جغرافیائی تزویراتی اہمیت کا
مطلب کسی ملک کے محل وقوع کے حوالے سے اس کی اہمیت ہوتا ہے کہ اسے اپنی
جغرافیائی حیثیت کی بنا پر کیا فوائدحاصل ہوسکتے ہیں اور وہ اس کے بل بوتے
پر کسی طرح پر بین الاقوامی سطح پر قابل ذکر اثرات مرتب کرسکتا ہے۔ پاکستان
جغرافیائی طور پر ایک لاثانی محل وقوع کا حامل ہے ۔اس کی سمندری خدودخلیج
فارس کے ساتھ ملتی ہیں ۔یہ چین اور جنوبی ایشیا کا گیٹ وے ہے۔ یہ وسطی
ایشیائی ریاستوں جن کو کوئی سمندر نہیں لگتا کو بحر ہند اور بحیرہ عرب کے
گرم پانیوں تک رسائی فراہم کرتا ہے۔ بھارت کے ساتھ اس کی سرحد مشترک ہے۔ یہ
تیل کی دولت سے مالامال خلیج فارس اور آبنائے ہرمز کے قریب واقع ہے۔یہ
جنوبی ایشیا اور جنوب مغربی ایشیا کو ملانے کے لیے پل کا کام کرتا ہے۔درہ
خیبر کے ذریعے افغانستان تک اور شاہراہ قراقرام کے ذریعے چین تک رسائی
فراہم کرتا ہے۔ کراچی اس کی بڑی بندرگاہ ہے اور دنیا بھر کے بحری جہازوں
میں ایندھن بھرنے کا ایک بڑا اڈہ ہے۔ چین گودار بندر گاہ کو بھرپور تجارتی
سرگرمیوں کے قابل بنانے میں اس لیے دلچسپی رکھتا ہے کہ یہ اس کے لیے
تزویراتی فوائد کی حامل ہے۔
گوادر منصوبہ نہ صرف پاکستان بلکہ پورے علاقے کے لیے اہم ہے۔مثال کے
طورپرچین کو تیل حاصل کرنا ہوتو اسے آبنائے ملا کا کے ذریعے بہت لمباراستہ
اختیار کرنا پڑتا ہے اوریہ وہ علاقہ ہے جو امریکہ کے زیرتسلط ہے چین کو تیل
اپنے مغربی علاقوں تک لانے کے لیے ہزاروں میلوں کا سفر طے کرنا پڑتا
ہے۔گوادر بندر گاہ نہ صرف اس فاصلے کو کم کردے گی بلکہ اس کے تیل کو تحفظ
بھی دے گی۔ مزید براں گوادر میں نیول بیس کے ذریعے چین کو مشترق وسطی کے
ساتھ تجارت کرنا آسان ہوگا۔ پاکستان کو ان مواقع سے ضرور استفادہ کرنا
چاہیے جو قدرت نے اس کے خصوصی محل وقوع اور دوسرے سیاسی عوامل کی بنا پر
اسے ودیعت کیے ہیں۔پاکستان کے پاس دنیا کے بلند ترین تین بڑے پہاڑی سلسلے
ہیں کہا جاتا ہے کہ یہ پہاڑی سلسلے اسے سائبیریاکی سردہواؤں سے بچاتے
ہیں۔یہاں بڑے بڑے گلیشر اس کے دریاؤں کوپانی فراہم کرتے ہیں۔ہماری بڑی
مارکیٹ ہمارے ہمسایہ ملکوں کی اشیاکی برآمدات کے لیے حب کاکام دے سکتی ہے۔
کھوکھراپارسرحد کے ذریعے تین بلین ڈالر کی سرمایہ کاری اور لاکھوں لوگوں کے
لیے روزگار کے مواقع پیدا کرسکتی ہے۔ اس طرح ہم سو ست کی سرحد کے ذریعے
قازقستان ،ایران کرغیزستان کے ساتھ تجارت کو پانچ گنا بڑھا سکتے ہیں۔اگر
طور خم اور چمن کو ٹرانزٹ ٹریڈ (تجارتی راہداری)کے لیے استعمال کیا جائے تو
یہ ہمیں 500ملین ڈالر تک اضافی آمدنی دے سکتی ہے۔
پاکستان نے شدت پسندی اور انتہا پسندی کے خلاف جنگ میں امریکہ کا ساتھ دیتے
ہوئے فرنٹ لائن سٹیٹ کے طور پر گراں قداخدمات انجام دی ہیں اور امریکہ کئی
بار اس حقیقت کا اعتراف کرچکا ہے کہ پاکستان کی حمایت کے بغیر دشت گردی کے
خلاف جنگ نہیں جیتی جا سکتی تھی۔چین اور امریکہ دونوں پاکستان میں اپنا
