگ یہ سوچا
کرتے تھے؟ چونکہ وزیراعظم ہنوز اپنے آپ کو سنگھ کا پرچارک سمجھتے ہیں اس
لئے لوگ سے مراد سنگھ سیوک ہیں۔ یہ لوگ اپنے علاوہ کسی کو انسان ہی کب
سمجھتے ہیں اور اپنے مخالفین کو شیطان سے کم نہیں سمجھتے۔ پونرجنم کے
بکھیڑے پر بھی یہی لوگ یقین رکھتے ہیں ۔
گجرات میں کیشو بھائی پٹیل کو دوبارہ اقتدار میں لانے کے بعد جب سنگھ
پریوار نے مودی جی کو گجرات سے تڑی پار کرکے دہلی روانہ کردیا تھا یا جب
امریکہ نےگجرات کے فسادات کے بعد ان کا اپنے ملک میں داخلہ ممنوع قرار دے
دیا تھا تو اس وقت مودی جی ضرور یہ سوچتے رہے ہوں گے کہ انہوں نے پچھلے جنم
میں کون سا پاپ کردیا جس کے سبب وہ ہندوستان میں پیدا ہوگئے اور سنگھ
پریوار کا حصہ بن گئے لیکن اب وزیراعظم بن جانے کے بعد صورتحال بدل گئی ہے
اس لئے ان کی سوچ بھی تبدیل ہونی چاہئے۔ممکن ہے ہنوز وہ ماضی میں جی رہے
ہوں اور ہندوستانی عوام کا نمائندہ ہونے کی حیثیت سے انہوں نے اپنی اس سوچ
کو سارے ہندوستان سے منسوب کردیا ہو؟ جمہوریت میں غالباً یہ ان کا حق ہے۔
اس سرکار کا المیہ یہ ہے کہ بات جہاں سے بھی شروع ہو گھوم پھر کر مودی جی
اور ان کی حماقتوں تک پہنچہی جاتی ہے اس لئے ضرورت اس بات کی ہے کہ ان کی
وجہ تلاش کی جائے۔بظاہر ایسا لگتا ہے کہ مودی جی یہ حرکات جان بوجھ کرنہیں
کرتے ہیں بلکہ ان سے وہ بے ساختہ سرزد ہوجاتے ہیں ۔ جیسےاگر کوئی شخص اپنے
پیر سے بڑا جوتا پہن لے اور تیزی سے چلنے کی کوشش کرے تو اوندھے منہ گر
پڑتا ہے۔ وہ جب اپنے گھر یا پریوار کے اندر گرتے ہیں تو کسی کو نظر نہیں
آتے مگر جب غیر ملکی دورے پر یہ ہوتا ہے تو ساری دنیا دیکھتی ہے۔ اپنی ان
حماقتوں سےدنیا کو روشناس کرنے کا اہتمام بھی وزیر اعظم خود کرواتے ہیں
لیکن سچی بات یہ ہے کہ اس میں ان کا کوئی قصور نہیں ہے۔ قصور ان لوگوں کا
ہے جنہوں نے ان کے پیر کی جسامت دیکھے بغیر انہیں اتنا بڑا جوتا پہنا دیا۔
اب نہ پیر بڑا ہوسکتا ہے اور نہ جوتا چھوٹا ۔ اس کے چلتے کبھی سیول تو کبھی
ٹورنٹو میں ہنگامہ کھڑا ہوجاتا ہے
ہندوستان کی عوام نے نہ صرف وزیراعظم کو غلط جوتا پہنا دیا بلکہ ان کے سر
پر بہت بڑا تاج بھی رکھ دیا ۔ مودی جی کے سر میں چونکہ بہت ساری ہوا بھری
ہے اس لئےبظاہر محسوس نہیں ہوتا کہ تاج ڈھیلا ہے لیکن یہ تو طبیعات کا
مسلّمہ اصول ہے کہ جب انسان ہوائی جہاز میں بیٹھ کر بلندی پر جاتا ہے توہوا
کے دباومیں کمی واقع ہوجا تی ہے اورمودی جی کے ساتھ جب ایسا ہوتا ہے تو تاج
زمین پر آجاتا ہے۔ یہ تاج جس عوام نے ان کے سر پرکھا ہے ساری غلطی انہیں
کی ہے مودی جی کا اسمیں کوئی قصور نہیں ، لیکن اس کے سبب بیچارے وزیراعظم
کو آئے دن ہزیمت اٹھانی پڑتی ہے ۔ بڑے بوڑھے کہتے ہیں کہ دنیا کے ہرمسئلہ
کا حل ہےمگر مودی جی کو اپنا یہ مسئلہ خود حل کرنا ہوگا۔ اس کا ایک آسان