اثرور سوخ بڑھانے میں دلچسپی رکھتے ہیں ۔پاکستان اپنی جغرافیائی اہمیت کے
پیش نظر اس صورت حال سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھا سکتا ہے۔یہ بات وثوق سے
کہی جاسکتی ہے کہ ایک انتہائی اہم عنصر جو کسی ملک کے لیے مددگار ثابت
ہوسکتا ہے وہ اس کے انسانی وسائل ہیں۔جو پاکستان کے پاس وافرہیں کیونکہ
پاکستان آبادی کے لحاظ سے دنیا کا پانچواں بڑا ملک ہے۔جس میں اکثریت
نوجوانوں کی ہے۔ اس کے پاس دنیا کی پانچویں بڑی سونے کی کان اور دوسری بڑی
نمک کی کان ہے۔
پاکستان کے پاس تجارتی سرگرمیوں کی بہت بڑی استعدادموجود ہے جس کو بروئے
کار لا کر اربوں ڈالر کمانے کے روشن امکانات ہیں۔یہی وجہ ہے کہ زمانہ قدیم
سے مختلف ممالک اس خطے کو للچائی ہوئی نظروں سے دیکھتے رہے ہیں اور ان کی
اس خطے میں یہ دلچسپی سکندارعظم سے لے کر آج تک برقرار ہے۔ اب بھی وقت ہے
ہماری قیادت یہ پیغام جدید دنیا کی دہلیز تک پہنچا دے کہ ہم نے اپنی مذہبی
اقلیتوں کو کامیابی سے تحفظ دیا ہے اور جہاں کہیں بھی مسلمان بستے ہیں ۔ان
کو بھی اس طرح کا تحفظ ملنا چاہیے۔اب تو ہماری خواتین کی ایک بڑی اکثریت
سیاسی سرگرمیوں میں شریک ہوچکی ہے اور انہیں بااختیار بنا دیاگیا ہے۔آج ہم
پرعزم، جدید اور آگے کی جانب دیکھنے والی قوم بن چکے ہیں۔ اس میں کوئی
مبالغہ آرائی نہیں کہ ہمارے تعلیم یافتہ اور پرجوش نوجوان دنیا میں انتہائی
زرخیز ذہن رکھنے والوں میں شمار ہوتے ہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ان کی
توانائیوں کو درست سمت میں بروئے کار لایاجائے اور انہیں دنیا میں پاکستان
کانام روشن کرنے کے موقع فراہم کیے جائیں تاکہ پاکستان کو معجزانہ ترقی سے
ہمکنار کرسکیں۔
پاکستان کے شمال مغربی علاقے اگر قدرتی وسائل سے مالامال ہیں تو شمال مشرقی
علاقے کے لوگ بہت جفاکش ذہین اور محنتی ہیں ۔ پاکستان جنوبی ایشیا ،مغربی
ایشیا اور وسطی ایشیا کا جنکشن ہے۔ یہ وسائل کی کمی کا شکار ملکوں اور
وسائل کی فراوانی کے حامل ملکوں کو آپس میں ملاتا ہے۔دنیا کو آج توانائی کے
بحران اور دہشت گردی کا سامنا ہے۔پاکستان ان ملکوں کے لیے ذرائع رسل ورسائل
کی فراہمی کا بڑا ذریعہ ہے اور دہشت گردی کے خلاف فرنٹ لائن ہے۔یہ جنوبی
ایشیا اور جنوب مغربی ایشیا کے مابین ایک طرح پل کا کردار ادا کرتا
ہے۔ایران اور افغانستان کے پاس توانائی کے وافر وسائل ہیں جبکہ بھارت اور
چین میں ان چیزوں کی کمی ہے۔چین اپنی تیز ترین معاشی ترقی کی شرح جو 9فیصد
ہے کے ساتھ اپنے جنوبی صوبوں کو ترقی دے رہا ہے جبکہ اس کی اپنی بندر گاہ
سنکیانگ سے 4500کلومیٹر دوری پر واقع ہے جبکہ گو ادر 2500کلومیٹر کے فاصلے
پر ہے ۔پاکستان نے ایران (4500کلومیٹر)یا ترکی (5000کلومیٹر)کے مقابلے میں
وسطی ایشیائی ریاستوں کو 2600کلومیٹر کے مختصر راہداری کی پیش کش کی
ہے۔بحری راستوں سے محروم افغانستان تعمیر نو کے مرحلے سے گزر رہا ہے وہ بھی
سمندر تک رسائی کے لیے پاکستان کا محتاج ہے۔ گہرے پانیوں کی بندر گاہ گو
ادر چین، وسطی ایشیائی ریاستوں اور جنوب مشرقی ایشیائی ممالک کے لیے بہت
کشش رکھتی ہے۔ایران اپنی فالتو گیس اور تیل دیگر ممالک کو برآمد کرنے کے
لیے جدوجہد کر رہا ہے۔قطر، پاکستان اور ترکمانستان پائپ لائن منصوبے اس کی
پوز یشن کو اجاگر کرتے ہیں۔اگر گیس منصوبہ کامیاب ہو جاتا ہے تو پاکستان کو
سالانہ 400ملین ڈالر حاصل ہوں گے۔
ہمالیائی سلسلے یعنی ہمالیہ پہاڑ اور شمال میں کوہ ہندوکش پانی اور قدرتی
وسائل سے مالامال ہیں اور پاکستان کی بہت بڑی دولت ہیں۔امریکہ کی اس علاقہ
میں دلچسپی اس وجہ سے ہے کہ وہ ابھرتی ہوئی عالمی طاقت چین اورجوہری صلاحیت
کے حصول کی جدوجہد میں مصروف ایران اور دہشت گرد افغانستان کا راستہ روکنا
اور بھارتی منڈیوں تک رسائی چاہتا ہے ۔سیکورٹی اور بزنس امریکہ کے اس علاقے
میں دو بڑے مفادات ہیں جبکہ پاکستان بالواسطہ یابلاواسطہ ملوث ہے بالخصوص
اتقاعدہ آپریشنوں کے بعد امریکی دانشور باربار اس حقیقت کا اعترف کرچکے ہیں
کہ پاکستان کی مدد کے بغیر دہشت گردی کے خلاف جنگ نہیں جیتی جا
سکتی۔پاکستان دہشت گردی کے خلاف بے جگری سے لڑا ہے اور اب بھی جنوبی
وزیرستان میں مشتبہ طالبان کے ٹھکانوں کو تباہ کرے کے لیے اس کی افواج ضرب
عضب آپریشن میں مصروف عمل ہیں۔ کشمیر ہمیشہ کی طرح جنو بی ایشیاء میں اب
بھی فلیش پوائنٹ بنا ہواہے۔جس نے خطے میں جو ہری ہتھیاروں کی دوڑ کو تیز
کردیا ہے۔ پاکستان کی غیر مستحکم حکو متیں بھی اس کی پوزیشن کو کمزور کرنے
کا باعث بنی ہیں۔وقت کا تقاضا یہ ہے کہ ہمسایہ ملکوں اور سپر طاقت کے ساتھ
خوشگوار تعلقات استوار کرنے کے ساتھ ساتھ ہمیں ان کو یہ بات سمجھانی چاہئے
کہ پاکستان عسکریت پسندوں کے خلاف آپریشنوں میں67بلین ڈالر سے زیادہ نقصان
اٹھا چکاہے اور القاعدہ کے اہم اثاثوں کو تباہ کرنے میں قوت محرکہ فراہم
کرچکا ہے ۔ ہم نے اس سلسلے میں ہر ممکن تعان کیا ہے اس لیے اس کی علاقائی
خودمختاری کو تحفظ ملنا چاہیے۔ اگر ہم اپنی سڑکوں کے نیٹ ورک کو بہتر
بنالیتے ہیں قوہم اربوں ڈالر بچا سکتے ہیں اس کے لیے ہمیں اپنی سڑکوں کو
بین الاقوامی معیار کے مطابق لانا ہوگا۔چین پاکستان اقتصادی راہداری اس
سلسلے میں انتہائی اہمیت کی حامل ہے اور پاکستان کی تذویراتی اہمیت کو
دوچند کردے گی۔ تاہم اس راہداری کو بہت سے اندرونی و بیرونی خطرات کا سامنا
ہے۔ حکومت اس سلسلے میں بہت سے اقدامات اٹھا چکی ہے۔ چین نے پاکستان میں جو
منصوبے شروع کئے ہیں ان کی حفاظت کے لیے ایک ڈویژن فورس تشکیل دینے کا
فیصلہ بھی کیا گیا ہے تاہم بہت سی سیاسی قوتیں خوشحالی کے اس منصوبے کی راہ
میں روڑے اٹکا رہی ہیں۔ تاہم یہ طے ہے کہ اب پاکستانی قوم اس طرح کے سیاسی
شعبدہ بازوں کے ہاتھوں میں آنے والی نہیں اور کسی بھی ایسی فورس کا حصہ
بننے کے لیے تیار نہیں جو ان ترقیاتی کاموں میں رخنہ ڈالنے کی کوشش کرے۔ |