سا حل تو یہ ہے کہ مودی جی اس تاج کو ازخود اتار دیں لیکن کسی بھی سیاستداں
کیلئے یہ بہت ہی مشکل کام ہے اس لئے اس متبادل کو چھوڑ دینا بہتر ہے۔
اس مسئلہ کا دوسرا حل یہ ہے کہ مودی جی اپنے سر میں سے ہوا کو نکالیں اور
اور اس کے اندر ٹھوس افکار ونظریات کو جگہ دیں ۔ اگر ان کے سر کی جسامت
اورتاج کا سائز یکساں ہو جائیگا تو یہ مسئلہ کسی قدر حل ہو جائیگا اور وہ
اپنے آپ کو بار بار گرنے سے بچا سکیں گے۔اس کیلئے انہیں ہوا میں اڑنے کے
بجائے زمین پراپنے قدم جمانے ہوں گے ۔ اس سے جوتوں کی اور پیروں کی جسامت
یکساں ہوجائیگی۔ مودی جی کو ایسا لگتا ہے عہدے پر آجانا ہی سب کچھ ہے جبکہ
حقیقت کی دنیا میں عہدہ سنبھالنے کے بعد اپنی کارکردگی سے اس کا حق ادا
کرنے کے بعد دنیا ذہانت و صلاحیت کا لوہاتسلیم کرتی ہے ۔’پہلے کام پھر
انعام‘یہ اصول مودی جی کی جلد باز طبیعت سے متصادم ہے اور یہی ٹکراو ان کا
سب سے بڑا دشمن ہے۔ ایک سال قبل وہ پہلی مرتبہ ایک ریاست سے نکل کر قومی
سیاست میں آئے تھے ۔ انہیں چاہئے تھا کہ دوتین سال جم کر کام کرتے ۔ جن
توقعات کے ساتھ لوگوں نے انہیں منتخب کیا تھا ان کو کسی نہ کسی حد تک پورا
کرتے تو اپنے آپ عالمی سطح پر ان کی ساکھ قائم ہوتی اور لوگ ان کی پذیرائی
کرتے لیکن انہوں نے قومی سطح پر آتے ہی کوئی بڑا کارنامہ انجام دئیےبغیر
عالمی سطح پر چھلانگ لگا دی ۔ اس جلدبازی نے انہیں نہ ملک کے اندر کچھ کر
کے دکھانے کا موقع دیا اور نہ ملک کے باہر ان کی قدروقیمت میں اضافہ کیا۔
مودی جی کو یاد رکھنا چاہئے کہ محض اقتدار میں آ جانا کام کا انعام نہیں
ہے بلکہ کچھ کردکھانے کا قیمتی موقع ہے جسے وہ بے دریغ ضائع کررہے ہیں۔
مودی جی ! شادی سے قبل خواب دیکھے جاتے ہیں اور شادی کے بعد ان کوشرمندۂ
تعبیرکیا جاتا ہے۔ حلف برداری کے بعد اب اقتدار کے ساتھ سات پھیرے ہو چکے
ہیں۔ اب لوگ خوابوں سے نکل کرحقیقت دنیا میں آنا چاہتے ہیں لیکن آپ خوابِ
غفلت سے بیدار ہونا ہی نہیں چاہتے۔ ایسا نہ ہو کہ آئندہ انتخابات کے نتائج
ہی آپ کی نیند اڑائیں؟ یا درمیان ہی میں بی جے پی کو اپنی غلطی کا احساس
ہوجائے اور وہ صرف باتیں کرنے والے وزیراعظم کے بجائے کسی کام کرنے والے
آدمی کے ہاتھوں میں اقتدار کی باگ ڈور سونپ دے ۔ پہلی سالگرہ سے قبل
راجناتھ کا سنگھ کے سنگھ کےدفتر ناگپور جانا اور پھر امیت شاہ کا بلایا
جانا اپنے اندر بہت سارے پیغامات رکھتا ہے ۔ امیت شاہ کے بعد وزیرخزانہ
ارون جیٹلی کے بجائے وزیردفاع منوہر پریکر کے ناگپور درشن میں بھی (ان
لوگوں کیلئےجو اقتدار کے نشے میں مدہوش نہیں ہیں) واضح اشارے موجود
ہیں۔سرکار پہلی سالگرہ منانے کی خوشی میں اگر ان خطرات سے چشم پوشی کی جائے
تو جلد یا بہ دیر بڑا حادثہ رونما ہو سکتا ہے۔ |